گنے کی فصل اور یونیورسٹی آف ایجوکیشن لیہ – پنبہ کجا کجا نہم


سب وعدے دعوے تبدیلی حکومت کے دھرے کے دھرے یوں رہ گئے ہیں کہ کاشتکاروں کو گنا کی فروخت میں دھکے کھانے کو مل رہے ہیں، کہانی یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ نومبر کے بعد دسمبر گزرا اور اب تو جنوری آچکا ہے بلکہ گزرتا جا رہا ہے لیکن ابھی تک گنا کی خریداری کے لئے کہانیاں چل رہی ہیں، اب گنا خریدنے کا دھندہ شروع بھی کیا گیا تو کاشتکار کا نقصان یوں ہوچکاہے کہ گنا کی کٹائی اور چھلائی کا ایک مخصوص موسم ہوتا ہے، وہ ہاتھ سے تیزی سے نکلتا جارہا ہے، دوسری طرف گنا کا وزن تیزی سے کم ہورہا ہے۔

اسی طرح موسم کی تبدیلی میں شوگر ملوں میں گنا قبول کرنے میں وزن کی کٹوتی سمیت دیگر گھٹیا حربے استعمال کیے جاتے ہیں۔ ادھر فروری شروع ہونے پرکاشتکاروں کو چھلائی کے لئے مزدور نہیں ملتے ہیں، کیوں کہ مزدور گرمی میں گنا کی چھلائی کی بجائے سردیوں میں ترجیح دیتے ہیں۔ اسی طرح جو کاشتکار گنا کے بعداگلی فصل کاشت کرنے میں دلچسپی رکھتے ہیں، وہ بھی وقت ہاتھ سے نکل جاتا ہے، کیوں کہ فروری میں رقبہ خالی نہ ہوتو اگلی فصل کی کاشت میں دیر ہوجاتی ہے۔

یوں کسان کی جان شکنجے اندر پھنس کررہ جاتی ہے بلکہ وہ تڑپنا شروع کردیتا ہے۔ اس بار شوگر ملز کی طرف سے گنا نہ خریدنے پر تحریک انصاف کے رہنما جہانگیر ترین جوکہ سیاست کی بجائے شوگر ملز کی دنیا میں بے تاج بادشاہ سمجھے جاتے ہیں، ان کو کاشتکار دعاوں کی بجائے الٹا جھولیاں اٹھاکر کچھ اور دے رہے ہیں۔ اس بات کو سب بخوبی سب جانتے ہیں کہ شوگرملز مالکان اقتدار کے تخت پر دیکھنے کو ملتے ہیں جیسے کہ جہانگیر ترین وزیراعظم عمران خان کے قریبی صلاح کار ہیں مطلب سیاست میں ایک دوسرے کے لئے لازم و ملزوم ہیں، کیونکہ امیر ترین اپوزیشن کے دنوں میں جہاز کی سروس فراہم کرتے تھے، اقتدار کے دنوں میں بھی ان کی ضرورت پڑے تو وہ آزاد ارکان کو اکٹھا کرنے میں بھی پوری قوت کے ساتھ اپنا کردار نبھاتے ہیں یوں گنا خریداری بحران پر واقفان حال کہتے ہیں کہ کاشتکار دعاؤں کی بجائے درخواستیں بھی دیں تب بھی وہی ہوگا جوکہ طاقتور شوگرملز مالکان کی مرضی ہوگی۔

دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ ہمارے ملک میں گنا سستا لیاجاتا ہے اور چینی مہنگی فروخت کی جاتی ہے۔ اس باریک واردات کے پیچھے دلچسپ کہانیاں سننے کو ملتی ہیں۔ جن سے چغلی ملتی ہے ان واردات کا تانا بانا بھی اقتدار کی راہداریوں سے جاکر ملتا ہے۔ گنا کا نرخ ہمیشہ حکومت کے اعلان کردہ نرخ کے مطابق نہیں ملتا ہے۔ وہ نرخ مانگنے کی کسان کوشش کرے تو شوگر ملز مالکان یہی کرتے ہیں جوکہ اب ہورہا ہے کہ ملز کو بند کرکے کسانوں کی بولتی بند کرنے کا بٹن دبا دیا جاتا ہے۔

وہ کا شتکار جوکہ سال بھر اپنی جیب سے اخراجات برداشت کرکے گنا کی فصل تیار کرتا ہے، بدلتے موسموں کی شدت سے لے کر دیگر معاملات میں اپنا وقت دیتا ہے، اور پرامید ہوتا ہے کہ اس بار شوگرملز کی طرف سے گنا کی خریداری کے لئے اس کو ٹرالیوں کے ساتھ کئی کئی راتیں شوگر ملز کے گیٹ اور سڑکوں پر سونا نہیں پڑے گا۔ اس کا گنا کھیت میں خراب کرانے کی بجائے وقت پر خریداجائے گا اور اس کو نرخ بھی وہی ملیگا جوکہ حکومت کی طرف سے اعلان کردہ ہے لیکن موصوف گپ اس وقت بن جاتا ہے، جب شوگر ملز کی طرف سے نرخ 190 روپے کی بجائے 150 روپے کی کہانی سنتا ہے۔

کسان پھر حکومت کی طرف دیکھتاہے کہ وہ شوگر ملز مافیا کے عذاب سے بچانے کے لئے کوئی کردار ادا کرے لیکن کیا ہوتا ہے کہ وہاں پر بھی وہی شوگرملز مالکان یا پھر ان کے کاروباری حصہ دار سیاستدان بیٹھتے ہوتے ہیں۔ یوں وہی ہوتا ہے جوکہ ان کے سیلبس کے مطابق ہوتا ہے۔ کسانوں کے دکھ اور درد کو نہ اپوزیشن سمجھتی ہے اور نہ ہی حکومت اس بارے میں کوئی دوٹوک پالیسی اختیار کرتی ہے۔ اس طرح کسانوں کی نمائندگی حکومت کی سطح پر بھی نہیں ہوتی جوکہ ان کا مقدمہ لڑے کہ آخر مہنگی چینی فروخت کرنے والے گنا سستا لینے پر بضد کیوں ہیں۔

لیہ کے کاشتکاروں بھی شوگر ملز کی طرف سے گنا کی خریداری بند کرنے پر اذیت کا شکار ہیں، وہی چل رہا ہے جوکہ دیگر اضلاع کے گنا کے کاشتکاروں کے ساتھ ہورہا ہے، ڈاکٹر جاوید کنجال سے اس حوالے سے بات ہوئی تو ان کا کہنا تھاکہ گنا کے کاشتکار رل گئے ہیں، ان کا کوئی پرسان حال نہیں ہے۔ لیہ شوگر ملز کی کہانی یوں تکلیف دہ ہے کہ لیہ کے عوام کے وسائل سے وجود آنیوالی شوگر ملز کونواز لیگی لیڈر نواز شریف کے دوسرے دور حکومت میں کوڑیوں کے بہاؤ یوں فروخت کیا گیا کہ جیسے چوری کا مال فروخت کیاجاتا ہے۔

ڈاکٹر جاوید کنجال اور ملک مقبول الہی سمیت دیگر دوستوں کے مطابق لیہ شوگر ملز کی جتنی زرعی زمین اور کالونی تھی، اس کی قمیت بھی پوری نہیں دی گئی تھی، شوگر ملز کی اپنی قمیت دینا تو دور کی بات ہے، مطلب لیہ کے عوام کے اثاثہ کے ساتھ وہی ہوا جوکہ یہاں کے لئے سیبلس چلا آرہا ہے کہ مال مفت دل بے رحم، مطلب حکومت میں موجود شریفوں نے اپنے پیاروں کو لیہ شوگر ملز کا مالک یوں بنایاکہ رہے نام اللہ کا، ان کی لاٹری نکلی اور لیہ کے عوام کے حق پر دن دیہاڑے ڈاکہ پڑ گیا تھا۔

ادھر لیہ کے عوام سے شوگر ملز جیسے اہم اثاثہ کی فروخت کی وقت نوازلیگی حکومت کی طرف سے کوئی رائے لینے کی زحمت بھی گوارا نہیں کی گئی تھی، دوسری طرف لیہ کے سیاستدانوں نے بھی وہی انداز سیاست شوگر ملز کے معاملے پر رکھا جوکہ ان کا طرہ امیتازہ ہے کہ ان کو تخت لاہور اور اسلام آباد کے ایسے عوام دشمن فیصلوں کے وقت خاموشی کا دورہ پڑجاتا ہے۔ لیہ کا اتنا قیمتی اثاثہ فروخت ہوا لیکن لیہ کے عوام کو آج تک پتہ نہیں ہے کہ اس سے حاصل ہونیوالی رقم کا کیا ہوا، وہ لیہ میں کہاں خرچ کی گئی تھی، کیوں کہ لیہ کے عوام تو پہلے سے بھی برے حال کی طرف گامزن ہیں۔

تھل بالخصوص لیہ کے ساتھ شوگر ملز کہانی سے لے کر دیگررواء رکھے گئے ایشوز جوکہ صحت، تعلیم اور روزگار کے متعلق ہیں، وہ ایک خواب ہیں۔ لیہ ضلعی ہسپتال تحصیل ہیڈ کوارٹر میں عمارت کام کررہا ہے، لیہ کے ضلعی ہسپتال کے لئے مختص زمین کہاں پڑی ہے اور اس زمین پر ضلعی ہسپتال لیہ کی عمارت بنانے کا فیصلہ 35 سال بعد بھی کیوں نہیں ہوسکا ہے۔ اسی طرح ٹیکنکل کالج لیہ جوکہ 1964 میں بنایاگیا تھا، وہ آج تک نہ ٹیکنالوجی کالج کا سفر طے کرسکا ہے اور نہ ہی انجئینرنگ یونیورسٹی بنانے کا فیصلہ ہوا ہے۔

ادھر کامرس کالج کوٹ سلطان جوکہ نواز لیگی دور میں کمال مہارت سے 11 مرلہ زمین پر بنایاگیا تھا، اور اس کالج کے لئے ایک کمرہ ہے، جہاں یا استاد بیٹھ سکتے ہیں یا پھر 160 طلباء اس شدید شردی اور گرمی کے دنوں میں تعلیم حاصل کرسکتے ہیں۔ ادھر نوازلیگی قیادت نے کامرس کالج کوٹ سلطان کی عمارت اور زمین کا مناسب بندوبست کرنے کی بجائے اس بات پر فوکس کیا تھا کہ تھانہ کوٹ سلطان جوکہ ایک مناسب عمارت میں کام کررہا تھا، اس کے لئے پرانی عمارت کے ساتھ نئی عمارت بنوائی گئی تھی، یوں تھانہ کوٹ سلطان ایکڑوں اور نئی عمارت میں ہے جبکہ کامرس کالج کوٹ سلطان کے لئے گیارہ مرلہ زمین بھی بمشکل دی گئی، اس کالج کہانی سے تخت لاہور کے حکمرانوں کی علم دوستی کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے، دوسری طرف مقامی ارکان اسمبلی کے سیاسی شعور کا بھی پتہ چلتا ہے۔

اسی طرح کوٹ سلطان سے جڑے علاقہ پیر جگی جوکہ نوازلیگی رکن قومی اسمبلی کا گھر بھی تھا، وہاں پر بھی نیا تھانہ پیر جگی بنوانے کو ترجیح دی گئی جبکہ کام یہ بھی ہوسکتا تھا کہ کامرس کالج کوٹ سلطان جوکہ گیارہ مرلہ زمین پر قائم ہے، اس کے لئے زمین کا بندوبست کرتے اور کالج کی عمارت کالج کے معیار کے مطابق بنواتے۔ دوسری طرف کمرشل انسٹی ٹیوٹ برائے خواتین لیہ ایک ہاسٹل میں کام کررہا ہے، اس کی عمارت کب بنے گی؟ سالوں گزرنے کے باوجود اس بارے میں کوئی اتہ پتہ نہیں ہے۔

ذکریایونیورسٹی کے لیہ کیمپس پر کیا لکھا جائے، یونیورسٹی آف ایجوکیشن لیہ کی عمارت بنی تھی، وہاں یونیورسٹی آف ایجوکیشن کی کلاسوں کا اجراء کرانے کی بجائے ذکریا یونیورسٹی کے کمیپس کو گھیسڑ دیا گیا تھا، یوں یونیورسٹی آف ایجوکشین لیہ کے بارے میں کوئی اتہ پتہ نہیں ہے کہ وہ کس آسمان پر بنائی گئی ہے، یا پھر اس کو زمین کھا گئی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یونیورسٹی آف ایجوکیشن لیہ کے بارے میں پنجاب حکومت سے لے کر ضلعی انتظامیہ لیہ بتانے پر تیار نہیں ہے کہ وہ کہاں ہے؟

ذکریا یونیورسٹی کے لیہ کمپیس کا جو حال ہے، وہ یہاں لکھنے سے اور تکلیف ہوگی، آدھا تیتر اور آدھا بیٹر والی صورتحال چل رہی ہے، فیکلٹی سے لے کر دیگر ایشوز اس کا مذاق اڑا رہے ہیں، پھر لیہ میں ضرورت یونیورسٹی کی تھی لیکن لیہ کو ادھورا کمیپس دے کر جان چھڑائی گئی۔ یہاں یہ بات بھی غور طلب ہے کہ لیہ میں ذکریا یونیورسٹی کے لیہ کمیپس کے اندر اور باہر ان افراد کے نام لکھ دیے گئے جن کا لیہ کی تعلیم میں کوئی کردار نہیں ہے، مطلب نواز لیگی ایم پی اے نے اپنے خاندان نام لکھوا دیئے تھے۔

اب اطلاعات ہیں کہ ان کے حوالے سے بھی ایشوز چل رہے ہیں، مطلب ایسی کاریگری جوکہ نوازلیگی ایم اپی اے اعجاز اچلانہ کی طرف سے کی گئی تھی، اس کی کیا ضرورت تھی، ایک طرف یونیورسٹی آف ایجوکیشن لیہ کا بیٹرہ غرق کروایا دوسری طرف ذکریا یونیورسٹی کے لیہ کمیپس کو بھی مذاق بنادیا گیا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments