تاریخ کے کچھ اوراق سے


602 ء میں جب فوکاس نے مارکیس کا قتل کردیا تھا اور خود رومی سلطنت پر قابض ہو گیا تھا۔ شہنشاہِ فارس نوشیرواں عادل کا بیٹاخسرو پرویز تھا جو کہ مارکیس کا داماد تھا۔ اس نے فوکاس سے بدلہ لینے کی ٹھانی۔ اس نے 603 ء میں روم پر چڑھائی کر دی۔

جبکہ فارس کا مذہب آتش پرستی تھا۔ جبکہ روم جس کا سرکاری مذہب 325 ء میں شہنشاہ قسطنطین کے مسیحیت قبول کرنے کے بعدعیسائی ہو چکا تھا۔ جس کی وجہ سے چرچ کے مخالف فرقے نیز یہودی پہلے سے رومی حکومت سے ناراض تھے۔ اسی ناراضی پر انہوں نے روم دشمنی میں نئے فاتحین کا ساتھ دیا، اس چیز نے خسرو کی کامیابی کو بہت آسان بنا دیا تھا۔ اور خسرو انطاکیہ کو فتح کرتے ہوئے یروشلم پر قابض ہو گیا۔ یوں ایرانی سلطنت کی حدود فرات سے پار نکل کر یکایک وادی نیل تک وسیع ہو گئیں۔

فوکاس کی شکست دیکھ کر چند اعیانِ سلطنت نے افریقی مقبوضہ کے رومی گورنر کے یہاں پیغام بھیجا کہ وہ ملک کو بچانے کی کوششکرے۔ روم کو فوکاس کی نا اہلی سے بچانے کے لیے اُس نے اپنے بیٹے ہرقل کو اِس مہم پر روانہ کیا۔

ہرقل سمندر کے راستہ سے روانہ ہوا اور یہ ساری کارروائی اس قدر خفیہ اور رازداری کے ساتھ انجام پائی کہ فوکاس کو اُس وقت تک خبر نہیں ہوئی جب تک اُس نے اپنے محل سے سمندر میں آتے ہوئے جہازوں کے نشانات نہیں دیکھ لئے۔ ہرقل نے فوکاس کو قتل کر دیا اور دارالسطنت پر قابض ہو گیا۔ ہرقل نے فوکاس کو تو ختم کردیا۔ مگر وہ ایرانی بادشاہ کو روکنے میں کامیاب نہ ہو سکا۔ 616 ءتک رومی دارالسطنت سے باہر اپنی شہنشاہی کا تمام مشرقی اور جنوبی حصہ کھو چکے تھے۔

عراق، شام، فلسطین، مصر، ایشیائی کوچک ہر جگہ صلیبی علم کے بجائے درفش کاویانی لہرا رہا تھا۔ رومی سلطنت قسطنطنیہ کی چار دیواری میں محدود ہو کر رہ گئی تھی۔ آتش پرست ایرانیوں نے روم پر قبضہ کرنے کے بعد مسیحیت کو مٹانے کے لئے شدید ترین مظالم شروع کردیے تھے۔ مذہبی شعائر کی توہین شروع کی گئی، گرجا گھر مسمار کردیے گئے، تقریباً ایک لاکھ عیسائیوں کو بے گناہ قتل کردیا گیا۔ ہر جگہ آتش کدے تعمیر کیے گئے اور مسیح کے بجائے آگ اور سورج کی جبری پرستش کو رواج دیا گیا۔ مقدس صلیب کی اصل لکڑی جس کے متعلق عیسائیوں کاعقیدہ تھا کہ اس پر مسیح نے جان دی تھی، وہ چھین کر مدائن پہنچا دی گئی۔

اگر خسرو کا مقصد صرف فوکاس سے بدلہ لینا ہوتا تو وہ اپنے سسر اور محسن مارکیس کے قاتل فوکاس کو قتل کرنے پر ہرقل کا شکریہ اداکرتا۔ لیکن اس کے برعکس خسرو فتح کے نشہ میں ڈوب کر اپنے آپ کو اتنا بڑا سمجھنے لگا تھا کہ اس کا اندازہ خسرو پرویز کی طرف سے ہرقل کو بیت المقدس سے لکھے خط سے لگایا جا سکتا ہے۔

”سب خداؤں سے بڑا خدا، تمام روئے زمین کے مالک خسرو کی طرف سے اس کے کمینہ اور بے شعور بندے ہرقل کے نام۔ تو کہتاہے تجھے اپنے خدا پر بھروسا ہے، کیوں نہ تیرے خدا نے یروشلم کو میرے ہاتھ سے بچا لیا“

لیکن جب چھ سال کی لڑائی نے خسرو کو بالآخر کچھ شرائط پر صلح کی طرف مائل کیا۔ اس نے شرط پیش کی۔

”ایک ہزار ٹالنٹ سونا، ایک ہزار ٹالنٹ چاندی، ایک ہزار ریشمی تھان، ایک ہزار گھوڑے اور ایک ہزار کنواری لڑکیاں“۔

ہرقل کے پاس وقت کم اور علاقہ محدود تھا۔ جس سے اس نے شرائط کی تکمیل کرنا تھی۔ اس لیے زیادہ ترجیح والی بات یہ تھی وہ انہی ذرائع کو دشمن کے خلاف آخری حملہ کی تیاری کے لئے استعمال کرے۔ اور ہوا بھی یہی ہرقل نے اپنے پاس دستیاب وسائل سے جنگ کی تیاری کی اور خسرو کے غرور اور تکبر کو خاک میں ملانے نکل پڑا۔ ایسی خوفناک جنگ ہوئی کہ وہ خسرو جو اپنے آپ کومطلق العنان سمجھتا تھا۔ جو سمجھتا تھا اُس کی اجازت کے بغیر اس کی سلطنت میں پتا تک نہیں ہل سکتا۔ وہ بے یارومدگار ذلیل ہوتا پھر رہا تھا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments