فیس بک المعروف ابوجہل ڈاٹ کام


ہمارا بچپنا کچھ ایسے گزرا تھا کہ ہمارے خاندان والے اہل سنت سے تعلق ہوتے ہوئے بھی شیعہ حضرات سے کوئی خاص نفرت نہیں کرتے تھے۔ اسی وجہ سے ہمیں آزادی ہوتی تھی کہ محرم الحرام کے دنوں میں ہم قافلے کے ساتھ جا سکیں نیاز کھا سکیں اور ماتم دیکھ سکیں. ماتم کرنے کی ممانعت تھی البتہ مجلس سن سکتے تھے۔ کافی جگہ پر نیاز مجلس کے بعد ہوتی تو ہم مجلس سننے کو ترجیح دیتے، البتہ جس جگہ مجلس سننے کی کوئی پابندی نہیں ہوتی تو ہم نیاز کھا کر نکل لیتے۔ مجلس اور نوحہ خوانی میں بھی کوئی خاصی دلچسپی نہیں تھی البتہ اگر سننے میں آتے تو سن بھی لیتے۔

مجالس میں نچلی سطح کے علامہ سنتے اور ٹیلیوژن، سی ڈی اور آج کل یوٹیوب یا دوسرے ذرائع سے ہم بڑے بڑے عالم جیسے علامہ طالب جوہری ان میں سے ایک ہیں سن لیتے، جب پی ٹی وی کا دور تھا تب تو محرم میں شام غریباں کی مجلس ضرور سنتے تھے۔ میرے ابو کو کالے کپڑے پہننے کی مرشد کی طرف سے ممانعت تھی البتہ وہ مجلس سنتے اور گریہ بھی کرتے تھے۔ اس کے ساتھ باقی فیملی بھی مجالس سنتی تھی اور محرم الحرام کا احترام کرتی تھی اور مجالس سنتی تھی۔

جب سوشل میڈیا بالخصوص فیس بک آیا تو سچ پوچھیں تو ہمارے ذہن میں کچھ اعتقادات تھے، کچھ لوگ محترم تھے، کچھ اندھے عقائد تھے وہ تو سمجھو یہ جا وہ جا۔ لیکن کافی عالم اور ان کی قرآن و سنت سے ہٹ کر جو من گھڑت باتیں تھیں وہ مذاق بنتی چلی گئیں اور عام لوگوں کا بھی ایسے عالموں پر سے اعتبار اٹھ گیا۔ ان میں سے علامہ ضمیر اختر نقوی بھی ایک ہیں۔ علامہ ضمیر اختر نقوی کی بنیادی شناخت عالم دین کی ہے لیکن وہ زباں داں اور ادیب بھی ہیں۔ ان کی کوئی 43 سے زائد تصانیف ہیں۔ ان کے کتب خانے میں ہزاروں کتابیں اور مخطوطے ہیں۔ باز مرثیہ نگار اور محققین کا خیال ہے کہ علامہ صاحب سے زیادہ مرثییوں کا ذخیرہ کسی کے ذاتی خزانے میں نہیں ہوگا۔ اور اہل تشیع میں تاریخ کے حساب سے علامہ ضمیر نقوی کی الگ پہچان ہے۔

کچھ عرصے سے علامہ ضمیر اختر نقوی تاریخی واقعات، تاریخ ساز شخصیات کو شیعہ اور اہل بیت کا عقیدت مند ثابت کرنے کے حساب سے کافی مشہور ہیں جنہوں نے سقراط تک کو نا بخشا اور جناب سقراط اور واقعہ کربلا کے بیچ صدیوں کا فاصلہ ہے۔ اور آئن سٹائن سے لے کر لوگوں کو نیپال میں زندہ کرنے تک علامہ ضمیر نقوی کے بیان زبان زدعام رہے ہیں۔

گزشتہ دسمبر کی ایک مجلس جو غالبا کراچی کی ہے جس پر لکھا ہے مجلس چہلم سید شرافت علی نقوی، وہ یوٹیوب پر سنی۔ ویسے تو سوشل میڈیا پر بیٹھ کر سوشل میڈیا کو گالیاں دیتے میں نے کافی لوگوں کو سنا ہے، ان میں سے اکثریت عالم دین کی ہے۔ جنہوں نے کئی بار سوشل میڈیا بالخصوص فیس بک کے خلاف باتیں کی، اور پابندی کے بھی مطالبے کرتے رہتے ہیں۔ علامہ صاحب اس مجلس میں کافی باتیں بتائی جو کہ مجھے اس کی ماضی کی باتوں کی طرح حیرت میں ڈال گئیں۔

علامہ ضمیر نقوی صاحب اس 56 منٹ 57 سیکنڈ کی ویڈیو میں جو کہ میں نے دو مرتبہ دیکھی۔ اس ویڈیو میں جناب عالی کوئی ویڈیو کی ٹائمنگ کے مطابق 14 منٹ کے بعد فرمانے لگتے ہیں کہ ”نا لوگوں کو زبان آتی ہے نا ادب سے تعلق ہے، شیعہ حضرات کچھ بہتر ہیں کیوں کہ ان کا مجلس سے تعلق ہے۔ باقی پوری امت جاہل مطلق ہے۔ سب جاہل ہیں۔ اور جتنے فیس بک پر بیٹھے ہیں وہ تو جاہل تو کیا ابوجہل کی نسل سے ہیں۔ فیس بک کا دوسرا نام رکھ دیجیئے ابوجہل۔ جاہل ترین لوگ بیٹھے ہیں فیس بک پر۔

لیکن اس محفل میں کچھ اور بھی زوردار آوازیں گونجتی رہتی ہیں۔ جن میں دو سے تین لوگ ہیں جو بیشک قبلہ، کیا کہنے قبلہ واہ واہ، کرتے سنائی دیتے ہیں۔ اگر غور سے ویڈیو سنیں تو معلوم ہوگا کہ کم از کم ان لوگوں کو پتا نہیں کہ کہ واہ واہ کیا کہنے کے الفاظ کون سی جگہ کہے جاتے ہیں۔

یہاں پر علامہ ضمیر نقوی نے شیعہ حضرات کو نکال کر پوری امت مسلمہ کو جاہل مطلق کا خطاب دے دیا۔ اس پر ہم کوئی رائے نہیں رکھیں گے۔ یہ فیصلہ امت کو کرنا ہے۔ لیکن ہم فیس بک کے نام کی تبدیلی پر سوچ سکتے ہیں۔ اور فیس بک بنانے والے سے لے کر آج دنیا میں معاشی، ادبی، و فلسفی انقلاب لانے والے سوشل میڈیا کا استمعال کر رہے ہیں۔ ایسے لوگ بھی فیس بک کا استعمال کرتے ہیں جو کافی زبانوں میں مہارت رکھتے ہیں وہ سب جاہل کیسے ہو سکتے ہیں، اگرچہ علامہ کی مراد صرف پاکستانیوں سے ہے تو ایسا بھی علم کا قحط نہیں پاکستان میں۔ کروڑوں یوزرس سے کوئی درجن تو اہل علم نکل ہی آئیں گے۔

مجھے کسی سے مذہبی یا فقہی اعتراض نہیں لیکن فیس بک نے آپ کا قصور کیا کیا ہے؟ حضور آپ جیسے لوگ سفید جھوٹ بول کر محفل تو لوٹ لیتے ہیں۔ اگر کوئی بچہ گوگل کا استعمال کر کے آپ کا جھوٹ پکڑ کر پوسٹ لگا لیتا ہے تو اس میں جہالت کی کیا بات ہے؟ حضور آپ اسی ویڈیو میں کافی جھوٹ بولے، کہتے ہیں کہ آئینہ ذوالقرنین سکندر نے ایجاد کیا لیکن یہی بچے جن کو آپ ابوجہل کی نسل کا خطاب دے رہے ہیں وہ گوگل کرتے ہیں تو آئینے کا موجد جرمن کیمیادان Justus von Liebig آتا ہے۔ خیر آئینے کی تو تاریخ 4000 سال BC میں بھی اور مصر کے عجائبات سے ملنے والی تصاویر میں بھی آئینہ ملتا ہے۔

علامہ صاحب اس ویڈیو میں معجزات کے انکاری لوگوں کو بھی کافی ناپسند فرما رہے ہیں۔ علامہ صاحب کا کہنا ہے کہ یہ حکومتی سازش ہے کہ معجزے نا پڑہے جائیں۔ اور معجزات کے خلاف بات کرنے والے اور پوسٹس لگانے والوں کو بھی آڑے ہاتھوں لیا ہے۔ علامہ صاحب پوری امت جاہل مطلق ہے یا اہل علم، شیعہ اہل علم ہیں یا جاہل اس چیز کا فیصلہ ہم نہیں کر سکتے کیونکہ فتوی آپ کو ہی زیب دیتا ہے ہم ذرا ایسی چیزوں سے بہت دور ہیں لیکن محبت میں اگر آپ کہتے ہیں تو آج سے ہم فیس بک کو ابوجہل ڈاٹ کام کہیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments