تبدیلی کے ثمرات سکون صرف قبر میں


جب ہم کچی عمر سے بھی کم عمر تھے تو صبح سویرے سکول جاتے ہوئے کافی ناگواری ہوا کرتی تھی۔ کبھی کبھی گرمیوں کی صبح بھلی معلوم ہوتی تھی۔ کبھی سردیوں کی خنکی سویرے بستر سے نکلنے میں مخل ہوا کرتی تھی۔ تو ہم کافی پھیکے منہ سکول جایا کرتے تھے بہرحال یہ سوچ کر جایا کرتے تھے کہ پرائیمری تک تعلیم ہو جائے گی تو آگے کی تعلیم آسان ہے۔ کرتے کراتے ہم نے پانچ جماعتیں پاس کیں اور اک نیا سلسہ شروع ہوا۔ کچھ عرصہ گزرنے کے بعد یہ نیا سلسلہ بھی اذیت ناک معلوم ہونے لگا۔ پھر کسی نا بلد سیانے نے کہا بس تھوڑی اذیت ہی ہے میٹرک کر لو آگے تو آگے زندگی بہت مزے کی ہے۔ آزاد زندگی کوئی سکول والا ماحول نہیں بس ایک بہترین زندگی ہے۔ اس سوچ میں ہم نے میٹرک کی اور انٹرمیدیٹ کی سیڑھی چڑھنے لگے۔

انٹرمیڈیٹ میں قدرے سکول والا ماحول نہیں تھا مگر چھے یا آٹھ ماہ بعد کالج کا جنون بھی جاتا رہا اور ہم انتظار میں رہے کہ یہ سلسلہ نا تمام کب اختتام کو پہنچے گا۔ پھر ہم یونیورستی جائیں گے جہاں زندگی خوب رنگین ہوتی ہے۔ وہ زمانہ بھی گزرا ہم جرنلزم پڑھنے اسلام آباد کی جامع کی زینت بنے میاں نواز شریف صاحب کا دور تھا اور ملک میں شیر آیا شیر آیا کی گونج تھی، کہا جا رہا تھا کہ جمہوری دور ہے اور اس کے ثمرات بھی برامد ہوں گے۔

خیر ہمارا س سے کیا واسطہ تھا ہم ٹھہرے تھے منچلے، نوجوانی سے بھرپور جامع کے طالب علم۔ اس وقت ہم خود کو بادشاہ محسوس کیا کرتے تھے۔ کبھی کبھار کوئی سابقہ جامع کا طالب علم ملتا تو وہ کہا کرتا کہ میاں جامع کے بعد کی زندگی بڑی تلخ ہے فی الحال جو سکومکر سکتے ہو کرو، ہم ایسے مشورے چائے کی چسکیوں میں اڑا دیتے اور آگے نکل جاتے معلام نا تھا کہ واقعی سکون نام کی چیز کم ازکم از زندگانی میں میسر نہیں ہو سکتی چونکہ، کسی شاعر نے بھی کیاخوب کہا ہے ککہ سکون موت کی علامت ہے، زندگی ہے تو جیا جائے گا۔ روز نئے چیلنجز کے ساتھ۔

خیر ہم بات کر ہے تھے کہ جس سکون کا ہمیں کہا گیا تھا کہ میٹرک کے بعد ہے پھر کہا گیا انٹر کے بعد ہے اور پھر یونیورستی کی رنگین زندگی کے بعد کا سکون دکھایا گیا سکون کے یہ سارے دعوے آٹھویں سمسٹر میں ہی غارت ہو چکے تھے، اس وقت ہم جان چکے تھے کہ چونکہ عملی زندگی کی جانب رخت سفر باندھنا ہے تو اب سکون کہان ملے گا اس سب میں میاں نواز شریف کی جمہوری حکومت بھی اپنے اختتام کو پہنچنے سے پہلے میاں نواز شریف کا اختتام ان کی نا اہلہ سے کر گئی۔

سکوم کبھی نہ آیا حالنکہ ہم نے نوکری پائی اور اچھی خاصی نوکری شروع کر دی ادھر تبدیلی کی ہوا بھی چل پڑی اور ان کی ان میں تبدیلی سرکار اقتدار پر براجمان ہو گئی لاکھوں نئے گھر کروڑوں نوکریاں ملک سے قرضے کا خاتمہ اور ملکی معشیت کو آسمان پر لے جانے کے دعووں کے ساتھ تبدیلی حکومت نے پھیلائے ئے اور بنی گالا سے منتقل ہو کر شاہراہ دستور پر قایم بڑے بڑے ایوانوں میں خان صاحب اور ان کی معاشی ٹیم سمیت ملک کو چاند پر لے جانے کے مشورے دینے والوں نے ڈیرے ڈالے۔

تبدیلی کے ثمرات کے غیر حتمی نتائیج حکومت کے آنے کے چند ماہ بعد ہی آنا شروع ہو گئے۔ اس بات کا اندازہ ہمیں اس وقت ہو جب ہماری پہلی نوکری گئی۔ اور ہمیں بتایا گیا کہ اداروں کی معاشی حالت اچھی نہیں ہے اور ہم زیادہ بوجھ نہیں برداشت کر سکتے، خیر ہم نے اسے ہلکا پھلکا نتیجہ سمجھتے ہوئے مزید نوکری کی تلاش جاری رکھی لیکن سکون نہیں رہا تھا خیر کرتے کراتے تین ماہ بعد ایک نوکری ملی اس وقت تک تبدیلی اپنے پاوں جما چکی تھی۔

یہ نوکری بھی تبدیلی کا شکار ہوئی اور اک بار پھر ہم بے روزگاروں کی صف میں کھڑے تھے میں نے اپنے انتہائی عزیز اور خود سے بڑے اور معتبر پیشہ ور حضرات کو بے روزگار ہوتے دیکھا، اس سب کے پس پردہ میں ایک ہی آواز سنائیدی رہی تھی کہ حکومت نے غیر ضروری اخراجات کم کر دیے ہیں ایسے میں جو ادارت حکومت سے چند مراعات پا رہے تھے وہ اب نہین مل رہی ہیں اس لیے نتائیج اداروں سے ورکرز کو بے روزگار کر کے ملے ہیں اور مالکان نے اداروں سے بجھ کم رنے کے لیے ایسا کرنے میں اور اپنا سرمایہ بچانے میں عافیت جانی۔

ہم سکون کا نوحہ اس لیے کر رہے ہیں کہ وزیر اعظم عمران خان نے اپنے حالیہ اک بیان میں قدرے حقیقت پسندی کا مظاہرہ کیا ہے اور اپنے بے بسی کا قصہ بھی سنا ڈلا ہے خان صاحب نے کہا ہے کہ بچپن میں سنا تھا کہ وہ ہنسی خوشی زندگی گزارنے لگے ایسا صرف کہانیو ں میں ہوتا ہے اصل زندگی میں ایسی چیز یعنی سکون نہیں ہوتا جو سکو ن کی زندگی ہے وہ صرف قبر میں ہی ہوتی ہے۔ وزیر اعظم عمران خان کے اس بیان سے مجھ جیسے تبدیلی کے ناقدین کی مایوسی میں کچھ زیادہ اضافہ نہیں ہواہے نا ہی امیدوں پر پانی پھرا ہے۔

بس اگر کوئی وزیر اعظم صاحب کو بتا دے کہ جناب وزیر اعظم آپ کے ڈیڑھ سالہ دور اقتدار گزرنے تک میعشت صنعت، روزگار، اور روز مرہ جات کے معاملات نے جس قدر تیزی سے تنزلی اختیار کی ہے اس کی نظیر نہیں ملتی۔ البتہ ا آپ سکون کی جو بات کر رہے ہیں اگر یہی حالات رہے تو یہ سکون ہم پاکستانیوں کو قبر میں بھی نہیں ملے گا۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ اگر مسلمان ہونے کے تناظر میں دیکھا جائے تو آپ کی قوم کا میعار زندگی اس قدر گر چکا ہے کہ لوگ بے ایمانی وعدہ خلافی اور یہاں تک کہ لین دین کے معاملات میں مار دھاڑ پر اتر آئے ہیں اور یہ سب معاشی ناہمورای سمیت امیدوں پر پانی پھر جانے کے باعث ہے۔

کئی اچھے بھلے لوگ خودکشیوں کو ترجیح دے رہے ہیں کچھ افلاس زدہ لوگ اس سردی میں بچوں کے گرم کپڑے نہ ہونے کی وجہ سے خود سوزی کر بیٹھے ہیں، اور آپ کے نام تحریر بھی لکھ گئے ہیں۔ کچھ جو باقی ہیں وہ سڑک پر آچکے ہیں ہر اک دوسرے کا مقروض ہے، لاقانونیت کا سلسلہ دراز ہنے کو ہے، ایسے میں خدا کی ہم سے ناراضگی تو بنتی ہی ہے اس لیے قبر میں بھی اس نے ہمارے لیے انتظام کر رکھاہو گا اور وہ انتظام سکون لینے کا انتظام نہیں ہو گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments