پنجاب میں بحران نہیں سازش ہے!


تحریک انصاف حکومت کو گرانے کے لئے جھٹکے دیے جا رہے ہیں۔ جو کام مولانا فضل الرحمٰن بغیر اپنے اتحادی دوستوں کی شمولیت کے انجام نہ دے سکے یکایک ایم کیو ایم کے 16 ماہ تک وزارتوں، عنایتوں کے مزے لوٹتے رہنے کے بعدہڑبڑا کر اُٹھ بیٹھنے سے ممکن دکھائی دینے لگاہے۔ ایک طرف بدعنوان سیاست دانوں سے پیسہ نکلوانے میں نیب ناکام ہوئی تو دوسری طرف حکومت کے نا اہل وزرا تبدیلی کے نام پر الیکشن جیت کر صرف ڈیڑھ سال میں ملکی معیشت کا بھٹہ بٹھا کرعوام کو معیشت کی بہتری کے زبانی کلامی دعوؤں سے بہلانے کی ناکام کوشش کی جارہی ہے جبکہ رہی سہی کسر ایف بی آر نے 6 ماہ میں نت نئے قوانین پر عمل درآمد کرانے کے لئے تاجروں اور صنعتکاروں کو پریشان کرکے نکال دی ہے۔

ہر طرف بے روزگاری بڑھ رہی ہے۔ اسٹیٹ بینک نے سود کی شرح اتنی بڑھا دی ہے کہ مہنگائی کی وجہ سے قوم بلبلا اُٹھی ہے۔ اس وقت متحدہ کے ساتھ اتحادی جماعتوں کو چاہیے کہ تحریک انصاف حکومت سے زیادہ سے زیادہ مراعات اپنے عوام کے لئے حاصل کریں۔ پیپلز پارٹی نے موقع سے فائدہ اُٹھانے اور متحدہ کاحوصلے بڑھانے کے لئے لولی پاپ دینے کا عندیہ دیا ہے جبکہ چوہدری برادران بھی اکیلے پنجاب بحرانوں کا بوجھ اٹھانے کی پوزیشن میں نہیں لیکن حکمران وزرا اپنی نادانیوں سے باز نہیں آرہے ہیں۔ عمران خان مجبوری میں انہیں نکال بھی نہیں سکتے کیونکہ گنتی کم پڑ جائے گی۔ تحریک انصاف حکومت بہت سی مجبوریوں کے ساتھ اپنی اہلیت کھو تے ہوئے ثابت کرنے میں کو شاں ہے کہ پنجاب سمیت ملک میں کوئی بحران نہیں سازش ہے۔

وزیراعظم عمران کی نیت پر کوئی شک نہیں لیکن حکومتی ٹیم عوامی مسائل حل کرنے اور توقعات پر پورا اترنے میں ناکام رہی ہے۔ عوامی مسائل دن بدن بڑھتے جا رہے ہیں اور ان کے حل کے لیے اقدامات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ عام آدمی سے سانس لینے اور جینے کا حق چھینا جارہا ہے۔ حکومتی وزراء عوامی مسائل حل کرنے کی بجائے آرام دہ کمروں سے باہر نکلنا گوارا نہیں کرتے۔ جس کام کے لیے عوام سے ووٹ لیا اس کام سے گریزاں ہیں۔ اپوزیشن پر تنقید کرکے وقت گزاری کی جارہی ہے۔ اسی وجہ سے حکومتی اتحادی بھی سر اُٹھا نے لگے ہیں۔

ملک کا بڑا صوبہ پنجاب سب سے زیادہ بد انتظامی کا شکار ہے۔ پولیس و انتظامیہ میں تین بار وسیع پیمانے پر اکھاڑ پچھاڑ کے باوجود صوبے کا کوئی پرسان حال نہیں۔ سیاسی اور انتظامی ابتری سے وفاقی حکومت متاثر ہو رہی ہے اور پنجاب میں بُری حکمرانی سے تبدیلی کا نعرہ مذاق بن گیا ہے مگر عمران خان بضد ہیں کہ جب تک وزیر اعظم ہوں، سردار عثمان بزدار وزیر اعلیٰ رہیں گے۔ بذات خود سردار عثمان بزدار بھلے آدمی ہیں ابھی تک کرپشن کا کوئی بڑا سکینڈل ان کی ذات سے منسوب نہیں اور اپنی اہلیت و صلاحیت کے مطابق وہ جنوبی پنجاب کی ترقی کے لئے کوشاں ہیں مگر میاں شہباز شریف کے بعد پنجاب کو جس طرح کے متحرک و فعال، منصوبہ ساز وزیر اعلیٰ کی ضرورت ہے، عثمان بزدار ضرورت پوری نہیں کرتے۔ انہوں نے توقعات پوری کرنے کی کوشش بھی نہیں کی ہے۔ آئے روز کوئی نہ کوئی بحران پنجاب حکومت کی بدانتظامی سے جنم لیتا ہے۔ حالیہ آٹے کا بحران تازہ ترین ثبوت ہے۔ پورے صوبے میں آٹے کی قیمت دوگنی ہو نے پر وزیر اعلیٰ کو پتہ چلاہے۔ کوئی پوچھنے والا نہیں کہ جب محکمہ خوراک کے افسران نے ایک ماہ قبل آٹے کی کمی اور قیمتوں میں اضافے کا خدشہ ظاہر کیا گیاتو کسی نے کان نہیں دھرے۔ یہ صرف نا اہلی و نالائقی نہیں بلکہ ناعاقبت اندیشی ہے۔

یہ عثمان بزدارکی بڑی خوش قسمتی ہے کہ پنجاب کے عوام نے صبرو شکر کی عادت اپنا لی ہے۔ عوام مشکلات سہنے کے اس قدر عادی ہو گئے کہ گلی محلے سے بچے اغوا ہوں، ہسپتالوں میں دوائی ناپید، پولیس اہلکار اور دیگر سرکاری کارندے ان کی بوٹیاں نوچ کھائیں، بے روزگاری اور مہنگائی کے سبب نوبت فاقہ کشی و خودکشی تک پہنچے، آٹے کی قیمت میں اچانک جتنی مرضی بڑھ جائے، صابر شاکر عوام سڑکوں پر نکل کر احتجاج کرنے کے بجائے گھروں میں بیٹھ کر بھلے وقتوں کا انتظار کرتے ہیں یاپھربہت تنگ آئیں تو بددعا ئیں دینے لگتے ہیں۔

عوام تحریک انصاف پر اعتبار کرنے کے بعد کدھر جائیں۔ وہ مسلم لیگ (ن) و پیپلز پارٹی کی کسی بات پر اعتماد کرنے کو تیار نہیں۔ آخرعوام کتنی بار دھوکہ کھائیں۔ ورنہ بھلے وقتوں میں توچینی کی قیمتوں میں صرف چار آنے اضافے پر احتجاجی تحریکیں حکومت کا بوریا بستر گول کر دیا کرتی تھیں۔ یہ عمران خان کی خوش قسمتی کہ میاں شہباز شریف اپنے برادر بزرگ کی بچھائی گئی بارودی سرنگیں ہٹاتے ہٹاتے شل ہو گئے اور وہ بطور اپوزیشن لیڈر اپناحقیقی کردار ادا نہیں کر پا رہے۔ ورنہ اس بد انتظامی اور بڑھتی مہنگائی کے طوفان کے ساتھ تحریک انصاف کے لیے حکومت برقرار رکھنا مشکل ہو جاتا۔ عمران خان نے پنجاب جیسا اہم صوبہ وسیم اکرم پلس کے حوالے کر کے جو تجربہ کیا وہ وفاقی حکومت کے گلے کا طوق ثابت ہورہا ہے۔ فواد چودھری نے پنجاب حکومت کی ناقص کا کردگی پر خط لکھ کرجرأت دکھائی ہے۔ مگر عمران خان کوئی با ت سننے پر آمادہ نہیں وہ غلطی سدھارنے کی بجائے اپنی اَنا کی تسکین کے لیے غلطی پر ڈٹے ہوئے نقصان اٹھاتے رہنے کو ترجیح دے ر ہے ہیں۔

اس وقت وزیر اعظم عمران خان کو ذاتی اَنا کی بجائے عوامی مفادات کو مد نظر رکھتے ہوئے بہتر سیاسی وانتظامی حکمت عملی اپنانے کی اشد ضرورت ہے۔ اس حوالے سے صوبہ پنجاب خصوصی توجہ کا متقاضی ہے جہاں آئے روز کے پید ا کردہ بحران حکومت کے لئے چیلنج بنے ہو ئے ہیں۔ اس پرحیرت کی بات یہ ہے کہ اتحادی بھی حکومت پر تنقید کر تے نظر آتے ہیں۔ مسلم لیگ (ق) تو تمام بحرانی کیفیت کو سیدھا سادہ پنجاب حکومت کی بری گورننس کا کیا دھرا قرار دے رہی ہے۔

مراد یہی ہے کہ وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار ایک ناکام وزیر اعلیٰ ہیں جو صوبے میں سیاسی و انتظامی سمیت آٹے کے بحران پر بھی قابو نہیں پا سکی ہے۔ اُدھر حکومتی وزراء بھی یہ کہتے نہیں تھکتے کہ عثمان بزدار کی وجہ سے تحریک انصاف کی حکومت کو شدید تنقید کا سامنا ہے۔ لیکن حیرت ہے کہ وزیر اعظم عمران خان کو پنجاب حکومت کی کارکردگی بری نظر نہیں آتی اور نہ ہی وہ یہ سمجھتے ہیں کہ عثمان بزدار کی وجہ سے حکومت کوکسی تنقید کا سامنا ہے۔ وہ آج بھی عثمان بزدار کا ہی کندھا تھپتھپا ہوئے واضح کررہے ہیں کہ پنجاب میں بحران نہیں سازش ہے۔

حکومت کو اپنے طرز عمل میں تبدیلی کے ساتھ پنجاب پلس میں تبدیلی لا نا ہو گی۔ عوام ایک مستحکم سیاسی اور عوام دوست معاشی نظام کے متقاضی ہے مگر عوام کی زندگی میں تبدیلی کے مبہم آثار بھی نظر نہیں آتے۔ یہ فوٹوسیشن والے وقتی اقدامات افلاس کے ماروں کی زندگی میں کوئی تبدیلی نہیں لاسکتے۔ عوام کوایک مستحکم سیاسی ا ور مربوط معاشی نظام سے ملنے والی ریلیف کا حقیقی تسلسل درکار ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments