سیاسی ہلچل: وزیر اعظم عمران خان کو کس سے خطرہ ہے؟


جولائی 2018 ء میں ہونے والے قومی انتخابات میں پاکستان تحریک انصاف کو اکثریت ضرور حاصل تھی، لیکن یہ واضح برتری نہیں تھی اس لئے کہ اکیلے وہ وفاق میں حکومت بنانے کی پوزیشن میں نہیں تھے۔ تنکا تنکا جوڑ کر وہ مرکزمیں حکومت بنانے میں کامیاب ہو ئے۔ پنجاب سے انھوں نے جوڑ توڑ کے ماہر اور منجھے ہوئے سیاسی گرو چوہدری شجاعت حسین کی خدمات حاصل کیں۔ اگر چہ ان کی سیاسی جماعت کا نام پاکستان مسلم لیگ ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ جماعت اب پنجاب تک بھی نہیں بلکہ پنجاب میں چند ضلعوں تک محدود ہے۔

بلوچستان سے اختر مینگل کو ساتھ ملا کر عمران خان وزیر اعظم منتخب ہونے میں کا میاب ہوئے۔ اختر مینگل اگر چہ ایک سیاسی کارکن ہے، مگر ان کی جماعت اب صوبے میں چند نشستوں تک محدود ہے۔ سندھ سے فہمیدہ مرزا کو ساتھ ملا یا گیا۔ یہ بھی پیپلز پارٹی سے ناراض گروپ ہے۔ ان کا کوئی سیاسی نظریہ نہیں۔ آج یہاں، معلوم نہیں کل کس کے ساتھ ہو نگے۔ متحدہ قومی مومنٹ پاکستان صرف کراچی تک محدود ہے۔ یوں سمجھ لیں کہ ایم کیو ایم کئی گروہوں اور ٹکڑوں میں تقسیم ہوگئی ہے۔

ان میں سے یہ ایک چھوٹا سا ٹکڑا ہے۔ چند مہینے قبل اختر مینگل حکومت سے ناراض ہوئے۔ جہانگیر ترین اور چند اور دوستوں نے ترقیاتی پیکج دے کر ان کو راضی کر لیا تھا۔ چوہدری شجاعت حسین اور وزیر اعظم عمران خان کے درمیان بھی کشمکش ابتداء ہی سے جاری ہے۔ چوہدری شجاعت حسین منجھے ہوئے کھلاڑی ہیں۔ وہ وفاقی حکومت سے ناراضی کا اظہار ضرور کرتے ہیں لیکن معاملات کو اس مقام تک لے جانے سے گریز کرتے ہیں کہ جہاں سے پھر واپسی مشکل یاممکن نہ ہو۔

ویسے بھی وہ گزشتہ دو عشروں سے روٹی، شوٹی اور مٹی پاؤ سیاست کر رہے ہیں۔ جی ڈی اے نے بھی کئی مرتبہ تحفظات کا اظہار کیا ہے لیکن ان کی سیاسی حیثیت وہ نہیں کہ جس کی وجہ سے ان کی منت سماجت کی جائے۔ اب ایم کیو ایم کے کنوینر خالد مقبول صدیقی نے وفاقی وزارت سے مستعفی ٰ ہونے کے بعد حکومتی ایوانوں میں ہلچل برپا کر دی ہے۔ سیاسی ماہرین کا خیال ہے کہ حالات اسی سمیت جارہے ہیں جس کا اشارہ مولانا فضل الرحمان کئی مہینے پہلے اسلام آباد کی آزادی مارچ میں کر چکے ہیں۔ سیاسی امور کے ماہرین کا کہنا ہے کہ خسر و بختیار کی وزارت تبدیل کرنے سے صوبہ جنوبی پنجاب والوں میں بھی بے چینی ہے، اگر دیگر اتحادی حکومت کا ساتھ چھوڑ دیتے ہیں تو پھر وہ بھی بغاوت کر سکتے ہیں۔ اس وجہ سے زیادہ تر سیاسی ماہرین کی رائے ہے کہ مارچ تک کچھ بھی ہو سکتا ہے۔

اگر ہم موجودہ سیاسی صورت حال کا بغور جائزہ لیں تو یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ مو جودہ حالات میں حزب اختلاف ہرگز یہ نہیں چاہتی کہ ملک میں فوری دوبارہ انتخابات ہوں۔ اس کی تین وجوہات ہیں ایک یہ کہ وزیر اعظم عمران خان اور ان کی ٹیم ملکی اور عوامی مسائل کو حل کرنے میں تاحال ناکام ہے اور ان کو یقین ہے کہ باقی ماندہ چار سالوں میں بھی وہ عوام کو آسانیاں اور سہولیات دینے میں کامیاب نہیں ہوسکتے۔ دوسرا آرمی ایکٹ پر حزب اختلاف کی دونوں جماعتوں نے حکومت کی جو غیر مشروط حمایت کی ہے اس پر بڑی تعداد میں رائے عامہ پر اثر انداز ہونے والے ادارے ان کے خلاف ہوگئے ہیں۔

ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اس وقت انتخابات کے انعقاد کا ذمہ دار ادارہ الیکشن کمیشن بھی غیر فعال ہے اس لئے ان کو خطرہ ہے کہ اگر نئے انتخابات کا اعلان کر دیا جاتا ہے تو پھر فوری انتخابات ممکن نہیں اس لئے کہ الیکشن کمیشن غیر فعال ہے۔ حزب اختلاف کو خدشہ ہے کہ ممکن ہے اس کو جواز بناکر قومی حکومت تشکیل دی جائے اور انتخابات چند سالوں تک ملتوی کر دیے جائیں۔

اگر صورت حا ل یہی ہے تو پھر کیا ہوسکتا ہے؟ اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ وزیر اعظم عمران خان اور ان کی ٹیم عوام کو ریلف دینے میں تاحال ناکام ہے، عوام کی اکثریت ان سے ناراض ہے۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ حکومت پر دباؤ بڑھانے کے لئے کوئی بھی سیاسی جماعت اس وقت میدان میں موجود نہیں۔ گزشتہ چند مہینوں سے بجلی کے بلوں میں عوام سے ظالمانہ ٹیکس کی مدمیں اربوں روپے وصول کیے جارہے ہیں مگر حزب اختلاف ٹس سے مس نہیں ہو رہی ہے۔

گیس کی قیمتوں میں اضافہ کیا گیا کسی بھی سیاسی جماعت نے احتجاج نہیں کیا۔ اشیاء خورد ونوش کی قیمتوں میں بے پناہ اضافہ ہوا حزب اختلاف پھر بھی خاموش ہے۔ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں ہرمہینے اضافہ ہو رہا ہے لیکن پارلیمنٹ کے اندر اور باہر حزب اختلاف حکومت پر دباؤ بڑھانے میں ناکام ہے۔ وفاقی حکومت کی تمام تر ناکامیوں کے باوجود حزب اختلاف ان کی کمزوریوں سے فائدہ نہیں اٹھا سکی۔ وزیر اعظم عمران خان کی طرح عوام میں حزب اختلاف کے بارے میں بھی شدید غم و غصہ موجود ہے، اس لئے کہ وہ بھی عوامی نمائندگی کا حق ادا کرنے میں حکومت ہی کی طرح ناکام ہے۔

جب تک حزب اختلاف عوامی جذبات کا احساس کرتے ہوئے حکومت پران کو آسانیاں اور سہولیات دینے کے لئے دباؤ نہیں بڑھاتی اسی وقت تک حکومت کو کسی سے بھی کوئی خطرہ نہیں۔ جو اتحادی ناراض ہیں وہ جلد راضی ہو جائیں گے، اس لئے کہ ان کی بقا بھی اسی میں ہے کہ وہ حکومت میں رہے۔ اگر وہ حکومت سے الگ ہو جائیں گے تو ان کا کردار ملکی سیاست میں ختم ہوجائے گا۔ وزیر اعظم عمران خان کو اس وقت اصل خطرہ خود اپنے آپ اور اپنی ٹیم سے ہے۔

اگر وہ عوامی توقعات پر پورا نہیں اترتے تو پھر کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ دوسرا خطرہ ان کو حزب اختلاف سے ہے اگر وہ اکٹھے ہو جاتے ہیں اور عوامی جذبات کی ترجمانی کرتے ہوئے وزیر اعظم عمران خان کے خلاف سڑکوں پر احتجاج کا فیصلہ کرتے ہیں تو پھر ان کے لئے مشکلات پیدا ہوسکتی ہیں۔ لیکن فی الحال حزب اختلاف میں اتحاد کا قائم ہونا ممکن دکھائی نہیں دے رہا ہے اس لئے کہ دونوں بڑی جماعتوں مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کو ایک دوسرے پر اعتماد نہیں۔

اس لئے میں نہیں سمجھتا کہ محض اتحادیوں کی ناراضی پر وزیر اعظم عمران خان کی حکومت ختم ہو جائے گی۔ اگر اتحادیوں کی ناراضی پر حکومت ختم ہوسکتی تو 2008 ء میں بننے والی پیپلز پارٹی کی حکومت آئینی مدت پوری نہ کرتی۔ اس لئے حالات کا سبق یہی ہے کہ وزیر اعظم عمران خان کو اس وقت کسی سے کوئی خطرہ نہیں یہ الگ بات کہ وہ اور ان کی ٹیم پوری ایماندار ی کے ساتھ کوشش کر رہی ہے کہ ان کی حکومت ختم ہو۔ مستقبل میں بھی اگر کوئی خطرہ ہے ان کو تو وہ خود وزیر اعظم عمران خان اور ان کی ٹیم ہی ہے کسی اور سے ان کو کوئی خطرہ نہیں نہ اتحادیوں سے اور نہ ہی حزب اختلاف سے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments