کرشن چندر اور جامن کا پیڑ
کہانی بس اتنی نہیں ہے کہ ایک پیڑ گر پڑا اور اس کے بھاری تنےکے نیچے ایک آدمی دب گیا۔ بلکہ کہانی یہ ہے کہ افسانہ گرا دیا گیا اور سرکاری عتاب کے ملبے میں افسانہ نہیں مرا۔ یہ درخت جو گر گیا اور افسانہ جو نہیں مرا، یہ افسانہ کرشن چندرکا ہے اور کہانی کی کہانی کرشن چندر کے بارے میں ہے جو مرنے کے اتنے عرصے بعد ایک بار پھرمتنازع بن گئے ہیں۔
یہ کیا ماجرا ہے؟ کون سا درخت، کہاں کا افسانہ؟ گمان یہ تھا کہ کرشن چندر کی کہانیاں آئی گئی ہوگئیں۔ بہت سے لوگ (جن میں مجھے بھی شامل کیا جانا چاہیئے کہ اس کا سزاوار ہوں) یہ سمجھ بیٹھے تھے کہ کرشن چندر رخصت ہوگئے اور ان کے افسانے بھی۔ اتنے برس بعد باسی کڑھی میں کیسے ابال آ گیا؟ مان نہ مان، کرشن چندر کی ستم ظریفی باقی تھی۔
اردو ادب کے متعلق مضامین، جائزوں اور ذکروں میں تو آج کل کرشن چندر کا نام کم لیا جاتا ہے لیکن یہ نام سوشل میڈیا پر سامنے آیا، پھر وائرل ہوگیا۔ یعنی افسانے کی زبان میں، بات ہونٹوں نکلی اور کوٹھوں چڑھی۔ اس افسانے کا سوال امتحان سے نکال دیا گیا اور افسانہ نصاب سے خارج کر دیا گیا۔ سرحد پار سے خبر آئی __ ہم کو ایسی خبروں کا انتظار رہتا ہے اور کوئی بھولی بھٹکی خبر جھوٹوں بھی سننے کو مل جائے، تو خوشی کے مارے بغلیں بجانے لگتے ہیں۔ لیکن یہ خبر ادھورا سچ نہیں تھی۔ ٹائمز آف انڈیا نے خبر دی کہ کرشن چندر کا افسانہ ’’جامن کا پیڑ‘‘ نصاب سے نکال دیا گیا ہے اور اگلے دو سال کے لیے امتحان دینے والوں سے اس افسانے کے بارے میں کوئی سوال نہیں پوچھا جائے گا۔ یعنی پڑھنے کی ضرورت نہیں رہی۔ ذرا سی بات کا افسانہ اس طرح بنا کہ ‘Council for the School Certiticate Examination’ (عرف عام میں CISCE )نے اعلان کیا کہ امتحان دینے والوں سے اس افسانے کے بارے میں کوئی سوال نہیں پوچھا جائے گا اور یہ آزادی 2020 اور 2021 میں امتحان دینے والوں کے لیے ہوگی۔ اخبارکی خبر میں ’’باخبر ذرائع‘‘ کے حوالے سے کوئی نام لیے بغیر یہ لکھا ہے کہ اس افسانے پر بعض سرکاری حلقوں کی جانب سے اعتراضات کیے گئے تھے۔
ان ذرائع نے اخبار کے نمائندوں کو بتایا کہ افسانے کے موضوع پر اعتراض لاحق تھا کیوں کہ یہ سرکاری کارروائی میں غیر معمولی تاخیر کے بارے میں ہے جسے عرفِ عام میں ’’سرخ فیتہ‘‘ یا ریڈ ٹیپ کیا جاتا ہے۔ سرکاری کارروائی کے بارے میں اس افسانے میں جو روّیہ اختیار کیا گیا، بعض سرکاری افسروں کو اس پر اعتراض تھا۔ سرکاری افسروں کا احتجاج نصاب بنانے والوں کے سر آنکھوں پر۔ اس سے پہلے کہ کوئی گڑبڑ ہو، اس افسانے کو CISCE نے نصاب سے خارج کر دیا۔
یہ امتحان ان طالب علموں کو دینا پڑتا ہے جو دوسری زبان کے طور پر بندی پڑھتے ہیں۔ اخبار میں لکھا تھا کہ اب ان کو صرف نو افسانے اور شاعری کے دس نمونے پڑھنا ہوں گے۔ ذمہ دار سرکاری افسر اور کونسل کے سربراہ نے صرف اتنا بیان دیا کہ یہ افسانہ 2020 اور 2021 کے امتحان میں شامل نہیں ہو گا اور مزید تفصیلات پر بات کرنے سے انکار کر دیا۔
یہ خبر وائرل ہوئی اور ہندوستان کے ساتھ پاکستان کے باشعور، پڑھے لکھے افراد نے حیرت اور افسوس کا اظہار کیا۔ ایسی تمام خبروں کا ماتم کرنے والوں میں، میں بھی ہر بار شامل ہو جاتا ہوں۔ کرشن چندر کا نام لے کر زور زور سے ماتم کرنے کے لیے گھر سے نکل پڑتا ہوں۔ مگر ماتم کے اس راستے میں میرے پائوں جیسے من من بھر کے ہوگئے۔ احساسِ جرم نے راستہ روک لیا۔ پاکستان میں بھی تو کرشن چندر کے ساتھ یکساں برا سلوک ہوا ہے __ ان کے افسانے نصاب میں شامل نہیں ہیں کہ نصاب سے نکالے جانے کا اعزاز حاصل ہوتا۔
اخبار کی اطلاع کے بعد یہ وڈیو چل پڑا جس میں ٹیلی وژن کی اینکرپرسن کہتی ہیں کہ یہ افسانہ نصاب سے نکال دیا گیا اس لیے اب اس کو پڑھنے میں زیادہ مزہ آئے گا۔ اس کے بعد وہ افسانہ پڑھ کر سناتی ہیں اور اس روپ میں بھی کرشن چندر کی دھاک بیٹھ جاتی ہے۔ یہ افسانہ سن کر میں اپنے بلاجواز غصّے کو واپس لینے کی کوشش کرتا ہوں۔ غصّہ تو اس وقت آنا چاہیئے تھا جب کرشن چندر کو ہندی کے نصاب میں شامل کیا گیا۔ اخباروں میں ان کو ہندی کا ادیب قرار دیا گیا۔ لیجیے صاحب، ہمارے کرشن چندر اپنے کے بجائے پرائے ہو گئے۔ آخر وہ کس زبان کے لکھنے والے تھے؟
اس طرح کرشن چندر کو جلا وطن کرنے کا ارتکاب تو ہماری طرف سے ہوا۔ مجھے یاد ہے میری امّی کالج میں پڑھایا کرتی تھیں تو کس کتاب میں کرشن چندر کا افسانہ ’’موہن جو دڑو کا خزانہ‘‘ شامل تھا۔ پھر وہ نصاب بدل گیا صرف کرشن چندر نہیں، اردو کی پوری کتاب! اس وقت کا پڑھا ہوا وہ افسانہ مجھے آج بھی یاد ہے۔
ایسے یادگار افسانے لکھنے والے کو غیر کیوں سمجھا گیا؟ کرشن چندر لاہور میں اپنی ادبی زندگی شروع کرکے یہیں سے ادبی حلقوں میں متعارف ہوئے۔ یہیں سے ’’ادبی دنیا‘‘ میں طلوع ہوئے۔ آخری دنوں تک لاہور کو یاد کرتے رہے لیکن سرحد پار کر کے لاہور آ نہ سکے۔ انہوں نے تو اپنا نام بدل کر ’’وقار ملک‘‘ بھی رکھ لیا تھا مگر اس وقت تک کرشن چندر کے طور پر مشہور ہو چکے تھے۔ کیا ہم ان کو یہ کہہ کر مسترد کر سکتے ہیں کہ وہ پاکستانی نہیں تھے؟ پھر راجندر سنگھ بیدی اور اوپندر ناتھ اشک کو بھی یہ کہہ کر مسترد کر دیں؟ اقبال بھی تو پاکستان کے شہری نہیں تھے۔ پاکستان میں پریم چند اور کرشن چندر کے لیے گنجائش کیوں نہیں ہے۔ اس کا فیصلہ کس بنیاد پر کیا جاتا ہے۔
افسانے کی پڑھنت کے بعد میرا جی چاہا کہ میں اس کو پڑھ کر دیکھوں۔ پھر مجھے اس کی تلاش ہوئی۔ تب مجھ پر انکشاف ہوا کہ کرشن چندر کو نصاب سے نہیں، توجّہ سے بھی باہر کر دیا گیا ہے۔ المیے کا یہ حصّہ زیادہ ہولناک ہے۔
میرے لڑکپن کے دنوں میں کرشن چندر بہت زیادہ چھپنے والے ادیب تھے۔ رسالوں میں کہانیاں بار بار چھپتی تھیں، سینکڑوں مجموعے اخبار کی دکانوں میں بھی مل جاتے تھے۔ کتنی بہت سی کتابیں تھیں جو آسانی سے نظر آجاتی تھیں۔ اب جو ڈھونڈنے نکلا تو ان سینکڑوں مجموعوں میں سے چھٹ چھٹا کر چند ہی رہ گئے۔ دوبارہ نظر آئے، ان میں بھی وہی کہانیاں۔ کرشن چندر کے بہترین افسانے اور نمائندہ افسانے کے نام سے اب بھی کئی مجموعے دستیاب ہیں مگر گنی چنی کہانیاں۔
اس وقت کئی انتخاب بازار میں مل رہے ہیں جن کے مرتّب کرنے والوں کے بارے میں اتہ پتہ نہیں۔ ’’کرشن چندر اور ان کے افسانے‘‘ ایک مختصر سی کتاب ہے جس کے مرتّب ہیں ڈاکٹر اطہر پرویز اور یہ کتاب ایجوکیشنل بک ہائوس، علی گڑھ سے شائع ہوئی ہے۔ اس میں ادبی مطالعے کا انداز نمایاں ہے، اس لیے میں بار بار اس کی طرف ہاتھ بڑھاتا ہوں۔ کتاب کے شروع میں ڈاکٹر گوپی چند نارنگ کا تنقیدی مضمون موجود ہے:
’’کرشن چندر اردو افسانے کی روایت کا ایک ایسا لائق احترام نام ہے ذہنوں میں برابر سوال اٹھاتا رہے گا …..‘‘
اس مضمون میں آگے چل کر وہ لکھتے ہیں ’’ان کا نام پریم چند کے بعد پہلے تین بڑے افسانہ نگاروں میں آئے گا۔ کرشن چندر کی اہمیت اور دین سے اردو کا کوئی سنجیدہ قاری انکار نہیں کر سکتا …..‘‘
اور اس سے بھی بڑھ کر:
’’اردو کی افسانوی روایت کا یہ وہ روشن نقطہ ہے جس کی تعیّن قدر کے بارے میں ابھی برسوں چھان پھٹک ہوتی رہے گی۔ اس لیے کہ کرشن چندر ایک سمندر ہے …..‘‘
اس سمندر سے مجھے ایک بوند کی تلاش تھی۔ ’’جامن کا پیڑ‘‘ نام کا افسانہ کس مجموعے میں شامل ہے، کب لکھا اور کہاں شائع ہوا؟
پھر بڑے جتن کے بعد سراغ ملا۔ اور کچھ نہیں، یہ دراصل وہ افسانہ ہے جو’’قومی شاعر‘‘ کے نام سے رسالہ شاعر بمبئی کے ضخیم شمارے ’’کرشن چندر نمبر‘‘ میں چھپا۔ باقی تفصیلات آپ ڈھونڈتے رہیے کہ یہ قومی شاعر سے جامن کا پیڑ کیسے بنا اور اتنا بڑا درخت اپنی جڑوں سمیت اکھاڑ کر ہندی کی کیاری میں کیسے اگا دیا گیا۔
یہ شجر کاری خود کرشن چندر نے کی یا ان کے مہربانوں نے؟ ان کے آخری دورکے خطوط میں یہ شکایت موجود ہے کہ ہندی میں لکھنا پڑ رہا ہے اس لیے کہ اردو میں لکھی جانے والی کہانی کے لیے ترجمہ کرنے والے کو بہت پیسے دینے پڑتے ہیں۔ بات ضرورت کی ہے ورنہ جامن کا پیڑ تو ہر زمین میں جامن سے لدا پھندا رہتا ہے۔
جامن کا پیڑ زمین پر گرنے سے پہلے کس طرح جڑیں چھوڑ دیتا ہے اس کا اندازہ بھی ہوگیا۔ سوشل میڈیا والے وڈیو پر افسانہ اس طرح شروع ہوتا ہے:
’’رات کو بڑی زور کا اندھڑ چلا …..‘‘
اس کے برخلاف ’’قومی شاعر‘‘ کی پہلی سطر یہ ہے:
’’رات کو بڑے زور کا جھکڑ چلا …..‘‘
اچھا تو اس طرح جھکڑ کے اندھڑ بن جانے سے اردو ہندی بن جاتی ہے، ایسی ہندی کہ پھر نصابوں میں ملے؟
اندازہ ہواکہ متن میں بھی تھوڑا بہت فرق ہے۔ مگر اعتراض کرنےوالوں کو کرشن چندر کی ہندی پر نہیں، موضوع پر اعتراض ہے۔
ڈاکٹر گیان چند جین سے پہلے یہ ایک بھاشا دو لکھاوٹ کا معاملہ کرشن چندر کے ہاں بھی ہے اور ان کو بھی دو نیم کر جاتا ہے۔ حالاں کہ وہ تقریباً آخر تک اردو سے وفاداری کا دم بھرتے رہے، اسی شناخت پر اصرارکرتے رہے۔
آج کے ہندوستان میں وہ موردِ عتاب ٹہرے تو ہندی کے ادیب بن کر۔
میں اپنی مشکل بھی بیان کر دوں۔ کرشن چندر سے میرا لاگ ڈانٹ کا تعلق ہے۔ جسے فرائیڈ کی زبان میں بیک وقت محبّت اور نفرت کا رشتہ کہہ سکتے ہیں۔ لڑکپن میں بہت شوق سے پڑھنے کے بعد وہ میرے دل سے اتر گئے۔ نظریات کی تبلیغ باقی معاملات پر حاوی آگئی۔ منٹو، عصمت اور بیدی اسی طرح دیار دل میں حکمراں رہے۔ میں نے اس رائے کا برملا اظہار بھی کیا۔ مجھے یاد ہے لاہور میں کرشن چندر کے حوالے سے مضمون پڑھا تو فہمیدہ ریاض نے غصّے کا اظہار کیا مگر سے بڑھ کر انتظار حسین نے سرِ محفل ٹوک دیا۔ میں نے دبے الفاظ میں کہا کہ کرشن چندر پر اعتراض آپ نے کیا کم کیے ہیں مگر کرشن چندر سے ان کی ہم دردانہ عقیدت مندی دیکھ کر چپ ہو گیا۔
اس کے باوجود کرشن چندر کو مسترد تو کبھی نہیں کر پایا۔ ان کی اچھی کہانیوں کا اب بھی گرویدہ ہوں۔ پاکستان والے ان کو نصاب میں شامل نہ کریں، ہندوستان والے نصاب سے نکال دیں۔ میں اپنی پسند کی کہانیوں کی فہرست میں ان کا نام شامل کیے رہوں گا کیونکہ یہ فہرست صرف میرے لیے ہے، جو میرے اپنے نصاب کا حصّہ ہے۔
اچھی ہے یا بری، یہ کہانی نصاب سے باہر رہ کر بھی اپنی جگہ خوب ہے۔ اس کو پڑھنے والے حکومت پر اعتراض کرنا ہی نہیں، اور بھی بہت سیکھ سکتے ہیں مگر اس کا اندازہ نصاب بنانے والوں کو نہیں ہوسکتا۔ پتہ نہیں زندگی کا بھی کوئی نصاب ہوتا ہے، ورنہ میں اس افسانے کو ایسے نصاب میں شامل کر کے دم لیتا۔
- سارا شگفتہ اور رنگ چور - 05/06/2020
- آصف فرخی کا آخری وڈیو بلاگ - 02/06/2020
- آصف فرخی کا ویڈیو کالم: ہسپتال سے عدالت تک - 21/05/2020
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).