اس شہر میں بھی فرشتوں پر نیت خراب ہوتی ہے


مقدس صحیفوں میں لکھا ہے کہ فسق و فجور میں مبتلا ایک شہر میں ایک پیغمبر رہتے تھے۔ پیغمبر کے پاس انسانی روپ میں چند فرشتے آئے تو شہر کے بدکار لوگوں کی نیت ان پر خراب ہوئی۔ پیغمبر نے لاکھ منع کیا اور بدکاروں کو توبہ کے لئے کہا مگر ان کی نیت خراب ہی رہی۔ نتیجہ یہ کہ شہر پر قہر الہی آگ کی صورت برسا اور وہ نابود ہوا۔ اب آخری پیغمبر کو رخصت ہوئے کوئی ڈیڑھ ہزار برس گزر گئے ہیں۔ اب شہروں پر آگ کی صورت عذاب نہیں برستے۔ اب ننھے فرشتوں کو بدکاروں سے بچانے والا کوئی نہیں ہے۔ اب ہمارے اس شہر میں بھی فرشتوں پر نیت خراب ہوتی ہے۔

زینب کو زیادتی کے بعد قتل کیا گیا تو پورا ملک ہل گیا۔ اس سے پہلے اسی شہر قصور میں ایسے ہی قتل کیے جانے والے بچوں کا حکومت نے نوٹس ہی نہیں لیا تھا۔ بس ایک بے گناہ نوجوان کا پولیس مقابلہ کر کے انصاف دفن کر دیا گیا تھا۔ اسلام آباد میں فرشتہ قتل ہوئی تو شور مچا۔ اب نوشہرہ میں سات برس کی فرشتہ صورت حضنور (نام کہیں حوض نور اور عوض نور بھی لکھا ہے) ایسے ہی قتل ہوئی ہے۔ حضنور کی دو تصاویر سوشل میڈیا پر چل رہی ہیں۔ ایک میں وہ قائد کے مجسمے کے سامنے کھڑی ہے اور قائد اسے گویا بے بسی سے تک رہے ہیں۔ دوسری میں وہ شمع جلائے کھڑی ہے۔ جیسے وہ تیار ہوئی ہے اس سے لگتا ہے کہ وہ کسی مہندی کی شمع تھی مگر اب وہی شمع اس کے مزار پر حزن کا نشان بنی ہے۔

ہر مہینے کسی بچے یا بچی کے قتل ہونے کی خبر آ جاتی ہے لیکن حکومت اور اپوزیشن اس معاملے کو اتنی سنجیدگی سے بھی نہیں لے رہی ہے جتنی سنجیدگی وہ اپنا بھتہ چند ہزار بڑھانے کی قانون سازی پر دکھاتی ہے۔

یہ سلسلہ تو ختم ہونا نہیں۔ ہمارے مقدس معاشرے میں دن رات بتایا جاتا ہے کہ مغرب میں فحاشی پھیلی ہوئی ہے اور ہمارے ہاں تو یہ حال ہے کہ ”خلاف شرع کبھی شیخ تھوکتا بھی نہیں“۔ مگر زمینی حقیقت بہرحال یہی ہے کہ شیخ ”مگر اندھیرے اجالے میں چوکتا بھی نہیں“۔ جہاں مقدس مساجد میں بھی بچے محفوظ نہیں ہیں وہاں گلی کوچوں میں کہاں سلامت ہوں گے؟

ہماری کلاسیکی شاعری اغلام بازی سے بھری پڑی ہے۔ خود کو نیک قرار دیتے ہوئے بھی معصوم و مجبور بچوں سے جنسی فعل کو مردانگی کی نشانی قرار دیا جاتا ہے۔ اس پر کوئی شرم محسوس نہیں کی جاتی بلکہ گلی کوچوں میں اس پر فخر کیا جاتا ہے۔ اور ساتھ ہی ہم دعویٰ کرتے ہیں کہ بالغوں کو اپنی مرضی سے جنسی زندگی گزارنے کی اجازت دینے والا مغرب برا ہے۔ کیا ادھر بچوں کے تحفظ کے لئے اٹھائے گئے اقدامات ہمیں دکھائی نہیں دیتے؟

اس گمراہ مغرب میں کسی بچے کو کوئی شخص نامناسب انداز میں چھو بھی لے تو ساری زندگی کے لئے اسے پٹہ پہنا کر اس کا نام سیکس آفینڈر رجسٹر میں ڈال دیا جاتا ہے۔ وہ ایسی جگہوں پر کام نہیں کر سکتا جہاں بچوں سے واسطہ پڑے۔ وہ سکولوں کے نزدیک نہیں جا سکتا۔ معاشرہ اسے ایک شیطان سمجھتا ہے۔ حتیٰ کہ اگر وہ جیل میں جائے تو قبیح جرائم میں سزا یافتہ قیدی بھی اسے اسفل السافلین سمجھتے ہیں اور جیل میں اس کا ریپ کرتے ہیں کہ سرکار نے اسے پوری سزا نہیں دی۔

ان کا ”بدکار“ معاشرہ تو ایسے اپنے بچوں کا تحفظ کرتا ہے۔ ہمارا پاک پوتر معاشرہ کیا کرتا ہے؟ کیا بچوں کے تحفظ کے لئے کوئی ادارہ سرگرم انداز میں سکولوں اور مدرسوں کی نگرانی کر رہا ہے؟ کیا بچوں کے خلاف جنسی جرائم میں ملوث لوگوں کا کوئی ٹریک رکھا جا رہا ہے؟ کیا کوئی ہیلپ لائن قائم کی گئی ہے جہاں بچے اپنی شکایت درج کروا سکیں؟ کیا ظلم کا شکار ہونے والے بچوں کے نفسیاتی علاج کے لئے کوئی منصوبہ بنایا گیا ہے؟ حتیٰ کہ کیا پولیس بھی بچے کی گمشدگی کی رپورٹ ملتے ہی اسے اہم ترین معاملہ قرار دیتی ہے؟

جنوری 2018 میں زینب کے قتل کے دو برس بعد زینب الرٹ بل کے نام سے ایک قانون قومی اسمبلی نے پاس کیا ہے۔ یہ آٹھ مہینے سے زیادہ اسمبلی میں پڑا رہا تھا اور اب غالباً دو ڈھائی سال سینیٹ میں پڑا رہے گا۔ اس قانون کے تحت گمشدہ بچوں کی ایک ڈیٹا بیس قائم کی جائے گی۔ تھانے میں بچے کی گمشدگی کی رپورٹ موصول ہوتے ہی دو گھنٹے کے اندر اندر تھانے نے ”زینب الرٹ، ریسپانس اینڈ ریکوری ایجنسی“ کو مطلع کرنا ہے جو الرٹ کو ”پورے شہر“ میں پھیلا دے گی۔ جی آپ نے درست پڑھا۔ پنجاب کے شہر قصور کی بچی زینب کے نام پر بنایا جانے والا یہ قانون صرف اسلام آباد کے بچوں کی معمولی سی خیر خبر رکھے گا اور مجرموں کا کوئی حساب درج نہیں ہو گا۔

عملی طور پر ان تمام سوالات کا جواب نفی میں ہے۔ حقیقت یہی ہے کہ ہمارے لئے بچے اہم نہیں ہیں۔ ہم انہیں پیدا کرتے ہی ان کی طرف سے بے فکر ہو جاتے ہیں۔ انہیں اکیلے گلی محلوں میں کھیلنے کے لئے چھوڑ دیتے ہیں۔ یہ سوچ کر کہ ہمیں ثواب ملے گا، انہیں کسی انجان مولوی کے حوالے کر دیتے ہیں یا خود کو غریب پا کر انہیں چار پانچ برس کی عمر میں کسی مدرسے میں بھرتی کروا کر بھول جاتے ہیں۔ وہ وہاں ظلم کا شکار ہو اور بھاگ کر واپس آئے تو اسے مار پیٹ کر واپس لے جاتے ہیں۔

غربت کے نام پر ہی ہم ننھے بچوں کو کوئی فن سکھانے کے نام پر کسی ”استاد“ کے حوالے کر دیتے ہیں اور ادھر اس کے ساتھ جو کچھ بھی ہو اس کی طرف سے آنکھیں بند کر لیتے ہیں۔ اس معاملے پر اعداد و شمار جمع کرنے والے اداروں کے مطابق ہمارے بچے سب سے زیادہ غیر محفوظ اپنے گھروں میں ہیں اور مجرم عموماً کوئی قریبی عزیز یا جاننے والا ہوتا ہے۔

معاشرے میں جنسی گھٹن بڑھتی جا رہی ہے۔ اب ایسی خبریں تواتر سے آنے لگی ہیں اور ہماری حکومت اور معاشرہ آنکھیں بند کیے ہوئے ہے۔ ہمیں اپنے بچوں سے محبت ہے تو ہمیں اپنے حکمرانوں سے ویسے ہی جواب طلب کرنا ہو گا جیسے زینب کے معاملے میں کیا تھا۔ مگر ہمیں ایک مجرم کو سزا دلوا کر مطمئن ہونے کی غلطی نہیں کرنی چاہیے، ہمیں باقاعدہ سسٹم بنانے کی مہم چلانی چاہیے تاکہ تمام بچے محفوظ رہیں۔ اس سلسلے میں مغرب کے قوانین اپنانے لازم ہیں۔

اور ہاں، یاد رہے کہ ایسے بیشتر مجرم وہ ہوتے ہیں جن کے اپنے ساتھ بچپن میں یہ ظلم ہوتا ہے۔ پولیس ذرائع کے مطابق زینب کے مجرم عمران کا کہنا تھا کہ وہ شاید چھ سال کا تھا کہ جب اس کی والدہ کی طرف سے ایک قریبی خاندانی عزیز نے اس کے ساتھ زیادتی کی۔ عمران علی سے تفتیش میں یہ پتہ چلا کہ خود وہ بھی بچپن سے جوانی تک کئی بار درجنوں افراد کی ہوس کا نشانہ بنتا رہا۔ جو بچے آج اس ظلم کا نشانہ بن رہے ہیں کل وہ آپ کے بچوں کے ساتھ یہ ظلم کریں گے، انہیں ریپ کریں گے، ان کا قتل کریں گے اور لاش گلنے سڑنے کے لئے چھوڑ دیں گے۔ آپ نے اپنے بچوں کو بچانا ہے تو انہیں بچائیں۔

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments