غلام نبی ”گُل“۔ سندھی اور اُردو کے قابلِ قدر ادیب اور دانشور


یہ ایک کڑوی حقیقت ہے کہ اس سر زمین کے بہت سارے عظیم انسان اپنی ستائش کی تمنّا نہ ہونے کے پیشِ نظر خود کو نمایاں نہ رکھنے کی غرض سے بہت سارے لوگوں اور ذرائعِ ابلاغ سے دُور رہنے کی وجہ سے اپنے کام کی وہ ستائش نہیں پاسکے، جو اُنہیں ان کے کام کی وجہ سے ملنی چاہیے تھی۔ اُس کے برعکس ہمیں مختلف شعبہ ہائے زندگی میں ایسے بہت سارے ”مشہور لوگ“ نظر آتے ہیں، جن کو اُس سے زیادہ مل چُکا ہے، جتنا اُنہوں نے کیا ہے۔

ان دونوں حقائق کی درجنوں مثالیں دی جا سکتی ہیں۔ یہ عالم فقط دُنیا کے اِس حصے کے ساتھ ہی نہیں ہے، جہاں ہم رہتے ہیں، بلکہ تقریباً ہر جگہ پر یہ اصول کارفرما ہے، کہ جب تک کام کرنے والا اپنی تشہیر کا اہتمام خود نہ کرے، لوگ اُس کی طرف متوجّہ نہیں ہوتے، گوکہ اس کے برعکس کی بہت چند مثالیں، مختلف معاشروں کی طرح ہمارے معاشرے میں بھی موجود ہیں۔ ادب کے میدان میں بھی بہت سارے ایسے غیر شاعر اور غیر ادیب، اپنے ساتھ شاعری اور ادب کی وابستگی جوڑنے اور اپنے آپ کو شاعر اور ادیب کہلوانے میں کامیاب رہے ہیں، جن کا تعلق ایسے اداروں سے رہا، جہاں پر بیٹھ کر اُن کے لئے اپنی تشہیر کا سامان کرنا کوئی مشکل کام نہیں تھا۔ یہ ستم ظریفی اُردو سمیت پاکستان کی تمام زبانوں کے ساتھ ہی رہی ہے۔

سرزمین ِ سندھ سے متعلق ستائش سے محروم رہ جانے والے ایسے شاعروں اور دانشوروں کی ایک طویل فہرست ہے، جن میں اگر ماضی قریب سے حال تک ایک طائرانہ نگاہ پھیری جائے تو کئی ایسے نام ہیں، جن کو ہم نے اُن کے ادبی قد کاٹھ کے مطابق ستائش نہیں دی۔ اس فہرست میں سندھی ہی کے نہیں، اُردو کے بھی نامور شاعر، افسانہ نویس، ناول نگار، ڈرامہ نویس اور تھیئٹر کے ہدایتکار، جناب غلام نبی ”گُل“ کا نام بھی آتا ہے، جنہوں نے مُتنوّع موضوعات پر 19 کتابیں لکھیں، جن میں سے ہر ایک کتاب کی اہمیت یکتا اورمُسمّم ہے، جو تین برس قبل 17 نومبر 2016 ء کو ہم سے بچھڑے، مگر افسوس! کہ ہم میں سے، سوائے ادب سے متعلق لوگوں کے اُنہیں کوئی نہیں پہچانتا۔ اگر وہ اپنی حیات کے دوران اپنی تشہیر پر وقت ضائع کرتے، تو شاید اُن کی کُتب کی تعداد کم ہوتی، مگر اُنہیں زیادہ لوگ جان رہے ہوتے۔

غلام نبی ”گُل“ کا تعلق سندھ کے ”بُر ڑو“ قبیلے سے تھا۔ وہ 10 ستمبر 1932 ء کو عبدالواسع برڑو کے گھر اُس وقت کے ضلع لاڑکانہ اور آج کل کے ضلع قمبر۔ شہدادکوٹ میں واقع ”گھٹہڑ“ نامی گاؤں میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے قدیم روایتی طرزِ تعلیم کے مطابق سندھی ورنیکیولر فائنل اور عالم فاضل اور جدید انداز ِتعلیم کے لحاظ سے گریجوئیشن کی تعلیم حاصل کی۔ 1947 ء میں جب تقسیم ہند ہوئی اور پاکستان وجود میں آیا تو اُس وقت آپ کی عُمر صرف 15 برس تھی، لیکن اُس وقت مسلمانوں کی ہجرت کی وجہ سے اسکولوں میں اُن کی تعلیم کی ضرورت کے پیشِ نظر غلام نبی ”گُل“ کو کم عُمری کے باوجود پرائمری استاد مقرر کیا گیا۔

وہ پوری عُمر استاد رہے اور 60 ء برس کی عمر تک ہیڈ ماسٹر کے عہدے تک پہنچے اور 1992 ء میں لاڑکانہ کے پولیس لائن پرائمری اسکول کے ہیڈ ماسٹر کی حیثیت سے ریٹائر ہوئے۔ انہوں نے ادب سے اپنی وابستگی کا آغاز تھیئٹر لکھنے اور اپنے لکھے ہوئے اسٹیج ڈراموں کی ہدایتکاری دینے سے کیا۔ ان کے لکھے ہوئے اور پیش کیے ہوئے اہم سندھی اسٹیج ڈراموں میں، ”باغی“، ”محبّت جی فتح“ اور ”ہیررانجھو“ وغیرہ شامل ہیں۔ بعد ازاں 1953 ء سے وہ شاعری کی طرف راغب ہوئے۔

جس میں اُنہوں نے اپنا یکتا مقام پیدا کیا۔ ان کی شروعاتی شاعری فارسی رنگ میں ملتی ہے۔ ابتدا میں وہ اُس دور کی اہم ادبی تنظیم، ”بزمِ شعرائے سندھ“ سے وابستہ رہے، بعد ازاں جب وہ 1975 ء میں اپنے گاؤں سے ہجرت کرکے لاڑکانہ شہر میں رحمت پور محلے کے باسی بنے اور لاڑکانہ کے ادبی ماحول کا اثر قبول کیا، تو 1984 ء سے سندھ کی سب سے بڑی ادبی تنظیم، ”سندھی ادبی سنگت“ سے وابستہ ہو گئے۔ پہلے وہ اس تنظیم کے رُکن رہے، بعد میں 1992 ء میں وہ اُس کے سیکریٹری بھی بنے۔

اُنہوں نے سندھی خواہ اُردو میں افسانے بھی تحریر کیے اور ناول بھی تخلیق کیے، مگراُن کی پہچان ایک منفرد اور قادرالکلام شاعر کے طور پر رہی۔ شاعری میں اُنہوں نے غزل کے ساتھ ساتھ نظم، گیت، وائی، آزاد نظم، قطع اورتروینی سمیت اپنے دور کی مروّجہ تقریباً تمام اصنافِ سُخن پر طبع آزمائی کی۔ اُن کی کتب کی اشاعت کا آغاز 1990 ء سے ہوا۔ غلام نبی ”گُل“ کی شائع شدہ کتب میں ”رات باقی آ“ (شاعری) ، ”آواز جی خوشبو“ (شاعری) ، ”آئینو چپ آ“ (شاعری) ، ”جیون پیاسو سمنڈ“ (ناول) ، ”انجاں تازی قبر آہے“ (شاعری) ، ”آخری شام“ (شاعری) ، ”نہ راہُوں سانڑ ہلندیوں ہن“ (ناول) ، ”دُعا جا پیر“ (افسانے ) ، ”بکھرے منظر“ (اردوشاعری) ، ”جوگی“ (ناول) ، ”لمحن جو درد“ (شاعری) ، ”فاصلے“ (اردو ناول) ، ”ماں کیر آہیاں؟ “ (افسانے ) ، ”درد جو چنڈ“ (شاعری) ، ”خدا جی سرگوشی“ (شاعری) ، ”تنہائی“ (شاعری) ، ”خیالن میں سفر“ (شاعری) ، ”گگن گونگوبدھائے چھا! “ (شاعری) ، ”توبہ کے بعد“ (اردو افسانے ) اور دیگر کتب شامل ہیں۔

غلام نبی ”گُل“ کا نمونہ ء کلام ملاحظہ کیجئے :

ہر خوشی بازار سے مِلتی نہیں

زندگی بازار سے مِلتی نہیں

چاند گر ہوگا تو ہوگی چاندنی

چاندنی بازار سے مِلتی نہیں

شعر یہ بازار کا سودا نہیں

شاعری بازار سے مِلتی نہیں

جان و دل ”غالب“ کو بھی ناں مل سکے،

دلبری بازار سے مِلتی نہیں

اشک کب بِکتے ہیں پھولوں کی طرح

یہ ہنسی بازار سے مِلتی نہیں

غلام نبی ”گُل“ ایک طویل عرصہ دل کے عارضے اور بلند فشارِ خون کی تکلیف میں مبتلا رہے اور عمر کا آخری حصّہ طویل علالت میں گزارا۔ سندھ کے یہ یکتا تخلیقکار 17 نومبر 2016 ء کو لاڑکانہ میں ہم سے بچھڑے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments