ریاست ہو گی ماں کے جیسی


پاکستان کی نوزائدہ مملکت کے لیے ہر محاذ پر نت نئے مسائل ابھر رہے تھے۔ وادی کشمیر جوکہ پاکستان کے ریاستی مفاد کے لیے شہ رگ کی حثیت رکھتا ہے، وہاں پر حالات بہت زیادہ خراب ہو گئے تھے۔ جناح صاحب جیسے زیرک سیاسیدان کو حالات کی سنگینی کا اندازہ تھا۔ حالات کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے جناح صاحب افواج پاکستان کو کشمیر میں کارروائی کا حکم صادر کر دیتے ہیں۔ لیکن افواج پاکستان کے کمانڈر ان چیف جرنل سر فرینک والٹر میسروی صاحب جنگ لڑنے سے انکار کر دیتے ہیں۔ اور ایک عجیب سی غیر یقینی صورتحال بن جاتی ہے۔ ان حالات میں وزیرستان کے قبائل بغیر کیسی ذاتی مفات اور لالچ کے دفاع وطن کے لیے آگے بڑھتے ہیں اور اپنے خون سے ایک تاریخ رقم کرتے ہیں اور وہ تاریخ پاکستان کو آزاد کشمیر بطور تحفہ پیش کرتے ہیں۔

آج انہی قبائل کے نوجوان خواتین بوڑھے ایک نوجوان منظور احمد پشتین کی قیادت میں ریاست ماں سے اپنے حصے کی محبت اور شفقت کا مطالبہ کر رہی ہے۔ جنوری کے اس یخ بستہ ماحول میں بنوں گل کے تاریخی شہر میں لاکھوں لوگوں کا اجتماع اس بات کی عکاسی کرتا کہ ”اس شہر کے سلطان سے کچھ بھول ہوئی ہے“ اور اس کا ازالہ نا گزیر ہے ورنہ مایوسی ہمشیہ بغاوت کو جنم دیتی ہے۔

ریاست اور ریاستی اداروں کا کام۔ اپنے عوام سے مقابلہ نہی بلکہ اپنی عوام کے حقوق کے تحافظ کی غیر مشروط یقین دہانی ہوتی ہے۔

ریاست ہو گی ماں جیسی جس کی نظر میں سب بچے برابر ہوں گے اور ریاست ہر بچے کو یہ یقین دلائے گی کہ اس کی نظر میں سب برابر ہے۔ ریاست شہریوں کے درمیان محبتیں بڑھاتی ہے۔ فاصلے کم کرتی ہے اور سبکو تحفظ دیتی ہے۔

ریاستی شہریوں کی بھی یہ ذمے داری ہوتی ہے۔ کہ وہ باہمی عزت اور احساس کا رشتہ یقینی بنائے۔ یہ حق کیسی کو نہی دیا جا سکتا کہ وہ فیصلہ کریں کہ کون زیادہ محب وطن ہے اور کون کم

لاہور اور اسلام آباد کے لوگوں کو یہ لائیسنس کبھی نہی دیا جاسکتا کہ وہ لوگوں کے حب الوطنی کے پیمانے بنائے۔ یہ غدار غدار اور کافر کافر کاکھیل اس ملک کی دیواروں کو کھوکھلے کئیے جارہا ہے۔ کیوں نہ لڑنے کے بجائے ایک دوسرے کی بات سن لی جائے کیوں نہ طاقت کے بجائے دلیل کو مضبوط کیا جائے۔ اگر ملک کے کسی حصے میں بہت سارے لوگ سڑکوں پے ہیں تو کیو ں نہ ان کی بات سن لی جائے۔

ریاست کیوں خائف ہے اگر ریاست نے کچھ غلط نہی کیا؟ پختون تحفظ موومنٹ ہر لمحہ یہی بات کر رہی ہے کہ وہ پاکستان کے آئین کے ساتھ کھڑے ہیں۔ کیا ریاست پاکستان کے آئین کے مطابق اپنے جائز انسانی حقوق کا مطالبہ اتنا بڑا گناہ ہے کہ ہم ان کا سماجی بائیکاٹ کر دیں؟

کیا کوئی ایسا طریقہ کار نہی ہوسکتا کہ مسنگ پرسن کا معاملہ احسن طریقے سے حل ہو؟ کیا یہ ممکن نہی جو بے گناہ ہے یا ان کو کسی غلط فمہی میں نظر بند کر دیا گیا ہوانکو رہا کر دیا جائے؟

کیا یہ ممکن نہی لینڈ مائنس کو صاف کیا جائے، اگر وسائل یا ٹیکنالوجی کا کوئی مسئلہ ہو تو اقوام متحدہ اور عالمی دنیا سے مدد حاصل کی جائے؟

کیا یہ ممکن نہی آئی ڈی پیز کی باعزت آباد کاری کی جائے اگر وسائل کی کمی ہے تو قوم سے مدد مانگ لی جائے؟ ۔ کیا حق نہی بنتا کہ جن لوگوں نے وطن اور قوم کی خاطر دہشت گردی کے خلاف لازوال قربانیاں دی ہیں ان کی اجتماعی مدد کی جائے؟

کیا اس مملکت میں ایک سچ اور مفاہمتی کمیشن نہی بنایا جاسکتا جو کہ حقائق تک پہنچ کر ایک پائیدار امن کی بنیاد رکھیں؟ کیا یہ اتنی نہ ممکن بات ہے کہ اسفند یار ولی خان، محمودخان اچکزئی، حضرت مولانا فضل الرحمان، منظور احمد پشتین اور حکومت اور ریاستی اداروں کے درمیان ایک بامقصد قومی جرگہ ہو جوکہ پشتون قوم کو مطمئن کر سکے۔ کیا یہ سب نا ممکن ہے؟

یہ سب چیزیں ممکن ہے۔ یہ بھی عین ممکن ہے کہ حالت جنگ میں غیر ارادی طور پر کچھ غلطیاں ہوئی ہوں اور شاید وہ غلطیاں ریاستی پالیسی نہ ہو، مگر ان سے قبائلی عوام کے جذبات مجروع ہوئے ہوں۔ تو کیوں نہ آگے بڑھ کر بڑے دل کے ساتھ معافی تلافی کریں۔ اور ریاست مفاہمتی عمل میں پہل کرے کیونکہ ریاست ہوگی ماں جیسی، ۔

پختون تحفظ موومنٹ کے سربراہ منظور احمد پشین سے بھی بصد احترام عرض ہے، کہ کچھ باتوں کا آپ کو سنجیدگی سے نوٹس لینا ہو گا، جو لوگ پختون قوم کو تشدد کی طرف لے کر جانا چاھتے ہیں ان سے مکمل لاتعلقی ظاہر کرنا ہو گی۔ بابا ئے امن باچا خان کے عدم تشدد کے نظریے کو مضبوطی سے پکڑنا ہو گا، کچھ حد تک یہ ذمے داری بھی ان پر عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنی تحریک کے نوجوانوں کے اشتعال پر سخت نظر رکھیں۔ ریاستی مفادات، خطے کی غیر یقینی صورتحال اور افغانستان میں پاکستان کے ریاستی مفادات یہ باتیں بھی انتہائی حساس اور اہم ہیں۔ افغانستان کی سیاست میں پاکستان کے خلاف بڑھتی ہو ئی نفرت بھی ایک سنگین مسئلہ ہے اور چونکہ منظور پشتین ڈیورنڈ لائن کے دونوں طرف ایک قابل قبول شخصیت ہے۔ تو اپنے سیاسی اثر روسوخ کو دونوں ملکوں کے درمیان فاصلے کم کرنے کے لیے استعمال کریں،

پی ٹی ایم کے سپوٹر اور حمایت یافتہ لوگ پوری دنیا میں موجود ہیں۔ منظور پشتین کو اس بات کو بھی یقینی بنانا ہو گا کہ بیرونی دنیا میں پاکستان مخالف لوگ اس پاکیزہ تحریک کو پاکستان کے خلاف استعمال نہ کر سکیں۔ لیڈر وہ نہی ہوتا جو قوم کو مسائل میں دھکیلے بلکہ قوم کو مسائل سے نکالے لیڈر سیلاب کے سامنے بند باندھتا ہے تاکہ قوم کو تباہی سے بچایا جا سکے۔

امن زندہ باد


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments