یوکرین کا بدنصیب طیارہ پی ایس 752


ایران امریکہ تنازعہ کے طرف بڑھتے ہوئے اقدامات ایک طرف، پر دکھ کی بات یہ ہے کہ ایرانی رہبر اعلی آیت اللہ خامنائی نے یوکرین کے طیارہ گرانے کی ذمے داری قبول کر لی ہے۔ جس میں بے گناہ 176 لوگ مارے جا چکے ہیں۔ یہ وہ لوگ تھے جن کا بلواسطہ یا بلاواسطہ القدوس فوج کے کمانڈر قاسمی سلیمانی کی ہلاکت سے کوئی تعلق نہ تھا۔ یہ لوگ تو بدستور اپنے منزل یوکرین کی دارالحکومت خیوا کو روانہ ہونے کے لیے اپنے پیسوں سے ٹکٹ خرید کر ہوائی اڑان بھر رہے تھے۔

قسمت کے ماروں کو یہ کیا معلوم کے ریاستی اداروں کی ایک غلطی ان کے دل میں امریکہ کے لیے نفرت اور خوف کی ملی جلی کیفیت کا نشانہ ہم بے گناہ بن جائیں گے۔ ایرانی حکام کی جانب سے کہا گیا ہے کہ انہوں نے غلطی سے میزائل حملہ کر کے یوکرین کا طیارہ مار گرایا ہے۔ جس کا وہ بلیک باکس دینے کو بھی راضی نہیں ہو رہے۔ 8 جنوری الصبح جب ایران نے جوابی کارروائی کرتے ہوئے عراق میں موجود دو آمریکی فوجی اڈوں کو بیلسٹک میزائل کا نشانہ بنایا تو اسی وقت یہ افسوسناک خبر آئی کہ ایران کے دارحکومت تہران سے اڑان بھرنے والے یوکرین طیارے کو اڑان کے کچھ گھنٹوں میں فضا سے زمین تک مار کرنے والے میزائل سے مار گرایا گیا ہے اور ایک بڑا دھماکہ ہوا، دیکھتے ہی دیکھتے پورا طیارہ گر کر تباہ ہوگیا۔ یاد رہے یہ میزائل روسی ساخت کے ہیں۔

ایران کی جانب سے تردید کے بعد بلاآخر اعترافی بیان جاری کیا گیا، ساتھ ہی اپنی صفائی میں یہ بھی کہا گیا کہ غیرارادی طور پہ فوج کی جانب سے یہ غلطی ہوگئی، اب اس کے زمہ داروں کا پتا لگایا جا رہا ہے۔ ان کے مطابق یہ طیارہ پاسداراں انقلاب کے حساس عسکری سینٹر کی طرف بڑھتے ہوئے ہدف مخالف سمجھ کر گرایا گیا۔ امریکہ ایران کی جھڑپوں کی خبریں تو ہر ملک کی میڈیا کی دلچسپی کا باعث بنا ہوا ہے، کئی تجزیہ کار اور صحافی جنگ کے موضوع پر بحث کیے جا رہے ہیں، پر غلطی سے مارے گئے ان بے گناہ بندوں کا ذکر اب کہیں سنائی نہیں دے رہا۔

بیشک قاسمی سلیمانی کو قتل کر کہ امریکہ نے ایران کا شدید نقصان کیا ہے جس کا ازالہ کرنا فی الحال مشکل ہے۔ امریکہ کے مقابلے میں ایران ایک کمزور چھوٹا سا ملک ہے۔ جو خود بحرانوں میں گھرا ہوا ہے۔ پر یہ کہاں کا انصاف ہوا کہ ایک ریاست اور اس کے سنبھالنے والے اتنے غیرذمہ دار ہوجائیں کہ ایک مسافروں سے بھرا طیارہ اپنی سر زمین پہ بس شک کی بنا پر گرادیں۔ یہ بہت ہی دل دکھانے والی بات ہے کہ غصہ ایک طرف کا دوسری طرف سے نکالا جائے۔

اگر ایران کو اس طیارہ میں کوئی شکوک تھے تو فورا طیارے کو گھیر لیتے اور اپنے قبضے میں لے لیتے، پھر جی بھر کہ چھان بین کرتے اور خود کو مطمئن کرنے کہ بعد ہی اس طیارے کو اڑان بھرنے کی اجازت دیتے۔ ایک سو چوہتر لوگ غلطی سے مارے گئے ہیں۔ اب ان کے اہل خانہ کے سامنے کون جوابدہ ہوگا؟ کیا بوڑھے بچے، جوان اور خواتین اس طیارے میں اسی لیے سوار نہیں ہونے جا رہے تھے کہ محض شک کی بنا پر وہ مار دیے جائیں۔ 176 غلطی سے مارے جانے والے افراد کا تعلق مختلف ممالک سے ہے۔ جن میں سے 82 تو ایرانی تھے جن کو اپنے ہی ریاست کے محافظوں نے مردوں میں شمار کردیا۔ 63 کینیڈین، 11 یوکرینی، 10 سویڈش، چار افغانی، چار برطانوی، تین جرمن اور نو لوگ عملے کے شامل تھے۔ ہلاک ہونے والوں میں سے پندرہ بچے تھے جن کو ابھی جنگ کے بارے میں شاید درست معلومات بھی نہ ہونگی۔

ان معصوم بے گناہ لوگوں کا خون کس کے سر جائے گا اور کون اس کا ذمہ دار ہوگا۔ جبکہ ریاست خود اپنی غلطی کا کھلے منہ سے اعتراف کر رہی ہے۔ ایسے میں کس کے سامنے وہ اہل خانہ اور وہ ممالک فریاد لے جائیں جن کے لوگ اس اس طیارے میں سوار تھے۔ بنا کسی ہتھیار اور جنگی سامان کے بس اپنے کپڑوں کے بریف کیس اور ضروری اشیاء  لے کر سوار ہونے والے مسافر، دو ملکوں کے جنگی جنون کا شکار بن گئے، جس کا انہوں نے سوچا تک نہ ہوگا۔

اس طیارے کے بدنصیب مسافروں میں سے کئی ایسے بھی ہوں گے جو ایران امریکہ کشیدگی دیکھ کر جنگ کے امکانات سے ڈر گئے ہوں گے اور اسی واسطے یہاں سے کوچ کر رہے ہوں گے کہ اپنے ملک میں جا کر امن کی زندگی بسر کریں اور ایسے جنگی حالات سے دور ہوں۔ پر بیچاروں کو کیا پتا کہ وہ اسی جنگ کا ہی حصہ بن گئے جس میں وہ شریک نہ تھے۔ جس سے وہ بھاگ رہے تھے۔

امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے سر پر سوار طاقت کے نشے اور جنگی جنون سے لاکھوں اختلافات سہی مگر جو غلطی ایران نے اپنے ملک میں کر کے بے گناہوں کی جان لی ہے اس کو کبھی معاف نہیں کرنا چاہیے۔ ایک ریاست اور اس کے سپاہی اتنے غیرذمہ دار کیسے ہو سکتے ہیں جو وہ اس قدر نادانی کا مظاہرہ کر کہ اتنے لوگوں کی جان لے لیں۔

ان بے گناہ لوگوں کی ہلاکت بھی حکمرانوں کے لیے چرچہ بن چکی ہے۔ ٹرمپ ایرانی عوام کے ساتھ ہمدردی جتا کر وہاں کی عوام کو اس کی حکومت کے خلاف بھڑکا رہا ہے جبکہ ایرانی صدر حسن روحانی عوام کے جذبات کو ٹھنڈا کرنے میں لگے ہیں جبکہ ایرانی میڈیا اس افسوسناک خبر پر بحث کرنے سے گریز کر رہا ہے۔ پر ان سب کے بیچھے جو بے گناہ مارے جا چکے ہیں ان کا کسی کو کوئی افسوس نہیں۔ بس اپنی عزت و آبرو بچانی ہے۔ کسی کی جان جاتی ہے تو جائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments