کچھ ادبی سَرد ناکیاں


یقیناً اس زمستاں کی سرد ناک سردی نے روائیتی شعراء کوسردی کی بابت اپنے شعری نَظریات سے یوٹرن لینے پہ ضرور مجبور کیا ہوگا۔ ماضی میں آتشیں حسد و عشق میں جلے بھُنے شعراء سرد اور برفاب موسم کو باعثِ راحت مانتے تھے۔ کبھی سرد ہوا یار کو یاد کرنے کا موجب بنتی تو کبھی سردی کی آمد پہ محبوب سے ملاقات کی بِنتی کی جاتی۔ جبکہ گرمیوں کو کسی نے بھی لائقِ تحسین نہ جانا۔ دسمبر کے تو اتنے گُن گائے گئے کہ وہ ناز سے اِترانے لگا اور کچھ مدت کے لئے ٹھنڈا ہونا بھی چھوڑ دیا۔

نا معلوم جنوری کی شان میں کیوں نہ لکھا۔ غالباً نحیف و ناتواں شعراء کے دسمبر کے اندر ہی کام بن یا پھر تمام ہوجاتے ہوں گے۔ اب کے سال دسمبر اور جنوری نے یوں ایکا کیا کہ سب کو جاڑے میں سردی سے پالا پڑگیا اور خورشید کا نور ظہور بھی عید کا چاند ٹھہرا۔ اندھا دھند، دھند نے دھند میں تارے دکھا دیے۔ ٹمپریچر نے اس حد تک کم ظرفی دکھائی کہ اپنی اوقات سے بھی زیادہ گِر گیا۔ یو ں مزید درجہ حرارت گرنے کے خوف سے عُشاق بے چارے سرد آہیں بھرنے سے بھی معذور ہیں۔

عشق کو تپتے ہوئے صحرا سے تشبیح دینے والے عشاق بھی جاڑے سے دانت بجانے لگے۔ حدتِ جذبات کے دعویدار پیکروں کے ہاں جذبات کی یخ بستگی نے عاشقی و مردانگی کو ہی مشکوک بنا دیا۔ اس حال میں کتا ب تنہائی کی ساتھی ہے نہ وصل ہجر کا درماں ہے بلکہ صرف رضائی ہی مطلوب و مقصود ہے۔ حتیٰ کہ ایسی شبِ یلدائی ٹھنڈ نے سبھی کوایک دوسرے کا رضائی بہن بھائی بنا کے رکھ دیا ہے۔ یہ عُقدہ بھی عیاں ہوا کہ کمبل کو چھوڑنے کے باجود کمبل کیوں نہیں چھوڑا کرتا۔ سنا ہے آج کل نہانا بھی جوئے شیر لانے سے کم نہیں رہا اور دسویں بھی پانی سے مذاکرات ناکام ہوتے دیکھے جارہے ہیں۔ ہاں البتہ جلنے والوں کو سردی کا احساس ضرورکم ہوتا ہوگا۔ اب تو عرش صدیقی بھی اپنے لکھے پہ نادم وپشیماں ہوں گے۔ اب لکھنا پڑے تو کچھ یوں کہیں گے،

اسے کہنا کہ اب مت بات کر نا۔ اسے کہنا دسمبر آ چکا ہے

اسے کہناکہ آ اب بات کرلے۔ اسے کہنا کہ سرما جا چکا ہے

بہادر شاہ ظفر بھی دہائی دیتے،

ان سردیوں سے کہہ دو کہیں دور جا بسیں۔ اتنی سکت کہاں ہے طبع ناتوان میں

ایسے میں بھلا اب سیاسی قائدین پیچھے کیوں رہیں۔ ایک نے سردی اور تعلیم کو یوں جوڑا ”جب سردی آتا ہے تو چھٹیاں ہوتا ہے اور جب زیادہ سردی آتا ہے تو زیادہ چھٹیاں ہوتا ہے“۔ تاہم بڑے قائد نے قبر میں سکون کی نوید دے دی ہے۔ کوئی انہیں بتلاؤ کہ بعد از مرگ بھی ”زم حریر“ کا عذاب منتظر ہے۔ غرض آج ادب سے وابستہ احباب یہ پوچھنے پہ مجبور ہیں کہ، ثناء خوانِ تقدیسِ سرما کہاں ہیں؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments