مرشد! ازالہ کیجئے، دعائیں نہ دیجئے


لیپ ٹاپ میرے سامنے ہے، کچھ لکھنے کو دل کر رہا ہے لیکن دماغ انگلیوں کا ساتھ نہیں دے رہا، سمجھ نہیں آ رہی کیا لکھوں؟ اس باپ کی خود کشی پر لکھوں جو اپنے بچوں کو گرم کپڑے نہیں دلا سکا، آٹے کے بحران پہ لکھوں، کسان کی بدحالی کے قصّے تحریر کروں یا سیاست کے ایوانوں میں پنپتی سازشوں کو احاطہ قلم میں لاؤں۔ جب بھی قلم اٹھاتا ہوں تو میرے سامنے ہمیشہ ان غریبوں کے بلکتے بچوں کے بھوکے چہرے آ جاتے ہیں جو کچی جھونپڑیوں میں خط ِغربت سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں۔

جن کے پاس اس شدید موسم میں تن ڈھانپنے کے پورے کپڑے نہیں ہیں جو ظل الہی کے لئے جھولیاں اٹھا اٹھا کر بد دعائیں دے رہے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو ہسپتالوں کے فرش پر یا سڑک کے کنارے علاج نہ ہونے کی وجہ سے ایڑیاں رگڑ رگڑ کر کسی اخبار کی شہ سرخی بن جاتے ہیں یا کسی ٹاک شو کا موضوع، یا پھر کسی میڈیا اینکر پرسن کے منجن بیچنے کا مواد، میری آنکھوں کے سامنے وہ غریب ہیں جو عرصہ 73 سال سے روٹی، کپڑا اور مکان کے نعرے پر قربان ہوتے آئے ہیں کہ کبھی نہ کبھی تو ہمیں پیٹ بھر کر روٹی بھی ملے گی او ر تن ڈھانپنے کو کپڑا بھی مہیا کیا جائے گا لیکن سنو!

فرمان شاہی ہے نومبر دسمبر میں کم روٹی کھاؤ، روٹی مہنگی نہیں ہو رہی صرف روٹی کا وزن کم کیا جا رہا ہے۔ ظل الہی کے شاہی خزانے سے آٹے سے بھرے ٹرک بڑے شہروں میں لوگوں کو سستا آٹا مہیا کر رہے ہیں اور ساتھ ہی فوٹو شوٹ بھی ہو رہا ہے۔ لوگو! سنو! آٹا سستا ہو گیا ہے، گھی بھی سستا ہو گیا ہے، چینی کی قیمت کو بھی بریک لگ گئے ہیں لیکن کہاں؟ سوشل میڈیا پر، فیس بک اور واٹس ایپ پر سب سستا ہے۔ یقین نہیں آتا۔ فیس بک کھول کر سستا آٹا لینے والوں کی تصویریں دیکھ لیں۔

جدید سرائیکی ادب میں لفظ سائیں کے لئے ایک نئے لفظ ”مرشد“ کو منتخب کیا گیا ہے اس لئے جناب کپتان! میں بھی آپ کے عہدے اور عظمت کو مدِ نظر رکھتے ہوئے مرشد کے لقب سے مخاطب ہوں۔ مرشد! شاید آپ کے علم میں نہ بیوی (خاتون اوّل) لائی ہے اور نہ ٹی وی لیکن میں اس علاقے کا باسی ہوں جہاں غربت مجھے ورثے میں ملی ہے، جہاں وسیم اکرم ثانی کا تعارف یوں ہوا کہ ”اماں! یہ پنجاب کے شہباز شریف لگے ہیں“ یہ وہی شوباز شریف ثانی ہیں جوہماری سپیڈو بسیں ڈیرہ غازی لے گئے ہیں اور ہمارے میڈیکل کالج کے کئی پروفیسر بھی اپنے علاقے کی خدمت میں لگا دیے ہیں۔

مجھے تو اپنے علاقے میں ہر طرف مہنگائی ہی مہنگائی دکھائی دے رہی ہے۔ گھی جو چوروں کے دور  حکومت میں مجھے 140 روپے کلو ملتا تھا اب 210 روپے کلو، دالیں 140 سے بڑھ کر 210 روپے فی کلو گرام اور چینی 55 روپے فی کلو گرام سے 76 روپے فی کلو گرام ہو چکی ہیں۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اتنی مہنگائی کیوں ہوئی؟ کیا گھی، دال اور چینی کے خام مال میں کوئی اضافہ ہوا؟ کیا ان کارخانوں میں کام کرنے والے کارکنان کی تنخواہیں بڑھا دی گئیں، جس کی وجہ سے پیداوار کی قیمت بڑھ گئی؟

قیمت تو اس میں صرف ہونے والی بجلی اور گیس کی بڑھی ہے لیکن کیا بجلی، گیس اور پٹرول، ڈیزل کی قیمتیں 100 فیصد بڑھا دی گئی ہیں؟ اگر نہیں! تو کیا وجہ ہے کہ پیداکاران نے اپنی اپنی اشیاء کے نرخ اتنے بڑھا دیے کہ غریب کی چیخیں نکل گئی ہیں؟ کون ہیں وہ غریب کش افراد جو آپ کے ووٹرز اور کارکنان کو آپ سے بد ظن کر رہا ہے؟ جناب وزیر اعظم! آپ پاکستان کو ریاست مدینہ بنانے کی بات کرتے ہیں تو بجائے آپ ان دھوکہ باز اور فراڈی مشیران خاص کی باتوں پہ کان دھرنے کے خود رات کو اس ریاست کی گلیوں میں گشت کریں، آُ پ پروٹوکول، گرمی، سردی اور سخت موسم کی پرواہ کیے بغیر عوام میں گھل مل جائیں تو آپ کو آٹے دال کے درست بھاؤ کا پتہ چل جائے گا۔

آپ کے مشیران کرام اور وزراء ہی موجودہ حکومت میں حزب اختلاف کا کردار ادا کر رہے ہیں۔ اگر حاکم وقت شیخ سعدی کے اس قول کو پلے باندھ لیں کہ چار طرح کے لوگ چار طرح کے لوگوں کے دشمن ہوتے ہیں اول ڈاکو بادشاہ کے، دوم چور چوکیدار کے، سوم بدکار چغل خور کے اور چہارم رنڈی کوتوال کی، تو شاید عمران خان کے گرد بادل کی طرح سایہ کیے سازشی اور نا اہل ٹولہ احتساب کے خوف سے کنی کترانے لگے۔

جنابِ کپتان! شاید آپ کو کسی مشیر یا وزیر نے نہیں بتایا کہ غریب کی قوتِ خرید میں تو اب وہ دوائیں بھی نہیں رہیں جن سے کھانسی اور نزلے کا علاج ہو سکے وہ بھی 150 فیصد سے زیادہ مہنگی کر دی گئی ہیں۔ گزشتہ دنوں میں نے کھانسی کے علاج کے لئے ایک عدد سیرپ اور 4 ٹیبلٹس (کلیری سڈ+ 500 mgھائیڈریلین ) خریدیں جن کی کل قیمت 280 روپے بن گئی تو مجھے اپنے پیروں تلے زمیں کھسکتی محسوس ہوئی اور میں نے میڈیکل سٹور والے صاحب کو دو گولیاں واپس کر دیں۔

محترم کپتان کو جوہستی تصّوف کو تعلیمی نصاب میں شامل کرنے کے مشورے دی رہی ہے، کیا اس کے علم میں نہیں کہ ہم سائنس اور ٹیکنالوجی میں پیچھے رہ گئے ہیں اس لئے ضرورت اس امرکی ہے کہ سائنس و ٹیکنالوجی کے ساتھ ساتھ ہم گندم پہ بھی تحقیق کریں اور ایسی ورائٹی ایجاد کریں جس کی پیداوار اتنی ہو کہ نومبر، دسمبر میں زیادہ روٹی کھانے سے بھی ہماری گندم ختم نہ ہو۔ میں نے کبھی بھی سوشل میڈیا کی افواہوں پہ کان نہیں دھرا لیکن شاید ہمارے حکومتی ایوان اور اقتدار کے سنگھاسن پہ بیٹھے اصحاب کے علاوہ پورا پاکستان جانتا ہے کہ اس وقت پاکستان کے اکثر علاقوں میں 15 کلو گرام آٹے کا تھیلہ 800 روپے میں فروخت ہو رہا ہے، اسی حساب سے بھی آٹا 2200 روپے فی من بیچا جا رہا ہے، یاد رہے کہ آٹا صرف مزدور، غریب اور فقیر نے ہی خریدنا ہے نہ کہ پیزا کھانے والے امراء نے جو بغیر آٹا کھائے بھی کئی کئی ماہ زندہ رہ سکتے ہیں۔

پیپلز پارٹی کی عوامی مقبولیت کا گراف نیچے گرانے میں گو زرداری کی کرپشن اور غلط پالیسیوں کا بہت ہاتھ رہا ہے لیکن یہ جماعت آج بھی غریب پرور کہلاتی ہے جس کی بنیادی وجہ روٹی، کپڑا اور مکان ہی ہے اس لئے مرشد عمران خان کو بھی وینٹی لیٹرپہ پڑی اپنی جماعت کو آکسیجن اسی صورت میں مہیا ہو سکتی ہے جب وہ غریب کش پالیسیوں کو چھوڑ کر غریب پرور پالیسیوں کو اپنائیں۔ میرے خیال میں اسٹیبلشمنٹ کی آشیر باد سے چلنے والی جماعتیں ہمیشہ گمنامی کی موت مر جاتی ہیں۔ مجھے موجودہ حالات کے تناظر میں جنوبی پنجاب کے شاعر افکار علوی کی ایک شکوہ کناں نظم بہت یا د آ رہی ہے کہ

مرشد! پلیز! آج مجھے وقت دیجئے

مرشد! میں آج آپ کو دُکھڑے سناؤں گا

مرشد! ہمارے گاؤں کے بچوں نے بھی کہا

مرشد کوں آکھیں آ کے ساڈٖٖٖٖے حال ڈٖیکھ ونجٖ ( مرشد کو کہنا ہمارے حالات خود آ کر دیکھے )

مرشد! میں جل رہا ہوں، ہوائیں نہ دیجئے

مرشد! ازالہ کیجئے، دعائیں نہ دیجئے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments