تمغہ حسنِ کارکردگی اور 13 مرتبہ بہترین گلوکارہ کی نگار ایوارڈ یافتہ گلوکارہ مہناز


1968 اور 69 19 کا زمانہ تھا۔ خاکسار ریڈیوپاکستان کراچی کے موسیقی کے پروگرام ”نئے فنکار ’‘ میں حصّہ لینے تقریباً ہر ہفتہ ریڈیو اسٹیشن جاتا تھا۔ وہاں کئی نامور ہستیوں کی دعائیں لینے کا اعزاز حاصل ہو ا۔ اختر وصی علی صاحب اور اُن کی بیگم کجّن صاحبہ سے ذکر شروع کرتا ہوں۔ یہ دونوں پاکستان منتقل ہونے سے پہلے آل انڈیا ریڈیو سے وابستہ تھے۔ ریڈیو پاکستان کراچی آ کر بہت جلد یہ محض سوز و سلام، مرثیہ اور نوحہ کے لئے مختص ہو کر رہ گئے۔ اِس سلسلے میں مجھے بہت اچھی طرح یاد ہے کہ ریڈیو کے جیّد فنکار، موسیقار اور گلوکار یہ برملا کہتے تھے کہ اختر صاحب نے اب صرف سوز و سلام، مرثیہ اور نوحے کے میدان کو منتخب کر کے ہم پر بہت

احسان کیا ورنہ اتنے بڑے فنکار کی موجودگی میں ہم کہاں جاتے؟ گو 1969 کے بعدمیرا ریڈیو پاکستان کراچی کم کم جانا رہا تاہم دہلی گھرانے کے اُستاد امراؤ بندو خان صاحب اور اُن کے ساتھ ساتھ اختر وصی علی صاحب کے ہاں آنا جانا لگا رہا۔

کجّن بیگم جب سوز و سلام پڑھتی تھیں تو اُن کے ساتھ اُن کے دو بہنیں اور کچھ لڑکیاں بھی آیا کرتیں تھیں۔ 1970 کی دہائی کے اوائل میں ایک روز علم ہوا کہ اِن کی صاحبزادی نے ریڈیو کے پروگرام ”بزمِ طلباء“ کے مقابلہء موسیقی میں ا تنا عمدہ نغمہ سُنایا کہ پاکستان ٹیلی وژن کراچی مرکز کے پروڈیوسر جناب امیر امام نے اُس کو اپنے پروگرام ”نغمہ زار“ میں شرکت کی دعوت دی۔ اِس کے موسیقار سُہیل رعنا تھے۔ ریڈیو پروگرام ”بزمِ طلباء“ کے پلیٹ فارم سے ہمارے ملک کو کئی ایک نامور فنکار مِلے۔

جیسے مشہور فِلمی شاعر یونس ہمدمؔ ؔصاحب۔ اختر وصی صاحب کی یہ ہونہار بیٹی مہنازتھی۔ ( اصل نام غالباً کنیز فاطمہ تھا ) ۔ یونس ہمدمؔ صاحب نے روزنامہ ایکسپریس میں اپنے کالم میں لکھا تھا کہ مہناز کو مہناز کا نام ریڈیو پاکستان کراچی کے موسیقار اور وائلن نواز وزیر احمد خان ( م ) نے دیا تھا۔ وزیر احمد خان، دلی کے موسیقی گھرانے کے اُستاد امراؤ بندو خان کے بھانجے اور ریڈیو پاکستان کے کنٹرولر پروگرامز امیر احمد خان (م ) کے چھوٹے بھائی تھے۔

چونکہ اختر وصی صاحب کے ہاں اِس خاکسار کا آنا جانا تھا لہٰذا یہ سب سُن کر کوئی حیرت نہ ہوئی کیوں کہ میں ایک عرصے سے اِس ( مہناز ) کی محنت دیکھ رہا تھا۔ مہناز کو ہمیشہ یہ بات یاد رہی کہ سب سے پہلے ریڈیو پاکستان کے سلیم گیلانی صاحب نے اُس کی حوصلہ افزائی کی اور پنڈت (موسیقی کے درجوں کے لحاظ سے اُستاد سے ایک بڑا درجہ) غلام قادر کے پاس مزید بہتر ہونے کے لئے بھیجا۔ پنڈت موصوف مہدی حسن کے بڑے بھائی تھے۔

وقت گزرتا رہا۔ میں سندھ مدرسۃ الاسلام کالج سے جامعہ کراچی آ گیا۔ پھر قسمت مجھے گراموفون کمپنی آف پاکستان میں صدابندی کا کام سیکھنے لے گئی اور یوں آہستہ آہستہ اہل فن اور صاحبِ قلم افراد سے وا سطہ پڑنے لگا۔ کہاں ایک گھریلو سوز و سلام پڑھنے والی لڑکی اور کہاں ملک کی مشہور پلے بیک سنگر مہناز! اب EMI میں میری موجودگی میں فلم ”آئینہ“ ( 1977 ) کے لانگ پلے ریکارڈ بن رہے تھے۔ اور میں فخر سے چیف ساؤنڈ ریکارڈسٹ عزیز صاحب اور فیکٹری منیجر جناب مُسلم عباسی سے کہا کرتا کہ یہ وہی مہناز ہے جو اپنی والدہ اور خالہ عشرت جہان کے ساتھ سوز و سلام کی ریکارڈنگ کے لئے ریڈیو پاکستان کراچی آیا کرتی تھی۔

وقت گزرتا گیا، میں افریقہ چلا گیا۔ پھر 1980 میں قسمت مجھے پاکستان ٹیلی وژن کراچی مرکز کے شعبہ پروگرامز میں لے آئی جہاں مجھے میری مرضی کے پروگرام کرنے کو مِلے۔ اُدہر مہناز کی شہرت دو چند ہو گئی۔ اب دوبارہ اختر وصی صاحب کے ہاں آنا جانا شروع ہوا۔ مہناز زیادہ تر اپنی والدہ اور چھوٹے بھائی ظفر کے ساتھ لاہور میں رہتی تھی جب کہ کراچی میں اُس کے والد، ظفر سے بڑا بھائی شبّر اور دیگر افرادِ خانہ رہتے تھے۔ اختر صاحب بہت ہی دلچسپ شخصیت کے حامل تھے۔

بات مہناز کی ہو رہی ہے۔ مہناز کِس معیار کی فنکارہ تھی یہ ثانوی بات ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ عروج کے زمانے میں بھی وہ ہو بہو اُسی مہناز کی طرح لگی جو سوز و سلام پڑھنے اپنی والدہ کے ساتھ آیا کرتی تھی۔ کوئی غرور، بناوٹ، پھو ں پھاں کا شائبہ تک نہیں تھا۔ ایک دِن جب وہ کراچی آئی ہوئی تھی میں اُس سے ملنے گیا۔ باتوں باتوں میں پوچھا : ”میری خواہش ہے کہ تُم پروڈیوسر سلطانہ صدیقی اور میرے پروگرام“ آواز و انداز ’‘ کے لئے ریکارڈنگ

کراؤ ”۔ بیساختہ بولی“ کب ہے؟ ”۔ میں نے کہا:“ تم کراچی کتنے دِن کے لئے ہو ”؟ جواب آیا: ’‘ 4 دِن کے لئے“۔ میں نے فوراً موسیقار اختر اللہ دتہ اور شاعر محمد ناصر ؔ سے رابطہ کیا۔ یہ دونوں افراد تیز ترین کام کرتے تھے۔ قصّہ مختصر یہ کہ ریکارڈ کم وقت میں تین گیت اور ایک غزل تیار ہوگئی اور مہناز نے آڈیو اور اُس کے بعد وی ٹی آر بھی کروایا۔ چلیں اختر اللہ دتہ اور محمد ناصرؔ تو گھر کے افراد تھے اب اِس سلسلے میں ایک اور واقعہ یاد آیا۔

پی ٹی وی کراچی کے پروگرام ”اُمنگ“ کے لئے موسیقار کریم شہاب الدین اور شاعر شبیؔ فاروقی نے مہناز کے لئے گیت تیار کیے۔ یہ صدر میں مشکور صاحب کے ”شاداب اسٹوڈیو“ میں ریکارڈ ہونا تھے۔ مہناز کو صبح 9 : 30 بجے اسٹوڈیو میں آنے کا وقت دیا گیا۔ میری عادت تھی کہ آڈیو ریکاڑڈنگ میں وقت سے پہلے آتا تھا۔ اُس روز بھی پونے نو بجے پہنچا۔ کیا دیکھتا ہوں کہ صفائی والا اسٹوڈیو میں صفائی کر رہا ہے اور مہناز باہر بیٹھی ہے۔ یہاں تو وقت پر بھی کوئی نہیں آتا کہاں کہ وقت سے پہلے! حالاں کہ یہ اُس کے عروج کا زمانہ تھا۔

اِسی ریکارڈنگ کی ایک اور یادگار بات یہ تھی کہ ا سٹوڈیو میں داخل ہوتے وقت اُس نے کلائی سے گھڑی اُتار کر پرس میں رکھ لی اور پوری ریکارڈنگ کے دوران کسی لنچ، چائے، پان کی فرمائش نہیں کی۔ جب سب گیت کریم بھائی نے او کے کر دیے تو مہناز نے مشکور صاحب کے بھانجے اور ساؤنڈ ریکارڈسٹ توصیف سے کہا کہ وہ سب او کے ٹیک سُن کر تسلی کر لے اگر ضرورت ہو تو دوبارہ ریکارڈنگ کی جا سکتی ہے۔ مجھ سے رہا نہ گیا پوچھا کہ گھڑی کیوں اُتاری؟ جواب ملاحظہ ہو: ”اسٹوڈیو میں گھڑی دیکھنے کا مطلب ہے میرا ٹائم ختم! اب میں نے جانا ہے“۔ پوچھا کہ چائے، لنچ، پان وغیرہ کی فرمائش کیوں نہ کی؟ جواب مِلا : ”اِس لئے کہ اِس میں بہت وقت لگ جاتا“۔ ( اُس روز کسی وجہ سے ریکارڈنگ پھنس گئی تھی) ۔ پوچھا : ”فنکار تو اِس کا بھی انتظار نہیں کرتے کہ اُ ن کو او کے کہہ دیا جائے۔ اُنہیں جانے کی پڑی ہوتی ہے۔ جواب دیا:“ کسی نے وقت خریدا ہوا ہے۔ ابھی شفٹ کا وقت باقی ہے، ممکن ہے کہ غور سے سننے پر میری جانب سے کوئی غلطی سامنے آ جائے۔ میں ابھی ہوں لہٰذا میرا فرض ہے کہ میں اپنی بہترین صلاحیت کا مظاہرہ کر کے جاؤں ”۔ ہے کوئی آج مہناز جیسا؟

مہناز کے ہاتھ کا بنا ہوا لکھنوی ’کھچڑا‘ بار ہا کھانے کا اتفاق ہوا۔ اگر کھانے کو سُر تال میں بیان کیا جا سکتا تو وہ تال میں پورا سُر میں پکّا اور ’سَم‘ میں مضبوط تھا۔

مہناز عام زندگی میں بے حد ملنسار سادہ اور پُر خلوص تھی۔ مارچ 1999 میں جب وہ صدر فاروق خان لغاری سے اپنا

تمغہء حسنِ کارکردگی وصول کرنے اِسلام آباد آئی تو میں نے اُسے اپنے غریب خانے میں قیام کی دعوت دی۔ ایک گیسٹ ہاؤس میں سرکاری انتظام ہونے کے باوجود اُس نے میری دعوت قبول کر لی۔ اِسی تقریب میں مسرورؔ انور صاحب کو بعد از مرگ یہی ایوارڈ دیا گیا جو اُن کی ( م ) بیگم نے وصول کیا۔ دیر آید درست آید، حکومتِ پاکستان کو 1971 میں لکھے گئے قومی گیت:

سوہنی دھرتی اللہ رکھے قدم قدم آباد

پر ایوارڈ دینا مسرورؔ بھائی کے دنیا سے گزر جانے پر یاد آیا۔ بہرحال تقریب کے بعد میں خود اُسے اپنے گھر واقع لال کڑتی، راولپنڈی لے آیا۔ میرے لئے یہ اعزاز کی بات ہے۔ ہم لوگ کچھ عرصہ پہلے ہی کراچی سے راولپنڈی منتقل ہوئے تھے۔ ہم بوریا نشین قسم کے لوگ ہیں۔ مارچ کا مہینہ اور سردی کا زمانہ، ہم خود بھی فرش پر بستر لگا کر سوتے تھے اور مہناز کو بھی ہم نے ایسا ہی ایک بستر فراہم کیا۔ اُس رات مہناز نے بغیر ساز کے اپنی سریلی آواز میں کئی گیت، ٹپے اور حضرت امیر خسروؒ کے مشہور گیت سنا کر ایک سماں باندھ دیا۔

مہناز کی خواہش پر ہم نے کسی کو بھی اِس کی آمد کا نہیں بتایا تھا۔ سامعین میں خاکسار کے ساتھ میری بیوی اور اسکول جانے والی بیٹیاں موجود تھیں۔ ہمیں آج بھی وہ محفل اسی تازگی کے ساتھ یاد ہے۔ اگلی صبح اُس نے بتایا کہ رات بہت پر سکون گزری۔ اُس نے ایک دفعہ بھی ہماری کم مائیگی پر اشارتاً بھی کچھ نہ کہا۔ سادا سے ناشتہ کے بعد میں خود اُسے ہوائی اڈہ چھوڑنے گیا۔ سادے سوٹ کے اوپر سفید چادر اوڑھے، بغیر میک اَپ، ایک گھریلو خاتون کی طرح خوشی خوشی اُس نے خدا حافظ کہا اور کراچی پرواز کر گئی۔

مہناز نے 1990 تک 13 مرتبہ بہترین گلوکارہ کے نگار ایوارڈ حاصل کیے جو ہمارے ملک میں کسی بھی گلوکارہ کے حصہ میں نہیں آئے۔ مزید برآں مہناز وہ واحد گلوکارہ ہے جِس نے مسلسل سات سال، ہر سال بہترین گلوکارہ کا نگار ایوارڈ حاصل کیا:

2011 میں مہناز کو لکس اسٹائل ایوارڈز کی جانب سے لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈدیا گیا۔

مہناز کی دو خصوصیات، شیریں نوائی اور سُر پر قابو، نے لاہور کے موسیقاروں اور فلم بینوں کو جلد ہی اپنی جانب متوجہ کر لیا اور ابتدا ء میں ہی اُس کے نغمات نے مقبولیت حاصل کر لی۔

کچھ اپنا تجربہ بتاتا ہوں کہ میں نے اُسے ا وّل تا آخر، گیت کی تیاری کے تمام مراحل میں کیسا پایا؟

وہ بہت محنت اور سنجیدگی سے کام کرتی تھی۔ البتہ کام کے بعد ہنسی مذاق ضرورہوتا تھا۔ وہ صحیح معنوں میں فنکارہ تھی۔ کبھی اُس کی جانب سے کوئی معمولی سی بھی غلطی ہو جائے تو خود ہی ریہرسل یا ریکارڈنگ روک دیا کرتی تھی۔ قطع نظر اس کے کہ راقم اُس کو فلموں میں آنے سے پہلے ہی جانتا تھا، کوئی نیا شخص بھی سیکنڈوں میں اندازہ لگا لیا کرتا تھا کہ۔ ’ہاں یہ میٹھی آواز ہے‘ ۔ آواز میٹھی ہے یا بس گزارہ، یہ بعد کی بات ہے پہلے تو یہ دیکھنا ہوتا ہے کہ آواز سُر میں بھی ہے؟

مہناز کے ہاں تو ایسا لگتا تھا کہ آواز نہیں کوئی ساز ہے۔ یعنی سُر میں پکا۔ یہ چیز خوب ریاضت اور اُستاد کی نگرانی میں مشق کرنے سے ہی آ سکتی ہے۔ اپنے عروج کے زمانے سے لے کر انتقال تک مہناز نہایت منکسر المزاج رہی۔ اِس چیز کی آج کے فنکار میں شدید کمی ہے۔ ریاضت بھی ہو گئی ا ستاد سے ضروری مشقیں بھی کر لیں، اللہ کی دین میٹھی آواز بھی شامِل ہو گئی اِس طرح جب تمام ضروری عناصر ملے تو مہناز بنی۔ اِس درجے کی سُریلی آواز کم کم ہی سننے میں آتی ہے اور فی زمانہ تو کوئی بھی نہیں! اتنی صلاحیتوں کے باوجود خواہ صرف ایک ہی گیت کیوں نہ ہو اُس نے ہمیشہ ریہرسل کرنے کو فوقیت دی۔ جب پوچھا جاتا تو کہتی کہ اِس سے نغمہ اور ردھم قابو میں آتے ہیں۔

اپنی والدہ اور والد صاحب سے موسیقی کے بنیادی رموز سیکھنے، نیم کلاسیکی اور راگ راگنیوں سے واقفیت اور پھر اساتذہ سے تربیت لینا اور سوز و سلام، مرثیہ اور نوحے پڑھنایہ سب مہناز کے اُس وقت کام آیا جب وہ 1970 اور 1980 کی ہیروئنوں کی پلے بیک سنگر بنی۔ اس کے ساتھ ساتھ جہاں موقع مِلا غزل کے میدان میں بھی اپنی صلاحیتوں کا بھرپور مظاہرہ کیا۔ جب کہ اُس وقت مادام نور جہاں، اقبال بانو اور فریدہ خانم کا طوطی بولتا تھا۔

مہناز کی کامیابی میں شیریں نوا اور سریلی آواز ہونے کے علاوہ قسمت کی یاوری اور خوش نصیبی کا بھی دخل ہے۔ 1970 کے اوائل میں پاکستان فلمی صنعت میں ایسی خواتین پلے بیک سنگر کی بہت کمی تھی جِن کی آواز بابرہ شریف، شبنم اور اُس وقت کی ہیروئنوں پر جچ سکے۔ رونا لیلیٰ اسی زمانے میں بنگلہ دیش چلی گئی تھی۔ مالا کی بھی اب وہ پہلی سی آواز نہیں رہی تھی۔ لے دے کے ایک مادام نورجہاں تھیں جو اُس وقت زیادہ تر پنجابی فلموں کی ہو کے رہ گئی تھیں۔

اِس خلا کو مہناز نے بڑی مہارت کے ساتھ پُر کیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے چار سال گزر گئے اور لاہور میں خواجہ خورشید انور، نثار بزمی، ناشاد، اے حمید، ماسٹر عنایت حسین، ماسٹر عبد اللہ، روبن گھوش، ایم اشرف، کمال احمد اور دوسرے موسیقار مہناز کو سامنے رکھ کر دھنیں بنانے لگے اور چاروں طرف اُس کے گیت گونجنے لگے۔

مہناز کے چند مشہور گیت درجِ ذیل ہیں :

مہناز نے ٹیلی وژن کے لئے بھی گیت و غزل کے بہت خوبصورت پروگرام کیے۔ اِن گیتوں ا ور غزلوں کی خوبصورتی میں مہناز کا لائٹ کلاسیکل، ٹھمری، دادرا وغیرہ کا علم، بول کے بناؤ پر خاصا عبور حاصل ہونا، آواز میں لوچ اور مُرکیوں نے سونے پہ سہاگے کا کام دکھایا۔ یہاں میں فراز ؔکی مشہور غزل کی مثال دیتا ہوں :

اب کے تجدیدِ وفا کانہیں امکاں جاناں

یاد کیا تجھ کو دلائیں تیرا پیماں جاناں

اِس کو مشہور کرنے میں اِس غزل کے موسیقارکے ساتھ ساتھ مہناز کا بھی کم ہاتھ نہیں۔

خواجہ خورشید انور مہناز کی آواز کی لوچ سے متاثر ہوئے او ر 1978 میں بننے والی فلم ”حیدر علی“ میں مہناز سے ایک سے زیادہ گیت ریکارڈ کروائے۔ مہناز نے مہدی حسن کے ساتھ کئی ایک دوگانے صدابند کروائے۔ اس کے علاوہ مادام نورجہاں اور ناہید اختر کے ساتھ بھی۔ شاید مہناز ہی نے ہماری فلموں میں سب سے زیادہ دوگانے گائے ہیں۔

مہناز کے بعض ناقدین اُسے ضرورت سے زیادہ مونہہ پھٹ اور صاف گو کہتے ہیں۔ کون کِس پائے کا مونہہ پھٹ اور صاف گو ہو سکتا ہے اِس کا فیصلہ مادام نورجہاں کے پاس بیٹھ کر ہو جایا کرتا تھا۔ یہ امتحان کیسے لیا جاتا تھا؟ اِس پر کبھی آیندہ بات ہو گی۔ میں نے بھی یہ بات مہناز سے پوچھی تو اُس نے کہا: ”ہاں! میں جو بات ہے، کہہ دیا کرتی ہوں۔ دل میں نہیں رکھتی مگر کبھی مادام نورجہاں سے میرا جھگڑا نہیں ہوا۔ وہ میری اُستاد بھی تو ہیں! میڈم کی ناک پر ہر وقت غصّہ تو نہیں بھرا رہتا تھا نا! بلکہ اِس کے بر عکس میرے میڈم سے بہت خوشگوار تعلقات رہے“۔ ویسے مہناز کی یہ بات ایک حد تک ٹھیک ہے۔ میں نے 1980 کی دہائی میں بزمی صاحب کے ساتھ خود مادام نورجہاں سے دو گھنٹے ملاقات کی مجھے ایسا محسوس ہوا کہ وہ اب لئے دیے رہتی ہیں۔

مہناز 2000 میں اپنی والدہ کے انتقال کے بعد بجھ سی گئی۔ اُس میں اب یاسیت نظر آنے لگی تھی۔ کراچی میں موسیقار اختر اللہ دتہ سے خاکسار کی اچھی سلام دعا ہے، اُسی زمانے میں ایک دن اُن کے اسٹوڈیو جانا ہوا تو انہوں نے اپنی موزوں کردہ دھنوں میں مہناز کی کچھ غزلیں، جیسے مرزا داغ دہلوی کا کلام اور بعض ٹیلی وژن پروگراموں کے گیت سنوائے۔ ہماری مہناز کے موضوع پر لمبی گفتگو ہوئی۔ لگتا تھا کہ اب وہ ہماری فلمی صنعت سے مایوس ہو گئی تھی۔ بعد کی ایک ملاقات میں مہناز کا کہنا تھا کہ اب فلموں، فلمی موسیقی اور خود موسیقی کی ستائش کا معیار نہایت پست ہو گیا ہے۔ نئے موسیقار اب بے ہنگم شور اور نرم و ملائم موسیقی کے درمیان کوئی فرق نہیں کرتے۔ وہ مجھے اُس ملاقات میں بہت بد دل لگی۔ اِس طرح اُس نے بتدریج فلمی دنیا کو خیر باد کہہ دیا۔

موسیقار اختر اللہ دتہ میرے عزیز دوست ہیں۔ پاکستان ٹیلی وژن کراچی مرکز میں اِن سے تعلق پیدا ہوا وہ ماشاء اللہ ابھی تک قائم ہے۔ یہ اکثر اپنے اسٹوڈیو میں اپنی نئی کمپوزیشنیں سُنایا کرتے تھے۔ ایسے ہی موقعوں پر میں نے مہناز کے وہ وہ گیت و غزلیں سنیں جو اس سے پہلے کبھی سننے کا اتفاق ہی نہیں ہوا تھا۔ مہناز کے بارے میں اِن سے میری کل بھی گفتگو ہوئی۔ اُنہوں نے بتایا: ”میں نے پہلی مرتبہ مہناز کو اُس وقت دیکھا جب وہ کالج کی یونیفارم پہنے ریڈیو پاکستان کراچی کی ٹرانسکرپشن سروس کے لئے گیت ریکارڈ کر انے آئی تھی۔

میں اُس زمانے میں پی ٹی وی کے پروگرام۔ ”نغمہ زار“ میں میوزیشن کی حیثیت سے کام کرتا تھا۔ جلد ہی مہناز موسیقار سہیل رعنا اور اُستاد نذر حسین کے گیتوں کی ریکارڈنگ میں آنے لگی ”۔ مجھے اِس بات سے بہت دلچسپی پیدا ہوئی۔ ابتدا ہی میں اُستاد نذر حسین کی موسیقی میں مہناز کا گیت / غزل ریکارڈ کرانا معمولی بات بالکل بھی نہیں ہے۔ کیوں کہ یہ طے ہے کہ اُستادِ موصوف کی دُھن بہت ہی ٹیڑھی کھیر ہوتی تھی۔ اختر صاحب نے ایک سوال کے جواب میں بتایا:“ میں نے بحیثیت موسیقارمہناز سے جو پہلا کام لیا وہ شاعرہ اداؔ جعفری (م ) کی یہ غزل تھی:

آخری ٹیس آزمانے کو

جی تو چاہا تھا مُسکرانے کو

یہ غزل پی ٹی وی کراچی کے پروڈیوسر کاظم پاشا کے پروگرام ”آپ پر الزام ہے“ کے لئے تیار کی گئی تھی۔ پھر پروگرام

” اُمنگ“ کے لئے گیت نگار محمد ناصرؔ سے کچھ گیت لکھوائے جیسے : ’رنگ بکھر جائے گا، پھر تُو نظر آئے گا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘ اور ’مِلتے ہی رہنا کہتے ہیں نیناں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ”۔ مہناز کے مزاج کے بارے میں وہ کہنے لگے :“ مہناز میں حِسِ مزاح کُوٹ کُوٹ کربھری ہوئی تھی۔ وہ بے حد دلچسپ اور زندہ دل تھی۔ ایک مرتبہ ہم لوگ کسی فنکشن میں تھے جہاں کافی دیر سے مجھے پان دستیاب نہیں ہوا۔ ایک عجیب بے چینی سی طاری ہو گئی۔ ایسے میں وہ میرے چہرے کو دیکھ کر کہنے لگی کہ تمہارا منہ چار کونوں میں کیوں ہو گیا ہے؟ ‘ ’۔ ایک اور مزے دار بات بتائی:

” جب میں نے اپنا ریکارڈنگ اسٹوڈیو بنایا اور وہاں ریکارڈنگ شروع کی تو وہ وہاں اکثر ریکارڈنگ میں اپنے ہاتھ کا بنا کھانا لاتی تھی۔ اُس کے ہاتھ کی بریانی لاجواب ہوتی تھی“۔ مہناز میں ایک دن میں زیادہ سے زیادہ کتنے گانے ریکارڈ کرانے کی سَکَت تھی؟ اِس کے بارے میں اختر اللہ دتہ کا کہنا ہے : ”ایک دِن میں مہناز نے 8 مشہور پاکستانی اور بھارتی فلمی گیت میرے اسٹوڈیو میں ریکارڈ کروائے۔ یہ 2007 یا 08 20 کا زمانہ تھا“۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ یہی میری مہناز سے آخری ملاقات تھی ”

میں نے خود اختر صاحب کے اسٹوڈیو میں مہناز کی کئی ایک اصل ریکارڈنگ سُنیں۔ اِن میں ’اے آر وائی‘ کے لئے ڈرامہ نویس انور مقصود کے ایک ڈرامے میں داغؔ دہلوی کی یہ غزلیں :

مرحبا اے دل و دیں لے کے مُکر نے والے

ہاتھ کانوں پہ میرے نام سے دھرنے والے

اور

دیکھ لے گا یہ مزا حشر میں جو جائے گا

آپ جو حکم کریں گے وہ ہی ہو جائے گا

اور ایک انور مقصود کی لکھی ہوئی یہ لوری سُنی :

ایک نِوالہ گھوڑے کا

ایک نِوالہ ہاتھی کا

راج کرے گی شہزادی

جان سے پیاری شہزادی

حالاں کہ یہ مہناز کی فلمی دنیا سے کنارہ ہونے کے بعد کی ریکارڈنگ تھیں لیکن اِن میں بھی مہناز کی وہ پرانی والی آواز بہت تک اپنی اصلی حالت میں محسوس ہوئی۔ میں آج بھی مہناز کی اِن غزلوں کو جب بھی وقت مِلتا ہے سُنتا ہوں۔

ذکر مہناز کا ہے تو میں نے سوچا کہ موسیقار ناشاد صاحب کے بیٹے امیر علی سے بھی کچھ بات کروں۔ مہناز کے بارے میں اُس نے بتایا: ”میں بیس گٹار ریکارڈنگ میوزیشن ہونے کے ساتھ ایک عرصے اپنے بڑے بھائی واجد علی ناشاد کی معاونت کرتا رہاہوں۔ ہم نے مہناز آپا کی آواز میں بے شمار جنگلز ( اشتہارات جو گائے جاتے ہیں ) بنائے۔ ایک مرتبہ حلیب دودھ کے اشتہار کی آڈیو ریکارڈنگ کے لئے میں مہناز آپا کو اُن کے گھر سے لینے گیا۔

خاصی صبح تھی۔ آپا کہنے لگیں ابھی تو میں ناشتہ کروں گی۔ مجھ سے پوچھا کہ ناشتہ کرو گے؟ میں نے اثبات میں سر ہلایا۔ تو صاحب! فٹا فٹ اُنہوں نے دیسی انڈوں والا قیمہ بنایا۔ جناب! وہ واقعہ بہت ہی ذائقہ دار تھا ”۔ ایک سوال کے جواب میں امیر علی نے بتایا کہ آپا بہت حلیم اور شفیق تھیں۔ مجھے یاد ہے 1988 سے 1990 کے دوران وہ ہمارے ہاں اکثر محرموں کی مجالس میں مرثیہ، سوز و سلام پڑھنے آتیں“۔ موسیقار واجد علی ناشاد کے ذکر پر امیرعلی ناشاد نے بتایا : ”میرے بھائی واجد علی ناشاد کی بحیثیت موسیقار پہلی فلم“ پرستش ” ( 1977 ) میں تسلیم ؔ فاضلی کے گیت بہت مقبول ہوئے : جیسے ’صبح شام تیرا نام ہونٹوں پہ ہے۔

۔ ۔ ۔ ۔ ’، ‘ مجھے لے چل یہاں سے دوراُن وادیوں میں جہاں پیار ملے ’۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ”۔ مہناز کے مزاج کے بارے میں امیر علی کا کہنا ہے :“ آپا بہت طنز و مزاح والی تھیں۔ لیکن کام میں ایسی تھیں کہ ایک دفعہ مصرعے کی دھن بتا دیں دوسری دفعہ سے پہلے وہ اُنہیں یاد ہوجاتی تھی۔ وہ کھانے پینے کی بے حد شوقین تھیں۔ ایک دفعہ دبئی کی کسی پارٹی کا کوئی اشتہار ریکارڈ کرنا تھا۔ حسبِ معمول مجھے آپا کو لینے صبح بھیج دیا گیا۔ اب کی دفعہ وہ اسٹوڈیو میں آ تو گئیں۔ کہا کہ مجھے دھن نہیں سننا پہلے‘ فِش اینڈ چِپس ’کھاؤں گی پھر کام۔ میں وہ لایا۔ آپا اطمینان سے کھانے لگیں جیسے کوئی کام نہ ہو اور اپنے گھر میں ہوں۔ یقین جانیے واجد بھائی سمیت اسٹوڈیو والوں کو اپنی

شِفٹ کی کوئی فکر نہیں تھی۔ ہم سب کو یقین تھا کہ 30 سیکنڈ کا اشتہارا یک ہی ٹیک میں او کے ہو جائے گا۔ اور ایسا ہی ہو۔ آپا میرے والد کو چچا کہتی تھیں اور ہمارے گھر کو اپنا گھر۔ بے دھڑک کِچن میں چلی جاتی تھیں کہ کیا پکایا ہے! میری والدہ اُن سے بہت پیار کرتی تھیں ”۔

اِس مضمون کی تیاری کے دوران ہی میرے دوست، گیت نگار محمد ناصرؔ کا فون آ گیا۔ میں نے بیساختہ اُن سے مہناز کے بارے میں سوالات کیے۔ ناصرؔ صاحب کہتے ہیں : ”میں نے مہناز کے لئے کوئی بہت زیادہ گیت تو نہیں لکھے البتہ جو بھی لکھے مہناز نے اُن کا حق ادا کر دیا۔ مثلاً:

یہ کیسا بندھن ہے ساجَن یہ کیسی مجبوری

ایک گلی میں رہ کر بھی ہے شہروں جیسی دوری

یہ پاکستان ٹیلی وژن کراچی کے کسی پروگرام کے لئے مجھ سے خاص طور پر مہنازکے لئے لکھوایا گیا تھا۔ اِس کے موسیقار نیاز احمد ( م ) تھے۔ فلم کے حوالے سے انہوں نے بتایا: ”میں نے سجاد علی کی فلم“ ایک اور لو اسٹوری ” ( 1999 ) میں اُن کے بھائی وقار علی کی موسیقی میں مہناز کے لئے ایک گیت لکھا تھا: ’بھیگے بھیگے موسم میں بھیگی بھیگی وادیاں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘ ۔ مہناز کے بارے میں مزید کنے لگے :

” مہناز بہت اچھی خاتون تھی۔ میں جب فنکشن آرگنائز کرتا تھا تو اکثر صاحبِ ذوق افراد مہناز کو خاص طور پر سُنا کرتے تھے۔ وہ اسٹیج یا گھریلو محفلوں میں بھی اُسی اطمینان سے گاتی تھی جیسے میں نے اُسے آڈیو اسٹوڈیو میں صدابندی میں دیکھا“۔

ایک مرتبہ مہناز نے راقم کو بتایا کہ اُس نے کئی فلموں میں میں گانے گائے ہیں۔ اِن میں اُردو پنجابی اور سندھی فلمیں شامل ہیں۔ جب میں نے پوچھا کہ اندازاً کتنے گانے گائے ہوں گے تو سادگی سے جواب دیا : ”یہ تو علم نہیں! “۔ اِسی زمانے میں پھر اُس نے اپنی توجہ کا مرکز ریڈیو، ٹیلی وژن، ملکی اور غیر ملکی اسٹیج شوکو بنا لیا۔

مہناز نے کن معروف لوگوں کی شاگردی کی؟ اِس کے جواب میں خود اُس نے بتایا کہ پنڈت غلام قادر، نیاز احمد، لال محمد اور بلند اقبال ( المعروف لال محمد اقبال) اور میڈم نورجہاں۔

مختلف موسیقار مہناز کی آواز کو مختلف انداز سے محسوس کرتے تھے اور اسی کی روشنی میں پھر طرزیں بناتے تھے۔ کریم بھائی المعروف کریم شہاب الدین کا کہنا تھا کہ دھن پر غور کرنے کے بعد وہ شعروں اور اُس کے ہر ہر لفظ پر توجہ دیتی تھی۔ بس ایک دفعہ گا کر بتانا کافی ہوتا تھا۔ باقی کا کام خود بخود ایسے ہوتا تھا گویا ایک میوزک کنڈکٹرا ور ایک شاعر بھی بیٹھاہے۔

خود خاکسار نے اُسے بارہا دیکھا کہ پہلی ریہرسل ہی میں اُس کو پتا چل جاتا تھا کہ کہاں سانس لینا ہے اور کہاں سانس لینے سے اضافت ٹوٹ جائے گی۔ شعر کے معنی کا تاثر ایسا دیتی کہ محض آواز کے زیرو بم سے ایسا لگتا تھا کہ کہیں پورا سُر جم کر لگ رہا ہے اور کہیں بس ہلکا سا سُر کو چھو کر واپس آ جاتا ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ واہ مہناز۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ایسا کام کم کم دیکھا۔ وہ بولوں کی طرز کے ہر سُر پر، سُر کا حق ادا کرتی تھی۔ یہاں ایک بات لکھنا بہت ضروری ہے : میں نے 1981 میں مہناز اُس کی والدہ اور والد تینوں کی موجودگی میں سوال کیا: ”کیا وجہ ہے کہ آج کل کے گلوکار / گلوکارا ؤں کی آوازیں اور سازندوں کے ساز بے اثر ہیں؟ یہ دل کے تاروں کو کیوں نہیں متاثر کرتے؟ ’‘ اِس پر مہناز نے کیا جواب دیا وہ ملاحظہ ہو:۔ “ گانے والے اور بجانے والے سارا دِن جب لوگوں سے جھوٹ بو لیں گے۔ کوئی لمحہ کسی کے پیٹھ پیچھے برائی کیے بغیر نہیں گزرے گا تو سچا سُر کیسے لگ سکے گا؟ ”

آپ نے مہناز کی کیسیٹ، سی ڈی، ریڈیو اور ٹیلی وژن پر بہت گانے سُنے ہوں گے۔ لیکن مجھے یہ اعزاز حاصل ہے کہ میں نے اُنہیں اُٹھتے بیٹھتے، بے خیالی میں اکثر گنگناتے سُنا۔ ساز کے بغیر بھی آواز کی نغمگی متاثر کرتی تھی۔ کیا شیریں نوا مہناز تھی! یہ سچی آواز 19 جنوری 2013 کو خالقِ حقیقی سے جا ملی۔ اللہ اُس کی مغفرت کرے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments