ایران کو جینے دو!


اسلامی جمہوریہ ایران سابقہ نام ”۔ فارس۔ “ کے بعد موجودہ فارسی نام ”جمہوری اسلامی ایران“ کے نام سے جانا جاتا ہے، جس کو عرف عام میں دنیا ایران کے نام سے مخاطب کر تی ہے۔ ایران جنوب مغربی ایشیاء کا ایک ملک ہے، جو مشرق وسطہ میں واقع ہے۔ ایران کی سرحدیں شمال میں آرمینا، آذربائیجان اور ترکمانستان، مشرق میں پاکستان اور افغانستان ا ور مغرب میں ترکی اور عراق (کردستان علاقے سے ) ملتی ہے۔

ایران جغرافیائی اعتبار سے خطے میں بہت اہم ملک ہے، قدرتی گیس، تیل، اور قیمتی معدنیات اس کے دامن میں پوشیدہ ہیں ایران دنیا کی قدیم ترین تہذیبوں میں ایک ہے۔ ملک کی تاریخ ہزاروں سالوں پر محیط ہے۔ یہ ملک اپنے تہذیب و تمدن کے اعتبار سے ایشیاء میں تیسرے اور دنیا میں گیارہویں درجے پر قابض ہے۔

یہاں سے اصل کہانی شروع ہوتی ہے، اگست 1952 میں شہنشاہ جلاوطن ہونے والا تھا اور 6 جولائی 1953 کو عراق اور ایران بارڈر سے ایک امریکی نوجوان ایران میں داخل ہو رہا تھا۔ ڈاکٹر مصدق کی حکومت میں مصدق کی فرض شناس اور انقلابی شخصیت کے زیر سایہ بھی کسٹم اور امیگریشن کے حکام اتنے ہی اہل اور باصلاحیت تھے جتنے ہمارے ملک میں ان محکموں کے افسران جو مچھروں کو چھاننے اور اونٹوں کو سموچا سمجھ کر نگل جاتے ہیں بعد میں اس اہم امریکی شخصیت نے خود بتایا:۔

”مجھے ایران میں داخل ہونے میں ذرہ برابر د قت نہیں ہوئی، امیگریشن کارڈ پر جہاں میرا نام لکھا جانا چاہیے تھا، وہاں افسر نے لکھا بائیں رخسار پر زخم کا نشان، آگے خانہ میں کوئی جگہ ہی نہ تھی جہاں نا م لکھا جاتا اس لئے میرا داخلہ رجسٹر نہیں ہو سکا“۔

یہ نوجوان امریکی پریزیڈنٹ روزویلٹ کا بیٹا کم روز ویلٹ تھا۔ جسے سی آئی اے نے ڈاکٹر مصدق کی حکومت کا تختہ الٹنے اور شہنشاہ کے اقتدارکو ازسرے نو مستحکم بنانے کے لئے ایران روانہ کیا گیا تھا۔

امریکہ کوئی پہلی دفعہ ایران کے خلاف جارہیت نہیں کر رہا امریکہ اس کی خفیہ ایجنسی سی آئی اے ڈاکٹر مصدق کے دور سے ملک میں اپنا اثررسوخ دیکھا رہا ہے امریکہ اپنی تمام تر کوششوں کے ساتھ ڈاکٹر مصدق کی حکومت کو ختم کرنا چاہتا تھا اسی لئے امریکہ نے سابق سفیر ایران متعینہ پاکستان جنرل نعمت اللہ نصیری کی ڈیوٹی لگائی کہ و ہ ڈاکٹر مصدق کو گرفتار کرئے گا مگر کسی طرح سازش کا راز فاش ہو گیا نصیری مصدق کے ہاں پہنچا تو وہاں فوج کا کمانڈرانچیف جنرل رفاعی پہلے ہی موجود تھا جس نے موقع پر ہی نصیری کو گرفتار کرنے کے احکام جاری کر دیے۔

اسی طرح کی کافی تگو دو کے بعد امریکہ شہنشاہ کو اقتدار میں لانے میں کامیاب ہو گیا۔ شہنشاہ کے اقتدار میں آنے کے بعد میں امریکی سفارت خانہ میں بیٹھ کر کم روز ویلٹ اپنے احساسات کا جائزہ لے رہا تھا کہہ رہا تھا۔ ”۔ شہنشاہ کو دوبارہ بر سراقتدار لانے کے لئے سی ٓئی اے کو صرف تین لاکھ نوے ہزار ڈالر خرچ کرنے پڑے تھے“۔

کہانی یہاں ختم نہیں ہوتی شہنشاہ کا دور ہی انقلاب اسلام لانے کی وجہ بن گیا۔ اسی طرح 1977 ء کی عوامی تحریک میں شہنشاہ اور امریکہ دونوں ہی کے خلاف ایک طوفان اٹھ کھڑا ہوا مگرامریکہ کی روز افزوں نا اہلی کا ثبوت یہ تھا کہ ستمبر 1977 ء میں وائٹ ہاؤس کے احکام پر سی ائی اے نے ایران کی صورت حال پر جو رپورٹ تیار کی اس میں ’سب اچھا ہے‘ کا اعلان کیا گیا اور صدر کارٹر کو بتایا گیا کہ اندرونی محاذ پر شہنشاہ کے استحکام کو کوئی خطرہ لاحق نہیں نومبر 1977 ء میں شہنشاہ نے امریکہ کا دورہ کیاجہاں وہ ہاتھوں ہاتھ لئے گئے ان کی بھر پور تائید کے لئے دوستی کے اعلان کا پر امادہ ہوا۔ 31 دسمبر 1977 کو صدر کارٹر ہیندوستان جاتے ہوئے ایک شب تہران کے ایک ڈیرہ ماہ کے عرصے میں ان کی شہنشاہ سے دوسری ملاقات تھی۔ یہان پھر بھی انہوں نے ٖضیافت کے موقع پر شہنشاہ کو زبردست خراج تحسین پیش کیا۔

ان ملاقاتوں کا ردعمل ایران میں شہنشاہ اور امریکہ دونوں کے خلاف نفرت کی صورت میں لگا، اس کے چند ہی ماہ بعد لاکھوں افراد سڑکوں پر نکل آئے اور سی آئی اے کی۔ ’سب اچھا ہے‘ کی رپورٹ دھری کی دھری رہ گیْ۔ یہی وہ موقع تھا جہاں سے ایرانی عوام لاکھوں کی تعداد میں نکلے۔ کافی جانیں دینے کے بعد جس کا رزلٹ انقلاب اسلامی ایران کا چہرہ بن کر سامنے آیا۔ سید روح اللہ موسوی خمینی المعروف امام خمینی اس اسلامی انقلاب کے سرکردہ بن کے سامنے آئے آج ان کو ایران کے اسلامی مذہبی رہنما اور اسلامی جمہوریہ ایران کا بانی مانا جاتا ہے۔ فروری 1979 کو ایران آیت اللہ کے نگرانی میں اسلامی انقلاب لانے میں کامیاب ہو گیا جس وجہ سے وہاں پر مذہبی حکومت اور ان کے حکمران کام کر رہے ہیں ان کو اپنی مرضی سے جینے کا حق حاصل ہے لیکن امریکہ ان سے یہ حق بھی چھینانا چاہتا ہے۔

آئے روز ایران پر امریکی پابندیاں ایران سے اس کی مرضی کے مطابق جینے نہ دینے کا ہتھکنڈے ہیں۔

ڈاکٹر مصدق کی حکومت کو ختم کر کے شہنشاہ کی حکومت لانے میں امریکہ کو جواب ایران اسلامی انقلاب کی شکل میں ملا اور حال ہی میں ایرانی فوج کے جنرل قاسم سلیمانی کو قتل کرنا کا درست جواب ایران ایٹمی دھماکے کی صورت میں ہی نہ دے دے۔

ایران کو اس کی خود مختاری میں امریکہ کا بطور سپر پاور اثر انداز ہونا ایرانی عوام کو مزید مشکلات میں ڈال دے گا۔ سپر پاور کا غیر جمہوری طریقے سے دنیا میں چلنامعصوم لوگوں کی زندگیوں کو خطرے میں ڈالنے کے مترادف ہے جنرل سلیمانی کی قتل کے بدلے کی اس جنگ میں غلطی سے یوکرینی مسافر طیارہ بھی نشانہ بن گیا۔ سی آئی اے اس طرح کے ہتھکنڈے استعمال کر کے مشرق وسطی کا امن برباد کر رہی ہے دنیا مزید کسی جنگ میں کود نہیں سکتی اسی لیے دنیا کے ساتھ ساتھ جمہوری طریقے سے ایران کو بھی جینے دو!

سید اظہار باقر

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید اظہار باقر

سید اظہار باقر ترمذی نے انگیزی ادب کی تعلیم پائی ہے۔ سماجی مسائل پر بلاگ لکھتے ہیں ۔ ان سے سماجی رابطے کی ویپ سائٹ ٹوٹر پر @Izhaar_Tirmizi نیز https://www.facebook.com/stirmize پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔

syed-izhar-baqir has 11 posts and counting.See all posts by syed-izhar-baqir

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments