میری جان! ہم دودھ میں ملاوٹ نہیں کرتے


”میری جان! ہم دودھ میں ملاوٹ نہیں کرتے بلکہ یوں کہو کہ ہم اسے غریبوں کی قوتِ خرید میں لا رہے ہیں۔ اب تمہی بتاؤ کہ خالص دودھ کم از کم ایک سو تیس روپے لیٹر میں ملتا ہے اور ہم بیچ رہے ہیں اَسّی روپے میں۔ سرکار! اپنا سوچنے کا انداز بدلو، نیک نیّتی سے کیے گئے کاموں میں خدا کے لیے مین میخ نکالنا چھوڑ دو“

”پھر بھی میرا مطلب ہے کہ آپ خالص چیز بیچیں نا، چلیں کوئی لیٹر کی استعداد نہیں رکھتا تو پاؤ بھر لے جائے گا“

”بھئی بہت اچھے! یعنی میں تقدیر کے مارے لوگوں سے یکمشت لیٹر دودھ خریدنے کی اناپرور سرخوشی بھی چھین لوں؟ اور پاؤ بھر دودھ دے کر انھیں یک لمحاتی معاشی خودفریبی سے بھی محروم کر دوں؟ نا بابا نا یہ ظلم مجھ سے نہ ہوگا“

”لیکن معاشی خود فریبی کے اس انتہائی عارضی لمحے کے بعد بھی تو ان کی زندگی۔۔۔ “

” ارے بھائی! باقی ان کا ذاتی معاملہ ہے۔ میری تو بس اتنی سی دعا ہے کہ مجھ سے کسی غریب آدمی کا دل نہ دکھے“

”اچھا تو دودھ میں ملاوٹ آپ اس نیک جذبے کے تحت کر رہے ہیں؟ “

”تو اور کیا منافع خوری کے لئے کر رہا ہوں؟ “

”نن۔ نہ میرا مطلب یہ ہے کہ۔ مثلاً۔ یوں کہ۔ پھر آپ یہ جوہڑوں کھالوں اور نہروں کا گندا پانی۔ دیکھیں نا“

”بہت اچھے! تو اَسّی روپے لیٹر والے دودھ میں کیا منرل واٹر ملاؤں۔ ہوش میں ہو میاں؟ “

بھئی دیکھئے اس مضر صحت پانی سے کیا بیماریاں وغیرہ۔ ”

”بیماریاں وغیرہ؟ او بھائی صاحب! کہاں کے ہو؟ یہ لوگ تو اللہ کے فضل سے کلو کلو مٹی گھٹا کھا جاتے ہیں، دھواں پی جاتے ہیں۔ انھیں کیا ہونا ہے اس بے ضرر دودھ سے۔ تو میری جان! ٹینشن نہ لے“

” ارے یہ کیا؟ ان سب کے بعد اب برف بھی؟ “

” او بیٹا! نہ ڈال برف دودھ میں اور اسے خراب ہونے دے گرمی میں۔ او میری جان! اگر برف نہ ڈالی تو بیسں منٹ نہیں گزرنے اور سارا دودھ دہی بن جانا ہے۔ پتا نہیں تمہاری عقل کہاں گئی ہے۔ دیکھنے میں تو دھوکا ہوتا ہے کہ شاید پڑھے لکھے ہو لیکن۔ “

”میرا مطلب تھا کہ۔ “

اؤ میاں مطلب، چل بھاگ یہاں سے۔ مورکھ۔ جاہل۔ ”

” محترم میں تو۔ فقط۔ بس یہ۔ سمجھنا۔ “

” دیکھ عزت سے چلا جا۔ اور میرا وقت نہ ضائع کر۔ ویسے بھی ظہر ہونے والی ہے۔ میں نے جماعت بھی پکڑنی ہے۔ “


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments