تبدیلی کی آہٹ


سیاست کے بازار میں جمہوریت طوائف کیسے بنی یہ کہانی پھر سہی۔ فی الوقت تو سیاسی منظر نامے پر تبدیلی کی آہٹ سنائی دے رہی ہے۔ حکومت کی حلیف جماعتوں ایم کیو ایم، مسلم لیگ قاف، بی این پی مینگل اور گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس نے راگ درباری کے بعد شکایات کی ٹھمری بیک وقت دھیمے سروں میں گانا شروع کردی ہے۔ حکومت اگرچہ اتحادیوں کو رام کرنے کے لیے کوشاں ہے مگر آنے والے دنوں میں لے اور تال مزید تیز ہوگی۔ سیاست کے شہر طلسمات میں دوش بدوش چلنے والوں کو دو بدو ہوتے دیر نہیں لگتی۔ اس لیے کہتے ہیں کہ سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا۔ موجودہ حکومت تو ویسے بھی بھان متی کا کنبہ ہے۔

مہنگائی عروج پر ہے اور خلق خدا بیزار۔ پیٹرول، گیس گوشت سبزیوں اور دواؤں کے بعد اب آٹا بھی عوام کی قوت خرید سے باہر ہو رہا ہے۔ آٹے اور چینی کا ایسا ہی بحران مشرف صاحب کی حکومت کو لے ڈوبا تھا۔ بدحال عوام کو مزید بے حال کرنے کے لیے ابجٹ آنا ابھی باقی ہے جوآئی ایم ایف کی کڑی شرائط کے تحت پیش کیا جائے گا۔ جس سے عوام کی بے چینی اور اضطراب مزید بڑھے گا۔ یہی وہ وقت ہوگا جب حکومت کے حلیف ساتھ چھوڑنے کا ممکنہ فیصلہ کرنے کی پوزیشن میں آجائیں گے۔ سود وزیاں کی جمع تفریق پہلے ہی کی جاچکی۔ وزیراعظم کے خلاف ممکنہ تحریک عدم اعتماد میں کون سی اتحادی جماعت کن مفادات کی بنیاد پر اپوزیشن کی کشتی میں بیٹھ سکتی ہے۔ اس کا جائزہ لینے کے لیے فریقین کی پارلیمانی قوت اور سیاسی منظر نامے پر نگاہ ڈالنا ضروری ہے۔

قومی اسمبلی میں تحریک انصاف کی ایک سو چھپن سیٹیں ہیں۔ حکومت کی اتحادی ایم کیو ایم کی سات، مسلم لیگ ق کی پانچ، بلوچستان عوامی پارٹی کی پانچ، بی این پی مینگل کی چار، جی ڈی اے کی تین، جمہوری وطن پارٹی اور عوامی مسلم لیگ کی ایک ایک نشست ہے۔ دو آزاد امیدوار بھی حکومتی حامیوں میں شامل ہیں۔ یوں قومی اسمبلی میں حکمران اتحاد کے پاس ایک سو چوراسی سیٹیں بنتی ہیں۔

ایوان زیریں میں حزب اختلاف کی پارلیمانی وقعت دیکھیں تو مسلم لیگ ن کے پاس چوراسی، پیپلز پارٹی کے پاس پچپن، جمیعت علمائے اسلام ف کے پاس پندرہ، جماعت اسلامی اور اے این پی کے پاس ایک ایک سیٹ ہے دو آزاد ارکان بھی ملا لیں تو یہ تعداد ایک سو اٹھاون بنتی ہے۔

قومی اسمبلی میں وزیر اعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی منظوری کے لیے ایک سو بہتر ووٹ درکار ہوتے ہیں۔ عمران خان قائد ایوان منتخب ہوئے تو ان کے حصے میں مطلوبہ تعداد سے صرف چار زیادہ یعنی ایک سو چھہتر ووٹ آئے تھے یہ ذرا سا فرق ہی ان کی حکومت پر تلوار بن کر لٹک رہا ہے اور اتحادی اپنی اس اہمیت سے بخوبی آگاہ ہیں۔ اگر ایوان میں اندر سے تبدیلی آ ہی گئی یا یوں کہہ لیں کہ لائی گئی تو شاید قرعہ فال چھوٹے میاں شہباز شریف کے نام نکلے۔

صلے کے طور پر پپپلز پارٹی کو وفاق میں چند وزارتیں مل سکتی ہیں، ایم کیو ایم کو اس علیحدگی کا ثمر کراچی کی مضبوط اور با اختیار بلدیاتی حکومت کی صورت میں مل سکتا ہے سندھ میں وزارتیں اس کے سوا ہیں۔ یوں بھی تحریک انصاف کے ساتھ ایم کیو ایم کا اتحاد غیر فطری ہے اگر ایم کیو ایم نے پی ٹی آئی کا ساتھ نہ چھوڑا تو آئندہ تحریک انصاف پتنگ میں چھید کرکے متحدہ کے رہے سہے ووٹ بینک میں بھی نقب لگالے گی، مضبوط شہری حکومت ہی ایم کیو ایم کے ووٹ بینک کو پھر اکٹھا کرنے کی بنیاد بن سکتی ہے اس لیے اس جماعت کی بقا پی ٹی آئی سے رشتہ توڑنے میں ہی ہے۔

رہی بات قاف لیگ کی تو چوہدری برادران پنجاب کی گم گشتہ وزارت اعلی دوبارہ حاصل کرنے کے متمنی ہیں، نون لیگ کا ساتھ مل جائے تو پرویز الہی باآسانی بزدار حکومت کو چلتا کرکے گدی خود سنبھال سکتے ہیں۔ یہ کام مشکل بھی نہیں منظور ووٹو بھی تو کم بیش ڈیڑھ درجن سیٹوں کے ساتھ وزیراعلی بن بیٹھے تھے دس سیٹوں کے ساتھ پرویز الہی بھی ایسا کرگزریں تو اچنبھا کیسا۔ قومی اسمبلی کی سیٹ انہوں نے ویسے ہی تو قربان نہیں کی تھی۔ رہ گئی بلوچستان اسمبلی تو شنید ہے کہ اسپیکر قدوس بزنجو صاحب صوبے میں قاف لیگ اور جے یو آئی ف سے مل کر تبدیلی لانے کے متمنی ہیں۔ اپوزیشن کے بائیس ارکان کی موجودگی میں مزید چودہ ارکان کی حمایت حاصل کرکے چھتیس کا مطلوبہ عدد حاصل کرنا بہت ہی سہل ہے بس شرط یہ ہے کہ پیا چاہے۔

یہ الگ بات کہ اتنے تگڑم لڑا کرمرکز میں جو حکومت بنی وہ اہل تو ہوگی مگر مضبوط نہیں۔ شاید کہانی کے اگلے حصے کے ہدایتکار چاہتے بھی یہی ہیں۔

اگر حالات و واقعات اسی انداز میں وقوع پذیر ہوئے تو وزیراعظم عمران خان کا ردعمل کیا ہوسکتا ہے۔ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ وہ تلملائیں نہ اور انتقام کا چابک لہرائیں نہ۔ ایسا ہوتا نظر بھی آرہا ہے۔ اقتدار ہاتھ سے نکلتا دیکھ کر وہ قومی اسمبلی اور پنجاب اسمبلی توڑنے کا فیصلہ بھی کرسکتے ہیں، ایک جذباتی تقریر اور عوام سے مکمل اکثریت مانگنے کا مطالبہ لے کر عوام کے پاس پھر جاسکتے ہیں، زبان کھول کر وہ کچھ کہہ سکتے ہیں جو کبھی جاوید ہاشمی نے کہا تھا۔ مگر اس سے فرق کیا پڑے گا؟

ہمارے خیال میں ایسا کرنا سیاسی خودکشی کے مترادف ہوگا، مہنگائی کے مارے عوام ایسے میں انہیں مسترد کرنے سے نہیں چوکیں گے پھر اقتدار کی حرم سرا کی حریم ناز میں بننے والی ویڈیوز اور آڈیوز بھی تحریک انصاف کو وہ زک دے سکتی ہیں جو ریحام کی کتاب نہ دے سکی تھی

راگ درباری سے شروع ہونے والی یہ محفل عنقریب محفل رقص میں تبدیل ہوگی۔ مگر پہلے کی طرح اس بار بھی ناچ کے لیے آنگن ٹیڑھا ہی ترتیب دیا گیا ہے۔

اس ترتیب میں کوئی جانی بوجھی بے ترتیبی تھی

آدھے ایک کنارے پر تھے آدھے ایک کنارے لوگ

اس کے نظم و ضبط سے باہر ہونا کیسے ممکن تھا

آدھے اس نے ساتھ ملائے آدھے اس نے مارے لوگ

کچھ لوگوں پر شیشے کے اس جانب ہونا واجب تھا

دھار پہ چلتے چلتے ہو گئے آدھے آدھے سارے لوگ۔

دور کہیں کوئی ڈگڈگی بجا رہا ہے اور یہ صدا آرہی ہے

میرے وطن کی سیاست کا حال مت پوچھو

گھری ہوئی ہے طوائف تماش بینوں میں

دبی دبی سی سسکیوں میں آنے والی یہ صدا اشکبار پاکستان کی ہے جو آج بدحال ہوچکا! سیاست کے بازار میں جمہوریت طوائف کیسے بنی اور کیوں بن جاتی ہے؟ سوال کل بھی موجود تھا۔ سوال آج بھی موجود ہے۔ جواب وقت، تاریخ اور قلم پہ قرض ہے یہ کہانی پھر سہی


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments