چودھری نثار کا نیشنل ایکشن پلان اور معذور بچوں کا دہشت گرد ادارہ


\"saleem

پروفیسر اظہار صاحب کی عمر صرف 26 سال تھی تو ایک بیماری کے نتیجے میں ڈاکٹرز کو ان کی دونوں ٹانگیں کولہے کے قریب سے، دائیں بازو کو کوہنی اور کلائی کے درمیان سے اور بائیں ہاتھ کو انگوٹھے کے پاس سے کاٹنا پڑا۔ اس ساری سرجری کے بعد پانچ فٹ دس انچ کا نوجوان آدھی سے بھی کم چارپائی پر لیٹا ہوا تھا۔

لیکن یہ قد میں کمی صرف جسم تک محدود تھی۔ اندر سے تو پروفیسر اظہار ایک ولی بن چکا تھا۔ اس نے کبھی اپنی جسمانی معذوری کی طرف مڑ کر نہیں دیکھا۔ اتنی شدید جسمانی معذوری کبھی بھی اس کا رستہ نہ روک سکی۔ وہ اپنے علاقے کے سیکڑوں معذوروں اور ان کے خاندانوں کے لئے امید کی کرن نہیں بلکہ سورج ہی بن گیا۔ پروفیسر اظہار نے اپنی معذوری کے آٹھ سال بعد، اور اپنی موت سے آٹھ سال پہلے، معذوروں کی بحالی کا ”ارادہ“ نامی ایک ادارہ بنا دیا۔

\"iradah-building\"

”ارادہ“ تحصیل کلر کہار ضلح چکوال میں معذوروں کی بحالی کا کام کرنے والا ایک شاندار ادارہ ہے۔ یہ معذور بچوں کے لئے تعلیم، جسمانی بحالی اور روزگار کے حصول کی تربیت کرتا ہے۔ معذور بچوں کے ساتھ ساتھ ان کے خاندانوں کی نفسیاتی مدد اور رہنمائی کا کام بھی کرتا ہے۔

”ارادہ“ کے دس کنال پر پھیلا ہوئے خوبصورت لان اور خاص مقصد کے لئے تعمیر کی گئی عمارتیں ہر وقت معذور بچوں کی رونق سے آراستہ رہتی ہیں۔ سماعت سے محروم لڑکیاں اور لڑکے ارادہ کے سکول سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد بڑے فخر سے وہیں پڑھا رہے ہیں۔

زیادہ تر سٹاف اور بورڈ معذور لوگوں پر مشتمل ہے۔ ”ارادہ“ کے سیکڑوں دوست ہر مہینے چندہ دیتے ہیں جو دس روپے بھی ہو سکتا ہے اور ہزاروں روپے بھی۔ ”ارادہ“ میں آنے والے بچوں یا ان کے خاندان والوں سے ان کا مذہب یا عقیدہ نہیں پوچھا جاتا۔ ”ارادہ“ کے پھلنے پھولنے کا \"letter-page-1a\"موجب وہ چھوٹی چھوٹی خوبصورت کہانیاں ہیں جو انسانی عظمت اور ہمت کا مظہر ہیں۔ یہ کہانیاں بچوں کے کھلکھلانے اور ان کے والدین کی مایوسیوں کو امیدوں میں بدلنے کی ہیں۔

یہ کہانی 16 سالہ لڑکی شہلا کی ہے جس نے ”ارادہ“ کا پمفلٹ دیکھا اور پروفیسر اظہار کو اپنی اور اپنے بڑے بھائی کی معذوری کی کہانی بذریعہ خط سنائی۔ شہلا کے خط کی مختصر سی سمری یہ ہے۔ ۔۔۔۔۔ میری ٹانگیں ایک بیماری کی وجہ سے بتدریج کمزور ہو رہی ہیں اور اگلے چند سالوں میں چلنے پھرنے کے قابل نہیں رہوں گی۔ جیسا کہ میرا بڑا بھائی اب صرف چارپائی کا ہو کر رہ گیا ہے۔ اس لئے میں اس بیماری اور اپنے مستقبل کو جانتی ہوں۔ میں نے سنا ہے کہ ”ارادہ“ معذوروں کے لئے کام کرتا ہے تو میں نے سوچا ”ارادہ“ تو مجھے بھی جانا چاہیئے تاکہ میں اپنے بوڑھے والدین پر بوجھ نہ بنوں۔ میں اس وقت علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی سے ایف اے کر رہی ہوں جو پانچ ماہ میں ختم ہو جائے گا۔ اس کے بعد میں ”ارادہ“ شفٹ ہو جاؤں گی۔ میری ٹانگیں کمزور ہیں لیکن مجھے کچھ ہنر آتے ہیں۔ جیسے پینٹنگ کرنا، نالے (ناڑے) بنانا، موتیوں کے کڑے بنانا اور کریپ کاغذ کے پھول بنانا۔ اس کے علاوہ میں نے چھ مہینے کا سلائی کڑھائی کا کورس بھی کیا ہوا ہے۔ پروفیسر اظہار \"letter-page-2a\"اتنے متاثر ہوئے کہ اس خط کا جواب خط سے نہ دیا بلکہ شہلا اور اس کے خاندان سے ملنے ان کے گھر چلے گئے۔ یہ شہلا کی زندگی کا سب سے بڑا سرپرائز تھا۔

یہ زبیدہ کی کہانی ہے۔ جس نے ”ارادہ“ اور پروفیسر اظہار کا سنا تو پتا نہیں کون سے گاؤں سے ملنے خود چلی آئی۔ زبیدہ غریب گھر کی ایک دیہاتی خاتون تھی۔ اس کی عمر کوئی چالیس سال کے لگ بھگ تھی۔ اس نے سکول کبھی اندر سے نہیں دیکھا تھا۔ زبیدہ کی تین بیٹیاں پیدائشی معذور تھیں۔ ان کی عمریں 13 اور 20 سال کے درمیان تھیں۔ زبیدہ کی زندگی کا مقصد ان تینوں بیٹیوں کی دیکھ بھال تھا۔ لیکن اس کی زندگی کی سب سے بڑی فکر یہ تھی ایک دن جب وہ قبر میں اتر جائے گی تو اس کی بیٹیوں کا کیا بنے گا۔ پروفیسر اظہار نے اس کی زندگی کی سب سے بڑی فکر اس سے مانگ لی۔ زبیدہ دوسرے دن پھر ملنے آ گئی اور اس نے آ کر بتایا کہ بیس سال بعد کل وہ پوری رات سکون سے سوئی ہے۔ پروفیسر اظہار زبیدہ کی بیٹیوں کو ملنے چلا گیا۔ وہ ان بچیوں کی زندگیوں کا سب سے بڑا

\"Prof

سرپرائز ثابت ہو۔ صرف 15000 روپے کی تین وہیل چئیرز سے ان لڑکیوں کی زندگیوں میں انقلاب آ گیا۔ اب وہ چاروں ماں بیٹیاں صحن میں بیٹھ کر باتیں کرتی تھیں۔

“ارادہ“ ایسی ہی سیکڑوں کہانیوں کی ایک ضخیم کتاب ہے اور اس میں اضافہ جاری رہتا ہے۔

دسمبر 2014 میں دہشت گردوں نے APS پشاور کے بچوں کو نشانہ بنایا تو پاکستانی قوم جو خود کش حملوں کی عادی ہو چکی تھی اس نے بھی جھرجھری لی۔ ریاست اور حکومت نے دہشت گردی سے نپٹنے کے لئے ایک نیشنل ایکشن پلان بنایا۔ ہم جیسے سادہ لوح یہ سمجھے کہ ملک میں آزاد پھرنے والے بدنام زمانہ دہشت گرد اب پکڑے جائیں گے اور ساتھ ساتھ وہ مدرسے جو بدامنی کو ہوا دیتے ہیں ان کو بھی اپنے چلن ٹھیک کرنے پڑیں گے۔ دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑنے کے لئے مذہبی انتہا پسندی کے شیش ناگ کو کچلا جائے گا۔ ہمارے بچوں کو خودکش جیکٹ پہنانے والے ادارے بند کر دیے جائیں گے اور ان کے چلانے والے جیلوں میں ہوں گے۔ بلا امتیاز انصاف ہو گا، مگر ہمارا اندازہ غلط نکلا۔

\"ch-nisar-ludhianvi-sami\"

چودھری نثار صاحب دہشت گردی کے بدنام زمانہ ملزموں کے ساتھ تو گھی شکر ہوئے جاتے ہیں اور زیرعتاب آ گئے ہیں وہ فلاحی ادارے جو پاکستان میں انسانی حقوق کی بحالی کے لئے کوشاں ہیں۔ یہ فلاحی ادارے مذہبی دہشت گردوں کے نشانے پر ہونے کے ساتھ ساتھ حکومت کی بے جا مداخلت اور دھونس دھاندلی کا بھی شکار ہیں۔

نیشنل ایکشن پلان کے تحت ”ارادہ“ کے کام اور مالی معاملات کی خاص جانچ پڑتال کے لئے حکومت نے اسپیشل آڈیٹرز بھیجے تھے۔ جو چار دن تک ارادہ میں ٹھہرے اور یہ جاننے کی کوشش کرتے رہے کہ ”ارادہ“ کہیں دہشت گردی تو نہیں پھیلا رہا۔

سلیم ملک

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سلیم ملک

سلیم ملک پاکستان میں شخصی آزادی کے راج کا خواب دیکھتا ہے۔ انوکھا لاڈلا کھیلن کو مانگے چاند۔

salim-malik has 355 posts and counting.See all posts by salim-malik

Subscribe
Notify of
guest
8 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments