مقننہ کو ملاؤں کی قید سے آزاد کیا جائے


ایک جدید جمہوری ریاست کے بنیادی ستون مقننہ، عدلیہ اور انتظامیہ ہوتے ہیں۔ مقننہ کا کام عوامی مفاد میں قانون سازی کرنا ہے۔ اس قانون کے مطابق ریاست کے نظام کو چلانا انتظامیہ کی ذمہ داری ہے۔ عدلیہ کا کام عوام کو انصاف فراہم کرنا اور قوانین کی تشریح ہے۔ لہٰذا جیسا کہ قانون سازی کی ابتداء مقننہ سے ہوتی ہے اور انتظامیہ اور عدلیہ کی نسبت یہی ایک ادارہ ہے جو براہ راست عوام منتخب کرتی ہے اور یہ عوام میں سے ہی ان کے نمائندے ہوتے ہیں۔

اس لئے ریاستی نظام میں اسے پہلا مقام حاصل ہے۔ ایک مقننہ کی ابتدائی ذمہ داری کسی ریاست کا نظم و نسق چلانے کے لئے ایک بنیادی بندوبست تیار کرنا ہے۔ یعنی ایسے قواعد و ضوابط تیار کرنا جن کے تحت ریاست کاتمام ڈھانچہ کھڑا کیا جائے گا اور ریاست کے دیگر بنیادی ستون قائم کیے جائیں گے اور مختلف اداروں کے دائرہ کار طے کیے جائیں گے۔ عوام کے حقوق اور ریاست کی بنیادی ذمہ داریوں کا تعین کیا جائے گا۔ یہ ابتدائی بنیادی قواعد جن پر ایک ریاستی نظام کی بنیاد ڈالی جاتی ہے۔ اس ریاست کا آئین کہلاتا ہے۔

ایک جدید جمہوری ریاست میں عوام کو یہ حق حاصل ہوتا ہے کہ وہ مقننہ کے لئے اپنے میں سے نمائندے منتخب کریں اور پھر یہ نمائندے مقننہ میں جاکر اپنی مفوضہ ذمہ داری یعنی قانون سازی کریں اور وسیع تر عوامی مفاد میں اپنی مرضی کا آئین تیار کرکے ریاست کے نظم و نسق کی بنیاد ڈالیں۔ پھر اس بنیادی آئین کے طے کردہ اصولوں کی بنیاد پر ثانوی قانون سازی کی جاتی ہے تاکہ نظم و نسق کو بہتر رنگ میں چلایا جائے۔ اس کے بعد ان قوانین کے اطلاق کی ذمہ داری انتظامیہ کے سپرد کی جاتی ہے۔ قوانین کی تشریح، انصاف فراہم کرنا کی حتمی ذمہ داری عدلیہ کے سپرد ہوتی ہے۔ یہی تین ادارے بنیادی ستون ہیں جبکہ باقی تمام نظام انہیں اداروں کے ذیل میں آتے ہیں۔

جیسے کسی ہسپتال میں علاج ڈاکٹر کی بجائے کسی چوکیدار سے نہیں کروایا جاسکتا۔ گھر کا سربراہ گھرکا ملازم نہیں بن سکتا، آگ بجھانے کی ذمہ داری ٹریفک پولیس کو نہیں دی جاسکتی، ٹریفک کو کنٹرول کرنے کی ذمہ داری آگ بجھانے والوں کو نہیں دی جاسکتی، تدریس کا نظام مزدو ر کے حوالے نہیں کیا جاسکتا اور صنعت کو اساتذہ کے حوالے نہیں کیا جاسکتا، بالکل اسی طرح قانون سازی کو مقننہ کے علاوہ کسی اور ادارے کے سپرد نہیں کیا جاسکتا۔

مقننہ ریاست میں قانون سازی کی تنہا ذمہ دار ہوتی ہے۔ اس سے یہ حق نہیں چھینا جاسکتا۔ بصورت دیگر وہی ہوگا جو اوپر کی مثالوں کو بیان کرکے سمجھانے کی کوشش کی گئی ہے۔ لیکن قانون کی تشریح کا کام مقننہ کو نہیں دیا جاسکتا۔ قوانین کے اطلاق کا نظام بھی مقننہ کے حوالے نہیں کیا جاسکتا۔ غرض ہر ادارے کے اپنے دائرے اور حدود و قیود ہیں جنہیں اگر قائم نہ رکھا جائے تو تباہی اور ظلم کے علاوہ کوئی اور نتیجہ نہیں نکل سکتا۔

مقننہ کو اس کی بنیادی ذمہ داری یعنی قانون سازی کے حق سے محروم نہیں کیا جاسکتا اور نہ ہی اس پر کسی قسم کی قدغن لگا کر اسے محدود و مسدود کیا جاسکتا ہے۔ اگر ایسا کیا جائے تو گویا عوام کو اس کے نمائندوں کے ذریعے قانون سازی سے محروم کردیا۔ جو جمہوریت اور جمہوری اصولوں کی نفی ہے۔ اور ایسا کوئی بھی آئین جو مقننہ کے قانون سازی کے حق کو کسی بھی طرح محدود یا مسدود کرے کم از کم جمہوری کسی صورت نہیں کہلا سکتا۔

مگر پاکستان کا دستور ہی نرالا ہے۔ اس وقت ریاست کا نظام جس آئین کے تحت چل رہا ہے وہ 1973 کا آئین ہے۔ یہ آئین فخریہ انداز میں اس وقت کی مقننہ نے تشکیل دیا۔ اس کی تعریف و توصیف اس کے متفقہ ہونے کی صورت میں بھی بیان کی جاتی ہے۔ جو کہ آئینی اور قانونی میدان میں کوئی وجہ تفاخر نہیں ہے، سوائے سیاسی نعرہ بازی کے۔ اختلاف رائے کا نہ ہونا تعریف کے قابل ہر گز نہیں بلکہ اختلاف رائے کا ہونا اور جمہور کا کسی ایک رائے پر متفق ہونا ہی اصل جمہوریت ہے۔

بہرحال اس آئین میں چند ایک ایسے اصول شامل کیے گئے ہیں جو دراصل نہ صرف اس آئین میں فساد کی اصل جڑھ ہیں بلکہ یہ خود مقننہ کے قانون سازی کے حق کو محدود کرکے اس پر ایک اور قدغن لگا دیتے ہیں۔ گویا یہ آئینی عمارت کے ڈھانچے میں وہ نقائص ہیں جو تمام عمارت کو ایک دوسرے سے جوڑے رکھنے میں ناکامی کی اصل وجہ ہیں۔ ایک جدید جمہوری ریاست کے بنیادی اصولوں کے برخلاف اسی مقننہ نے جس نے اس آئین کو تشکیل دیا، اسی آئین میں اپنے بنیادی اوراپنے سے مخصوص حق، یعنی قانون سازی پر اجارہ داری سے خود ہی دستبرداری اختیار کرلی۔

یعنی طے کرلیا کہ اس آئین میں مقننہ کو قانون سازی کا مکمل اختیار حاصل نہیں ہوگا۔ اور یہ اختیار محدود ہوگا۔ کس طرح؟ یعنی یہ قرار دے دیا گیا کہ کوئی قانون سازی اسلام کی تعلیمات کے خلاف نہیں ہوسکتی۔ گو بظاہر یہ بات ایک سیاسی نعرے کے طور پر تو سادہ لوح مسلمانوں کے لئے بڑی پرکشش نظر آتی ہے۔ مگر اس کے مضمرات ریاست کے بنیادی ڈھانچے کے لئے خوفناک تھے۔ اور آج پاکستان کے تمام مسائل کا جائزہ لیا جائے تو اصل خرابی کی جڑھ یہی نظر آئے گی۔

مسئلہ اسلامی اصولوں کا ہرگز نہیں ہے۔ اور نہ ہی اسلام کوئی ایسے اصول وضع کرتا ہے جو ریاستی معاملات میں خرابی یا خلل کا باعث بنیں۔ بات اس اصول کی ہے جو یہاں اختیار کیا گیا۔ یہ تو قرار دے دیا گیا کہ کوئی قانون سازی اسلام کی تعلیمات کے خلاف نہیں ہوسکتی۔ مگر یہ طے نہیں کیا گیا کہ اسلامی تعلیمات کی تشریح کون کرے گا۔ ظاہر ہے کسی بھی مقننہ کا کام کسی مذہب کی تشریح نہیں ہوتا۔ آئین میں جب یہ شق ڈالی گئی تو اس وقت بھی اس کے پیچھے یہی نیت کارفرما تھی کہ یہ کام ملاؤں نے ہی کرنا ہے۔

مقننہ نے خود پر ہی ایک ایسا پیر تسمہ پا بٹھا لیا جس کی مرضی کے بغیر قانون سازی کی ہی نہیں جاسکتی۔ گویا ملاؤں پر مشتمل طبقے کا مفاد عوامی مفاد پر آئینی طور پر مسلط کردیا گیا۔ پھر اسی آئین نے عوام کے مذہب کے بارے میں فیصلے کرنے کا اختیار بھی اپنے ہاتھ میں لے لیا۔ ظاہر ہے اس سارے فعل سے کسی قسم کا عوامی مفاد تو وابستہ نہیں تھا سوائے چند طبقوں کے سیاسی اور گروہی مفادات کے۔ عوام کے درمیان مذہبی امتیاز کی بنیاد بھی رکھ دی گئی۔

ایسے قوانین بنائے گئے جو عوام میں ان کے مذہب کی بنیاد پر تفریق کرتے ہیں اور قومی اتحاد کو پارہ پارہ کردیا گیا۔ مذہب کے نام کو نفرت پھیلانے کا ذریعہ بنایا گیا۔ عوام کے بنیادی حقوق کو بھی مذہب سے جوڑ دیا گیا۔ جو دراصل اسی آئین میں فراہم کیے گئے دیگر بنیادی انسانی حقوق سے واضح رنگ میں متصادم ہیں۔ گویا آئین میں اسی آئین کے تحت تضادات کی بنیاد ڈال دی گئی۔ اور جو قانون اپنے اندر ہی تضادات رکھتا ہو اس کا نفاذ فساد تو پھیلا سکتا ہے قانون کی حکمرانی قائم نہیں کرسکتا۔

اسی آئین کے تحت اکثریت اور اقلیت پیدا کرنے کی بنیاد ڈالی گئی۔ یعنی دنیا جہان کے قاعدوں کے برعکس اقلیت اور اکثریت کے تعین کو مذہب سے جوڑ دیا گیا۔ اور اس سے جہاں بتدریج مذہبی ملا ریاستی معاملات میں طاقتور ہوتے گئے وہاں مقننہ کی حیثیت کمزور ہوتی رہی اور اس کو سیاسی مفادات حاصل کرنے کے ایک ذریعے تک ہی محدود کردیا گیا۔

چونکہ قانون سازی کی ابتدا مقننہ سے ہوتی ہے اس لئے ان بنیادی خامیوں کے ساتھ جو بھی قانون سازی ہوئی اس کے نتیجے میں انتظامیہ اور عدلیہ اور دیگر ادارے اسی طرح متاثر ہوئے جیسے کسی مشینری میں تیل یا گریس کی جگہ پانی چلا جائے تو ہر جگہ اسے زنگ آلود کرتا جاتا ہے اور نتیجے میں مشینری کا ہر کل پرزہ متاثر ہوکر اس کی ساری فعالیت ختم ہوجاتی ہے۔ اب پاکستان میں یہ صورت ہے کہ مذہبی شدت پسند طاقتور ہوچکے ہیں اور غیر ریاستی عناصر ہونے کے باوجود ایک ریاستی ادارہ کی حیثیت اختیار کرچکے ہیں۔

ان کی مرضی کے بغیر نہ کوئی قانون سازی ہوسکتی ہے اور نہ ہی انتظامیہ کوئی ایسا قدم اٹھا سکتی ہے جس سے ملاؤں کے مفادات کو کوئی نقصان پہنچتا ہو۔ عدلیہ کا بھی یہی حال ہے۔ غرض اس وقت ہر ادارہ کسی نہ کسی رنگ میں ملاؤں کو خوش کرنے کی کوشش میں لگا ہوا ہے یا ان کی طاقت کے آگے بے بس نظر آتا ہے۔ اور ساری ریاستی نظام کی دھجیاں بکھر کر رہ گئی ہیں۔ اس کی رٹ مذاق بن کررہ گئی ہے۔ ادارے کمزور ہوگئے ہیں۔ اخلاقی قدریں عنقا ہیں۔

جن کی جگہ مفادات اور کرپشن نے لے لی ہے۔ اگر کوئی انفرادی حیثیت میں انصاف سے کام لینے کی کوشش کرتا ہے تو اس پریہودی، قادیانی یا قادیانی نواز ہونے کا لیبل لگا کر اسے سرنگوں کروا لیا جاتا ہے۔ کسی با اصول انسان کو کسی اہم عہدے پر رہنے نہیں دیا جاتا۔ غرض اصول پسندی صرف ایک منافقانہ نعرہ سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتی۔ مذہب کی بنیاد پر تفرقہ بازی اور نفرت کا وہ بازار گرم ہے کہ اس نفرت نے ساری قوم کا مزاج بگاڑ کررکھ دیاہے۔

مذہب کے نام پر محبت کی بجائے نفرت پھیلانے کو مسلمانی قرار دیا جانے لگا ہے۔ اب محض کلمہ پڑھنا مسلمان ہونے کے لئے اس ریاست میں کافی نہیں رہا بلکہ دیگر عقیدہ والوں سے نفرت کا اظہار مسلمانی کا اصل معیار قرار دیا جاچکا ہے۔ مذہب کی بنیاد پر نفرت کے شعلے اس قدر بھڑکا دیے گئے ہیں کہ اب ریاست کی اپنی بنیادیں اس نفرت کی آگ کی لپیٹ میں ہیں۔

مقننہ کے جن نے اپنی طاقت خود نکال کر جس طوطے میں ڈالی اسے ملاؤں کے ہاتھ دے دیا۔ اب وہ جس طرح چاہے اس کی گردن مروڑے اور اپنی مرضی کی قانون سازی کروائے۔ اس ساری صورتحال میں سب کچھ ہوسکتا ہے مگر عوامی بالادستی جسے سویلین سپریمیسی بھی کہا جاسکتا ہے وہ قائم نہیں ہوسکتی۔ جن لوگوں کو کسی سیاستدان سے کوئی امید ہے کہ وہ اس مقننہ کے ذریعے عوامی بالادستی کے لئے کھڑا ہوگا تو ان کا وہی حال ہے جو چند سال قبل ایک آغا وقار نامی شخص کے پانی سے کار چلانے کو سچ سمجھنے والوں کا تھا۔ کیونکہ ایک عوامی سیاستدان کی اصل قوت تو مقننہ ہے۔ جب مقننہ کی طاقت ہی کسی اور کے قبضے میں ہو تو وہاں سے عوامی بالا دستی کی امید رکھنا ایسا ہی ہے کہ نہیں دی جاسکتی جو دوسرے شہریوں کی آزادی سلب کرنے باعث بنے۔

رہا یہ سوال کہ مقننہ کس طرح لامحدود قانون سازی کر سکتی ہے یا کس طرح مادر پدر آزاد قانون سازی کرسکتی ہے جو اکثریت کے مذہب کے برخلاف ہو تو اس کا جواب ایسے ہی ہے جیسے کسی مسلمان کو کہا جائے کہ جو چاہو کھاؤ اور وہ اس کا مطب یہ نکالے کہ اب چاہے وہ سور بھی کھا لے۔ ظاہر ہے ایک مسلمان سور کا گوشت کھانا ہی نہیں چاہتا بھلے اسے اختیار بھی دیاجائے۔ اسی طرح ایک مسلم اکثریتی ملک میں عوام کا ایک نمائندہ جسے عوام نے قانون سازی کے لئے منتخب کیا ہو، وہ کیسے اکثریت کے مذہب کی تعلیمات کے خلاف قانون سازی کرسکتا ہے؟

لہٰذا مقننہ کے اختیار کو اسلام کی تعلیمات کے نام پر محدود و مسدود کرنے کا اصل مقصد اس کی طاقت کو ملاؤں کے آگے سر نگوں کرنے کے علاوہ اور کوئی معنی نہیں رکھتا۔ لہٰذا جب تک آئین پاکستان میں مقننہ کو ملاؤں کی قید سے آزاد نہیں کیا جاتا کسی قسم کی بہتری یا بھلائی کی توقع یا امید ایک خام خیالی سے بڑھ کر کچھ نہیں۔

غالب نے یہ مصرعہ تو نہ جانے کس ترنگ میں کہا تھا کہ، مری تعمیر میں مضمر ہے اک صورت خرابی کی۔ مگر تہتر کے آئین پریہ مصرعہ بھرپور صادق آتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments