گرم پکوڑے


نئے سال کے پہلے مہینے کی رم جھم پھوار اور گرتی بوندوں نے، سرمئی بادلوں کے کناروں پر قوس و قزح کے رنگوں سے جھانکتے سورج کی کبھی کبھی مدہم و نرم روشنی نے سردی کے موسم کو دلکش و حسین بنایا ہویا ہے۔ آسمان سے اترتی گنگناتی بوندوں نے شہر میں ہر اہل ذوق کو دعوتِ نظارا بخشا ہے، اس ہلکی پھوار اور سردی میں اپنوں کا ساتھ ہو تو موسم کا مزا دوبالا ہو جاتا ہے۔ ایسے موسم کے دوران سردی، بارش، اور چائے پکوڑوں والے خواب کو تعبیر دینے کا موقع بھی قدرت نے بہم پہنچایا۔

ویسے کہیں پڑھا تھا کہ ”جب بھی برکھا بہار کا موسم ہو اور بوندوں کی رم جھم بھری شرارت اپنا جوہن دکھا رہی ہو تو آلو، پیاز پالک وغیرہ کا اخلاقی فرض بنتا ہے کہ وہ نمک، مرچ اور مصالحوں سے بھرپور بیسن سے بھرے برتن میں اکٹھ کرنے کے بعد دبیز بیسنی چادر اوڑھ کر تپتے خوردنی تیل میں چھلانگ لگا دیں، یہ انسانی سماج کے لیے آپ سب کی وہ یادگار قربانی ہو گی جسے بھوکے پیٹ کی تاریخ ہمیشہ یاد رکھا کرے گی“۔ یاد رکھیں، پکوڑے اور چائے کا بھی آپس میں کافی گہرا تعلق ہے۔

اگر برسات کا موسم ہو، ہریالی زمین کے پاس مکان ہو جس کی کھڑکیوں سے بھینی بھینی ہوائیں آتی ہوں اور ساتھ میں چار پانچ دوستوں کا اکٹھ ہو تو خود بخود پکوڑے اور چائے کا موسم بن جاتا ہے۔ سردیوں کے یخ بستہ موسم میں پکوڑے اور چائے کی جوڑی کی مثال لوگ سلطان راہی اور انجمن، فواد خان اور ماہرہ خان، حریم شاہ اور شیخ رشید جیسی جوڑیوں سے دیتے ہیں۔ ہر پاکستانی جانتا ہے کہ گرم چائے کے ارغوانی رنگ کے ساتھ ایک پکوڑا کھانے سے تسکین کی نئی راہیں کھلتی ہیں۔ بارہا اس کا مقابلہ چائے کے ساتھ نمک پارے، بسکٹس اورآلو کے چپس کھانے سے کرنے کی کوشش کی گئی۔ مگر پکوڑوں کے ساتھ اتنا متناسب ہے کہ چائے کا سرور دوبالا ہو جاتا ہے اور ساتھ ساتھ پکوڑا درمیان میں ذائقے کو نئی جہت بھی سجھاتا رہتا ہے۔

بہر حال، پکوڑا کس قوم کی ایجاد ہے اور پہلی بار اسے کہاں اور کس کے پاس اور کیا کرتے دیکھا گیا؟ مؤرخین کی اکثریت اس پر خاموش ہے۔ پھر بھی کچھ تحقیق سے پتہ چلا کہ لفظ ”پکوڑا“ سنسکرت زبان کے لفظ ”پکواتا“ سے ماخوذ ہے، پکواتا معنی ”پکا ہوا“ اور واتا کا معنی ”سوجن“۔ ’پکوڑا‘ اردو میں بطور اسم مستعمل ہے۔ سب سے پہلے 1780 ء کو ’کلیاتِ سودا ”میں مستعمل ملتا ہے اور اس کو کھانے کی ابتداء برصغیر پاک و ہند سے ہوئی۔

پکوڑے کے بارے میں کئی ایسی دلچسپ تاریخی باتیں ہیں جو سننے سے تعلق رکھتی ہیں۔ کہتے ہیں کہ ہندوستان میں پہلے پکوڑا آیا۔ پھر انگریز آیا۔ اور آخر میں مرغا آیا۔ انڈے کا معلوم نہیں کب آیا۔ ابھی تک پکوڑوں کو کسی بھی محاورے کے طور پر استعمال نہیں کیا گیا مگر بعض افراد کی ناک کو پکوڑے سے تشبیہ دی جاتی ہے جو کہ اخلاقی طور پر درست نہیں۔ کچھ مورخین یہ بھی لکھتے ہیں کہ سکندراعظم اس خطے میں صرف پکوڑے کھانے آیا تھا لیکن یہ کوئی ثابت نہ کرسکا۔

لیکن شوکت یوسف زئی نے ڈاکٹرز کے بارے یہ ضرور کہا کہ اگر ہم انہیں ڈاکٹرز بھرتی نہ کرتے تو یہ ڈاکٹرز خیبر بازار میں پکوڑے فروخت کر رہے ہوتے۔ چلو خدا کا شکر ہے کہ وہ نوجوان ڈاکٹروں کو روزگار تو فراہم نہ کرسکے کم از کم پکوڑے بیچنے کا ”زرین“ مشورہ تو دیا جس کی وجہ سے پکوڑے ”ٹاک آف دی کنٹری“ بن گئے اور ہرکس و ناکس پکوڑے پر دل کھول کر تبصرہ کرنے لگے بلکہ پکوڑے کھاکھاکر تبصرہ کرنے لگے اور پکوڑوں کی فروخت میں غیر معمولی اضافہ دیکھا گیا۔

کیا دنیا میں، بالخصوص اپنے پیارے پاکستان میں کوئی ایسا شخص ہوگا جو پکوڑے جیسی لذیذ نعمتِ خداوندی سے منہ موڑے؟ پکوڑوں کی ایک اور خوبی یہ ہے کہ اسے دس کھانوں کے بیچ رکھ دیا جائے تو لوگ سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر پہلے اسی پر ٹوٹ کے پڑتے ہیں کہ جیسے پکوڑا نہ ہوا من و سلوی ہو گیا اور یہ کہ غریب اور امیر ہر آدمی ہی اسے شوق اور ذوق سے کھاتا ہے۔ غریب دس روپے کے پکوڑے بمعہ چٹنی اور دس کی روٹیاں اخبار میں لپیٹ کر زمین پر بیٹھ کر صرف بیس روپے میں اپنا پیٹ بھر لیتا ہے تو امیر بھی پیچھے نہیں رہتا کسی بڑے نامی گرامی ہوٹل میں پلیٹ میں ٹشو پیر کے اوپر سجے پانچ پکوڑوں کو کانٹے کے ساتھ اٹھا کر بڑے سٹائل کے ساتھ چلی ساس یا ٹمیوٹو کیچپ کے ساتھ تقریبا ہزار پندرہ سو روپے خرچ کر کے پکوڑے کھاتا ضرور ہے۔

ہمارے معاشرے میں پکوڑے کھانے کا کوئی خاص ایک موسم نہیں، سردیاں ہوں، گرمیاں ہوں، برسات کا موسم ہو یا رمضان کا مہینہ، اسے موڈ کے مطابق ہر موسم میں کھایا اور پسند کیا کیا جاتا ہے۔ خصوصا ماہ رمضان کا سنتے ہی جو چیز پہلے ذہن میں آتی ہے وہ افطاری ہے اور افطاری کے دستر خان پر جو پکوان سب سے پہلے دوڑ کے آتا ہے، ہم اسے پکوڑے کہتے ہیں۔ بلکہ یہ تو ماہ رمضان کا برانڈ ایمبیسڈر پکوان ہے اور کسی نے اس کے لیے ہی کہا تھا، ”اے ایمان والو! تم پر روزے فرض کیے گئے ہیں، پکوڑے نہیں۔ “ پکوڑوں کو افطاری کے امام الپکوان اور نصف ایمان کا درجہ حاصل ہے اور اس نصف ایمان کے چکر میں تین مہینے کا تیل ایک ماہ میں ختم ہو جاتا ہے۔

ایک کنوار دوست کہنے لگا کہ آپ تو شادی شدہ ہو مگر ہم کنواروں کے درد کو بھلا کوئی کیا سمجھے گا؟ کیونکہ ہم ٹھنڈے پکوڑے کھا کھا کر تنگ آ چکے ہیں۔ اب تو ہماری پکوڑوں کے لیے چاہت بھی کم ہوتی نظر آتی ہے۔ کب تک ٹھنڈے اور کنوارے پکوڑے ہمارے نصیب میں رہیں گے۔ آخر کو ہمارے بھی جذبات ہیں۔ پکوڑے ہمارے بھی ہیں۔ ”ہمارے پکوڑے، ہماری مرضی“ بھی ہو سکتی ہے۔ اور ہاں ہم پکوڑے ٹھنڈے بھی نہیں کھائیں گے اور خود گرم بھی نہیں کریں گے۔

اب تو ہمیں پکوڑوں کے ساتھ پکوڑے بنانے والی بھی چاہیے جو بات بات پر یہ نہ کہے کہ ”اپنے پکوڑے خود گرم کر لو۔ “ وہ پکوڑے بنائے تو ایسے ہوں جیسے کوئی خالق کسی وجود کو تخلیق کرتا ہے۔ پکوڑے کھانے کا مزہ تو تب ہے جب پکوڑے بنانے والی آلو بیسن کے اندر اس طرح تراش کر ڈالے جس طرح نازنین کی پیشانی پر ترتیب سے تراشی، پہرہ دیتی زلفیں جن کا سایہ رخساروں پر موجود رہے۔ ہمارے سامنے تیار شدہ پکوڑوں کا رنگ ایسا ہو جیسے شب عروسی کے بعد کسی دو شیزہ کے شرماتے چہرے کا رنگ اور کوئی نازنیں نینوں سے نین ملائے رغبت کے اشارے کر رہی ہو۔

آپ جیسے شادی شدہ حضرات کی طرح ہمیں بھی بس اک صنم چاہیے، پکوڑے بنانے کے لئے۔ اب ان کی عمریں دیکھیں اور حسرتیں۔ اب بندہ ان کنواروں کو کیا بتائے کہ ہم شادی شدہ تو بازار سے بیس روپے کے اخبار میں پکوڑے لا کے اس موسم کو سہانا بنانے کی خاطر اپنے ٹھنڈے ارمانوں کی طرح ٹھنڈے پکوڑے اپنے ہاتھوں بنی چائے کے ساتھ مزے لے لے کر کھاتے ہیں۔

اخبار اور پکوڑوں کی دوستی کا میں خود چشم دید گواہ ہوں، کئی دفعہ اخبار میں لپٹے پکوڑے بازار سے گھر لانے کے بعد جب پکوڑے کھانے کے لئے اخبار کھولا تو پکوڑوں کی چکناہٹ میں چمکتا اپنا ہی کالم دکھائی دیا۔ ہمارے معاشرے میں پکوڑوں پر بھی اختلاف پایا جاتا ہے مگر یہ اختلاف جھگڑے کا باعث نہیں بنتا بلکہ باعث رحمت و برکت ہے۔ مثلا اگر آپ کے ہاں آلو کے پکوڑے بنتے ہیں تو کسی ایسے پڑوسی کے ہاں بھیج دیں جس کے ہاں یہ قسم نہیں پائی جاتی۔

وہ اس مختلف پکوڑے پر جھگڑا نہیں کرے گا بلکہ کچھ دنوں بعد ایک پلیٹ میں آپ کے ہاں آلو، پیاز اور گوبھی سے بنے پکوڑے بھیجے گا۔ اس طرح مختلف پکوڑے معاشرے میں امن اور محبت کا باعث بن سکتے ہیں۔ سو اسی رم جھم کے مہینے میں ترکیب پر عمل ضرور کیجیے گا۔ ہر محلے اور علاقے میں پکوڑوں کی ایسی مخصوص دکانیں ہوتی ہیں جو اپنی منفرد پہچان رکھتی ہیں۔ ان کے نام بہت دلچسپ ہوتے ہیں اور ان ناموں سے لوگ بخوبی واقف ہوتے ہیں۔

جیسا کہ ہمارے علاقے میں ”پریمی پکوڑے“ تتے وڑے ”آلو وڑے“ ”4 جی وڑے“۔ ہر دکان پہ مختلف شکلوں اور قسموں کے پکوڑے دستیاب ہوتے ہیں۔ بقول پکوڑا محقیقین اب تک پکوڑوں کی سب سے زیادہ قسمیں شیف ذاکر اور زبیدہ آپا نے ایجاد کی ہیں۔ سب سے مشہور شکل کوئی شکل نہیں ہے گول چکور لمبے بلکہ ہر محلے اور ہر علاقے میں ہر شکل کے پکوڑے یکساں مقبول و مشہور ہیں۔ بہرحال کسی بھی نام اور شکل کے آپ پکوڑے کھا رہے ہیں تو کوشش کیجئے کہ ساتھ میں کسی اور کو بھی شریک کر لیں، پکوڑوں کا مزہ دوبالا ہو جائے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments