ہم لوگ تیری کن کا بھرم رکھنے آئے ہیں ‎


پچھلے کچھ دنوں سے افکار علوی نامی کسی تخلیق کار کی شاعری سوشل میڈیا پہ بہت گردش کر رہی ہے۔ نظم ہے یا غزل ’معلوم نہیں اس مواد کو شاعری کی کون سی صنف میں شامل کیا جاسکتا ہے؟ میرے لئے یہ طے کرنا مشکل ہے کیونکہ میں خود ایک نیم خواندہ شخص ہوں۔ اس لئے فرض کرلیتے ہیں کہ یہ ایک نثری نظم ہے۔ بہرحال نظم کی مقبولیت کی ایک وجہ یہ ہے کہ بہت عام فہم ہے اور مضامین سے بھرپور ہے۔ دوسری بات یہ کہ نظم کی مقبولیت کو دیکھتے ہوئے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ ہمارے ہاں اظہار کی کتنی طلب ہے؟

ہر شخص اظہار چاہتا ہے ’چاھے وہ کتنا ہی بے ڈھنگا کیوں نہ ہو۔ لہذا جو شخص کچھ لکھ یا پڑھ نہیں سکتا وہ سیلفی بنا کہ شیئر کر دیتا ہے۔ اور سب سے اہم بات یہ کہ اس خطے میں رہنے والے لوگ پچھلی دو دھایؤں سے جتنے ”کنفیوزڈ“ ہیں‘ اس سے قبل نہ تھے۔ گو کہ آج ڈیجیٹل لائبریری ہماری جیب میں موجود ہے اور ہم گرد و پیش کے حالات سے باخبر رہتے ہیں مگر اس ساری عالمی جرت کے باوجود ہمارے ذہن خالی ہیں اور انگلیاں مصروف ہیں۔ لہذا ہمیں سمجھ نہیں آتی کہ ہم کیا لکھ رہے ہیں ’کیا پڑھ رہے ہیں اور کیا شیئر کر رہے ہیں۔

باوجود بے شمار فنی خرابیوں کے نظم کے کچھ مصرے لاجواب ہیں۔ بلکہ یہ مصرے کسی بھی مضمون کا موضوع یا ابتدائی لائن ہوسکتے ہیں۔ شاعر کا سادہ انداز بیاں اس اظہار کو اور دلچسپ بنا دیتا ہے۔ جن لوگوں نے اظہار کی پہلی صورت سے لطف اندوز ہونا ہو وہ تو ضرور سنیں ’کیونکہ اظہار کی پہلی صورت فل بدی ہوتی ہے یعنی بغیر کسی رسمی تکلف اور ٹیبل ورک کے۔ لہذا ایک جینوئن پیغام ہوتا ہے اس اظہار کے اندر۔ اور تخلیق کار نے بالکل نیچرل انداز میں نہ صرف اپنی ترجمانی کی ہے بلکہ کروڑوں باسیوں کے دلوں کے تار چھیڑے ہیں۔ ۔

کچھ اور بھیج ’تیرے گذشتہ صحیفوں سے

مقصد ہی حل ہوئے ہیں مسائل نہیں ہوئے

پروردگار صرف بنا دینا کافی نہیں

تخلیق کرکے بھیج تو پھر دیکھ بھال کر

ہم لوگ تیری کن کا بھرم رکھنے آئے ہیں

پروردگار یار ہمارا خیال کر


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments