میاں صاحب ، کپتان جیسا کوئی نہیں


کسی کو ڈان لیکس یاد ہیں؟ پڑھی تھیں؟ اس میں چھٹا پیرگراف ہے جس میں میاں محمد شہباز شریف بقلم خود اک معزز افسر کے ساتھ گتھم گتھا پائے یا بتائے جا رہے تھے۔
سٹوری لکھنے والا لکھنا چھوڑ گیا۔ مریم نواز پر ڈان لیک کا الزام لگ گیا۔ نواز شریف کا پانامہ یا اقامہ ہو گیا۔ ان کے کچہری پھیرے لگ گئے، پارٹی میں جو بولا وہ اندر ہو آیا ہے کچھ ابھی بھی اندر بیٹھے سوچ رہے کہ ویسے ہوا کیا تھا؟

ہم اب سویر شام یہ سنتے ہیں کہ شہباز شریف کوئی ڈیل کر رہے ہیں۔ یہ بیسٹ فرینڈ ہیں پنڈی میں کسی کے، پتہ نہیں کس کے۔ میرا تو وہم ہے کہ چودھری نثار کے ہوں گے ۔

شہباز شریف ایک ڈیل کر رہے ہیں۔ سب سے زیادہ یہی الجھے ہوئے تھے افسروں کے ساتھ اور انہی افسروں کو شہباز شریف کے ساتھ سچا پیار ہے، یعنی کمال ہی ہے۔ ہمارے قومی معصوم نواز شریف کو کچھ بھی نہیں پتہ۔ مسلم لیگ نون ساری گھیر گھار کر اکٹھی کی گئی قومی اسمبلی گئی اور ایکسٹینشن پکی کرنے کو ووٹ دے آئی۔ اب فیصل واؤڈا اسے بوٹ پھیر رہے ہیں۔ خواجہ آصف استعفی لے کر پھر رہے، انہیں سمجھ نہیں آ رہی کہ کسے پکڑائیں جو منظور کرے تاکہ خواجہ صاحب پھر سیالکوٹ جائیں۔ وہاں سردی میں ہی وڈی نہر یا نالہ جو بھی ہے اس میں چھلانگ مار دیں۔ اس چھال مارنے کی ویڈیو خواجہ صاحب کی سوشل میڈیا پر چلتی رہی ہے۔

مریم نواز آج کل نہایت مصروف ہیں۔ جسے میسج کرتی ہیں وہ فون ہاتھ میں پکڑ کر نکل جاتا ہے کہ “تمھیں پتہ مجھے میسج آیا ہے، میڈم کا۔ ڈیمج کیسے کنٹرول کریں، پارٹی پر مشکل وقت ہے۔ میڈم پریشان ہیں۔ انہوں نے جذباتی ہو کر ایکسٹنشن والے فیصلے پر پارٹی کے خلاف بغاوت کر دی تو پارٹی رل جائے گی۔ میں نے بھی سمجھایا ہے کہ میڈم ایسے نہ کرنا آپ کو رب کا واسطہ۔ پٹواری رل جائیں گے ان کی سیاست تھاں مر جائے گی۔”

آج بھی مسلم لیگ کی سیاست نواز شریف ہی دیکھ رہے ہیں۔ جس کی دل کرتا ہے جتنا دل کرتا ہے اسے اتنا رول کے رکھ دیتے ہیں۔ حکومت میں رہے ہوں یا اپوزیشن میں اپنے کسی اہم لیڈر کی قربانی ضرور دی ہے۔ پہلے اسے آگے کر کے تگڑا کرا کے اچھی طرح چھلوایا ہے۔ پھر چمٹے سے پکڑ توے پر رکھ دیا ہے کہ لے اب بھیگ گیا ہے تو ذرا سوکھ جا۔

جاوید ہاشمی، غوث علی شاہ، چودھری نثار، گجرات کے چودھری، میاں اظہر، میاں زاہد سرفراز اور پتہ نہیں کون کون۔ اب اللہ ہی جانے کس کا نمبر ہے۔ ریس تو خواجہ آصف رانا ثنا اللہ شاھد خاقان عباسی اور شہباز شریف سب میں ہی لگی ہوئی ہے۔ دیکھیں کون فسٹ آتا ہے اور پہلے خاطر کرواتا ہے۔

نواز شریف لندن بیٹھے ملاقاتیں بھی کر رہے ہیں۔ رابطے بھی بحال کر لیے ہیں۔ حامد کرزئی کو ہم ان سے ملنے پہنچتا دیکھ چکے ہیں۔ ملیحہ لودھی مل آئی ہیں۔

حامد کرزئی کی ملاقات اہم ہے۔ ان کے امریکی رابطے اہم ہیں۔ پر سوال پیدا ہوتا ہے کہ اتنے ہی اہم ہیں تو وہ اپنے لیے کچھ کر کرا لیتے۔ ان کا اک دوسرا حوالہ بھی ہے۔ خیر چھوڑیں ہمیں کسی بھی حوالے سے کیا لینا دینا۔ حامد کرزئی لندن صرف نواز شریف سے ملاقات کرنے پہنچے۔

لندن ان کی موجودگی کی باقی باتیں صرف باتیں ہی ہیں، یہ اپنے خبری کا اصرار ہے جو غلط بھی ہو سکتا۔

حامد کرزئی نواز شریف ملاقات میں فیملی کے لوگ موجود تھے۔ پچاس منٹ ایک گھنٹے کی کل ملاقات تھی۔ جب آدھا وقت گزر چکا تو نواز شریف نے باقیوں دیکھا تو سب نکل گئے۔ تب اک مختصر سے وقت کے لیے دونوں نے اکیلے میں ملاقات کی۔ خبری کا کہنا ہے کہ کمرے میں شیشے کا دروازہ بھی بند کروا دیا گیا تھا۔

نواز شریف جو ہر طرف رابطے میں آ چکے ہیں۔ ان رابطوں کا کوئی تعلق پاکستان میں کسی فوری تبدیلی سے محسوس نہیں ہوتا۔

نواز شریف جس قسم کی سیاست کرتے آئے ہیں۔ جیسی ان میں ضد ہے اور جس طرح وہ حساب برابر کرتے ہیں۔ اس سب کو دیکھ کر نہیں لگتا کہ وہ کپتان کی حکومت گرانے میں کوئی بھی دلچسپی رکھتے ہیں۔ عملی سیاست میں سرگرم حصہ لینا بھی ان کے لیے ممکن نہیں۔ صحت کے مسائل حقیقی ہیں۔ پر انہوں نے سیاست ترک تھوڑی کر دینی ہے۔ یہ تو کوئی سوچے بھی نہ۔ وہ اپنی سیاسی وراثت ٹرانسفر کریں گے۔ اس ٹرانسفر کے عمل کی نگرانی کریں گے۔ اس وراثت منتقلی کے عمل کو ہموار رکھیں گے۔

حکومت پر وہ ہر مشکل وقت آنے پر درمیان سے ہٹتے رہیں گے، کبھی حمایت فراہم کریں گے، کبھی مخالفت کریں گے۔ نہ گرنے دیں گے نہ چلنے دیں گے۔ اپنی بجائے حکومتی اتحادی اور حمایتیوں میں اختلافات کو بڑھانے کے لیے جتنا پٹرول درکار ہو گا وہ فراہم کرتے رہیں گے۔ جیسے ایکسٹینشن اور آرمی ایکٹ پر انہوں نے اچانک سائڈ بدلی۔ بل پاس ہونے دیا۔ فیصلہ ان کا اپنا تھا۔ اپنے پارٹی لیڈروں کو اچھی طرح رگڑ کر اسمبلی بل کے حق میں حمایت فراہم کر دی۔

اس حکومت کا اصل ایشو پرفارمنس ہے۔ یہ کسی طور چل نہیں پا رہی۔ اسے دھکا دے کر چلایا جا رہا ہے۔ پر وہیں مزے سے اڑی بیٹھی ہے جیسے بھینس پانی میں بیٹھی ہو۔

نواز شریف کو گرانے ہٹانے سیاست سے نکالنے کے لیے ایک بڑا اتحاد بنانا پڑا تھا۔ کپتان کی پاپولر سپورٹ کو ڈنڈے کی حمایت ملی تو وہ بھی کافی نہ رہی تھی۔ انصاف پر ثاقب کو بھی نثار کرنا پڑا، پھر بھی اکثریت نہ ملی تو اتحادی ڈھونڈ ڈھونڈ کر لاد کر لائے گئے۔ تحریک انصاف کی ٹوکری میں ڈالے گئے۔

اس حکومت کو لانے والے سارے اتحادی اب بکھر کر آپس میں گھل رہے ہیں۔ اک دوسرے کے پول ابھی کھولنے نہیں شروع کیے۔ لیکن کوئی کسر چھوڑی بھی کدھر ہے۔

نواز شریف کا خیال ہے کہ ان کو پھر کپتان جیسا کوئی نہیں ملے گا۔ یہ ناکام رہا تو پھر سیاست میں مداخلت پر وہ لمبے عرصے کے لیے لعنت بھیج دیں گے کہ جاؤ ہم نہیں کھیلتے۔ تو اسے ناکام ہوتا دیکھنا چاہیے۔ دو تین سال صبر کر لینا بہتر ہے۔ ضرورت اس کی بھی نہیں آنی۔ اس ناکامی میں خیر و برکت واسطے کوشش کرنی چاہیے۔ جو بس اتنی ہے کہ حکومت کی آنیاں جانیاں دیکھو بس۔

ایسا کرنے کے لیے ووٹ کی عزت بزتی سے بھی کچھ وقت کے لیے بے نیاز ہی رہنا چاہیے کہ سیاست کا یہی تقاضا ہے۔ نواز شریف کو بھی لگتا ہے کہ سیاست میں مداخلت ختم کرانی ہے تو پھر کپتان جیسا کوئی نہیں۔ اسے ناکام ہونے دیں۔ مداخلت والی سوچ کو بھی قرار آ ہی جائے گا۔

وسی بابا

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وسی بابا

وسی بابا نام رکھ لیا ایک کردار گھڑ لیا وہ سب کہنے کے لیے جس کے اظہار کی ویسے جرات نہیں تھی۔

wisi has 407 posts and counting.See all posts by wisi

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments