گیس معطل، چولہے ٹھنڈے، خواتین گرم


بچپن سے اب تک کہ آموختہ مضامین سے ہمیں ایک بات ذہن نشین ہوچکی ہے کہ Atoms مل کر کسی شے کو تین اشکال میں ڈھال دیتے ہیں، وہ مادہ، مائع اور گیس کہلاتی ہیں۔ چنانچہ آج سوئے اتفاق سے سردیوں کے اس پُر آشوب دنوں میں یاد آیا کہ گیس کی شدید قلت ہوچکی ہے۔

اب یہ گیس بھی بڑا خطرناک ہوتا ہے۔ اگر انسان کے اندر اس کی مقدار زیادہ ہوجائے تو انسان اپنا دماغی توازن کھو بیٹھتا؛ اور پائپ لائن میں زیادہ ہوجائے تو انسانی جانوں کے ضیاع کا باعث بنتا ہے. خیر یہ جملہ معترضہ تھا۔ چنانچہ نظام انہضام کو دوسرا دماغ کہا جاتا ہے۔ اس کی اہم وجہ یہ ہے کہ جس طرح آپ کے جسم میں ریڑھ کی ہڈی کے ساتھ والی اسپائنل کورڈ یا حرام مغز سے بھی زیادہ نیورون ہوتے ہیں، تو وہ نظامِ اعصاب کے ماتحت ہوکر چلتی ہے۔ بالکل اسی طرح ہماری آنتوں میں بھی کافی نیورون ہوتے ہیں. جس وجہ سے اس کو دوسرا دماغ کہا جاتا ہے۔ لیکن جب گیس کی قلت کی وجہ سے انسان کھانے سے محروم رہے گا تو دماغ کام ہی نہیں کرے گا۔

لیکن ہم اپنے اس حال پر ہنسے یا روئیں کہ پاکستان میں گیس کے ذخائر تو موجود ہیں لیکن پھر بھی ہم گیس کی سہولت سے محروم ہیں۔ لیکن جب بھوک سے پیٹ میں چھوہے دوڑنے لگیں اور چولہے ٹھنڈے ہوں تو ایسی صورتحال میں خواتین چڑچڑاہٹ کے ساتھ غصے سے گرم ہوجاتی ہیں۔ یہ کسی امتحان سے کم نہیں ہوتا کہ چولہے کیسے گرم کریں اور خواتین کو کیسے ٹھنڈا کریں۔ چونکہ سردیوں کے موسم میں لکڑیاں مہنگی ہونے کی وجہ سے گھریلو بجٹ بھی تباہ ہوجاتا ہے۔

اب تو یہ حالات ہیں کہ نہ پیٹ میں گیس ہے، نہ پائپ میں گیس ہے۔ جائیں تو جائیں کہاں؟ اس سوچ میں تو ہم گزشتہ دہائیوں سے گم ہیں۔ البتہ اکثر افراد کو گیس کی شکایت سننے میں آتی ہے۔ جس سے چھٹکارہ پانے کے لیے وہ بہت سے عام دوائیں یا دیسی دوائیں استعمال کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ لیکن یہ گیس ہے تو بڑی معمولی سی بیماری مگر ہماری قوم کو یہ مفروضہ سمجھ لینا چاہیے کہ گیس پیٹ میں ہو تو گُڑ گُڑ کرکے پریشانی کا باعث بنتا ہے۔ پائپ میں نہ ہو تو دماغ کی خرابی کا باعث بنتا ہے۔ یہ سب تو انسان برادشت کر لیتا ہے لیکن جب خواتین غصے سے گرم ہوجائیں تو ان کو قابو کرنا ایسے ہی جیسے پاگل ہاتھی کو قابو کرنا!

چنانچہ یہ بات تو سب کو ہی معلوم ہوگی کہ ملک کے وسائل پر عوام کا سب سے زیادہ حق ہوتا ہے۔ یہاں تو جس صوبے میں گیس دریافت کی گئی تھی حیرت انگیز بات ہے کہ وہاں مقام سوئی سمیت بلوچستان کے کئی علاقے گیس کی نعمت سے ہی تاحال محروم ہیں۔ اگر یہ صوبہ بلوچستان کا حال ہے تو ہمارے پائپ میں گیس کے بجائے ہوا بھی آجائے تو غنیمت ہے۔

مگر ایک اندازے کے مطابق صوبہ سندھ تقریباً 60 فیصد گیس فراہم کرتا ہے۔ لیکن سردیوں میں سندھ سمیت ملک کا سب سے بڑا شہر معاشی حب بھی ہر سال گیس کی قلت کے لپیٹ میں آجاتا ہے۔ جس وجہ سے شہری لکڑیوں پر کھانا پکانے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ جس وجہ سے اسکول، کالج اور دفاتر جانے والوں کو بغیر ناشتہ کے جانا پڑتا ہے۔ تو خواتین اذیت کی وجہ سے غصے کے مارے آگ کے گولے کی طرح گرم رہتی ہیں۔ جبکہ ہوٹلوں کے کھانوں کی وجہ سے بیماری کی آمد کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے۔

چنانچہ ایس ایس جی سی (SSGC) کو 15 سو ملین سٹینڈرڈ کیوبک فیٹ پر ڈے (ایم ایم سی ایف ڈی) (MMCFD) گیس کی ضرورت ہے۔ لیکن ایس ایس جی سی (SSGC) کو 11 سو 50 ایم ایم سی ایف ڈی گیس سپلائی ہو رہی ہے اور ادارے کو 450 ایم ایم سی ایف ڈی گیس کی کمی کا سامنا ہے۔ جبکہ اس قلت کو ختم کرنے کے لیے حکومت کو اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ کیونکہ اس ضمن میں مزید کوتاہی کی گنجائش باقی نہیں ہے۔ ورنہ ابھی تو نہ پائپ میں گیس ہے نہ ہی پیٹ میں گیس ہے اور عوام اپنے حال سے بے حال ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments