مسئلہ مہنگائی نہیں قلت ہے


آپ کو یاد ہوگا کہ جب 2008 ء میں پیپلز پارٹی بر سراقتدار آئی تو اس وقت ملک کو توانائی کے بحران کا سامنا تھا۔ بجلی اور گیس کی شدید قلت تھی۔ موسم گرما میں بجلی کی لوڈشیڈنگ شروع ہو جاتی تھی جبکہ سردی میں گیس کی لوڈشیڈنگ معمول تھی۔ گرمیوں میں شہری اور دیہی علاقوں میں بجلی کی لو ڈشیڈنگ کا دورانیہ تقریبا برابر تھا، بس ایک دو گھنٹے کافرق تھا۔ شہروں میں بارہ گھنٹے بجلی غائب ہوتی تھی جبکہ دیہی علاقوں میں دورانیہ چودہ گھنٹے تھا بعض اوقات سولہ گھنٹے لوڈ شیڈنگ بھی کی جاتی تھی جبکہ سابق فاٹا میں ہفتوں بجلی بند رہتی تھی۔

موسم گرما میں بجلی کی لوڈشیڈنگ کی وجہ سے ملک کے مختلف علاقوں میں عوامی احتجاج بھی روزانہ کا معمول تھا۔ عوامی غیض و غضب کا نشانہ سرکاری اور نجی املاک بنتے تھے۔ سرما میں گیس کی بندش کی وجہ سے عوام پریشان ہوتے۔ پیپلز پارٹی کی حکومت نے پانچ سال میں توانائی کے بحران پر قابوپانے کے لئے کوئی سنجیدہ قدم نہیں اٹھا یا۔ حزب اختلاف کی سب سے بڑی جماعت مسلم لیگ (ن) نے توانائی بحران کے خاتمے کو انتخابی نعرہ بنایا۔

2013 ء میں میاں نواز شریف جب وزیر اعظم منتخب ہو ئے تو انھوں نے اس بحران کے حل کے لئے بھر پور کوشش کی۔ آخر کار وہ ملک میں بجلی اور گیس کی لوڈشیڈنگ پر بہت حد تک قابو پانے میں کامیاب بھی ہوئے۔ گزشتہ چاریا پانچ مہینوں سے وزیر اعظم عمران خان کی حکومت ماہانہ بنیادوں پر بجلی کی نر خوں میں اضا فہ کر رہی ہے۔ فیول پرائس ایڈجسمنٹ اور فاضل ٹیکس کی مد میں ماہانہ اربوں روپے ناجائز اور غیر قانونی طریقوں سے عوام سے بٹورے جارہے ہیں۔

اگر کسی کا بجلی کابل پانچ سو روپے ہے تو اسی بل پر ان کو فیول پرائس ایڈجسمنٹ اور فاضل ٹیکس کی مد میں اصل قیمت سے زیادہ ٹیکس کی ادائیگی کرنا پڑ رہی ہے۔ اگر چہ اصل قیمت پانچ سو روپے کے ساتھ غریب آدمی کو اضافی چھ سو روپے بھی دینے پڑ رہے ہیں لیکن پھر بھی لوگ بجلی کے بل جمع کر رہے ہیں۔ کیوں؟ اس لئے کہ لوگوں کو بجلی مل رہی ہے۔ پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں لوگ بل ادا کررہے ہوتے تھے لیکن بجلی ان کو مل نہیں رہی تھی، اس لئے عوام سڑکوں پر احتجاج کرنے پر مجبور تھے، جبکہ موجودہ حکومت میں عوام ظالمانہ ٹیکس کے باوجود بجلی کے بل جمع کر رہے ہیں اس لئے کہ ان کو بجلی مل رہی ہے۔

اسی طرح پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں عوام سردیوں میں گیس کی لو ڈشیڈنگ کے خلاف سراپا احتجاج ہوتے تھے۔ میاں نواز شریف اور ان کی حکومت نے اس مسئلے کو بھی کسی حد تک حل کردیاتھا۔ اقتدار میں آنے کے بعد وزیر اعظم عمران خان نے گیس کی قیمتوں میں کئی مرتبہ اضافہ کیا۔ جس کا بل گزشتہ حکومت میں چار سو روپے تھا وہ اب چھ یا سات سو روپے بل ادا کر رہا ہے۔ گیس کی قیمتوں میں اضافے سے اگر چہ عوام وزیر اعظم عمران خان اور ان کی حکومت سے نا راض ضرور ہے لیکن پھر بھی وہ بل جمع کر رہے ہیں۔

کیوں؟ اس لئے کہ زیادہ تر صارفین کو گیس مل رہی ہے۔ اگر سردیوں کے دو مہینوں میں لوڈ شیڈنگ کی بھی جاتی ہے لیکن باقی دس مہینے ان کو گیس فراہم کی جاتی ہے اس لئے وہ بل باقاعدگی کے ساتھ جمع کر رہے ہیں۔ بجلی اور گیس کی قیمتوں میں ظالمانہ اضافے کے باوجود کنکشن لگانے میں کوئی کمی نہیں ہوئی ہے۔ کیوں؟ اس لئے کہ عوام کو یقین ہے کہ یہی دونوں ایندھن اب ملک میں دستیاب ہے۔ اسی وجہ سے وہ بے پنانہ اضافے اور ظالمانہ ٹیکسوں کے باوجود بل بھی باقاعدگی کے ساتھ ادا کر رہے ہیں۔

اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ مہنگائی نے عوام کی کمر توڑ دی ہے۔ لیکن اگر کوئی چیز مہنگی ہے، مگر اس کی قلت نہیں تو عوام پھر بھی اس کو خریدتے ہیں۔ وزیر اعظم عمران خان نے جب سے اقتدار سنبھالا ہے۔ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں ماہانہ اضافہ کیا جا رہا ہے لیکن پھر بھی قوم گاڑیوں میں پیٹرول ڈال رہی ہے۔ کیوں؟ اس لئے کہ پیٹرول کی قلت نہیں ہے۔

گزشتہ چند مہینوں سے سبزیوں کی قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے۔ اب بھی سبزیوں کے نرخ بہت زیادہ ہیں۔ مہینہ قبل ٹماٹر کے دام بڑھے ضرور تھے۔ چونکہ قلت نہیں تھی اس لئے لوگ مہنگائی کے باوجود خرید رہے تھے۔ اب چونکہ گزشتہ چند دنوں سے ملک بھر میں آٹے کی قیمتیں بڑھی ہیں۔ عوام کی چیخیں اقتدار کی ایوانوں تک اس لئے پہنچ گئی ہے کہ مہنگے داموں بھی آٹا مل نہیں رہا۔ عوام مہنگا ہونے کے باوجود خریدنا چاہتے ہیں لیکن آٹا مارکیٹ میں مو جود نہیں۔

اس لئے آٹے کی قلت نے وزیر اعظم عمران خان سمیت چاروں صوبوں کے وزرائے اعلی کو پریشان کر دیا ہے۔ اگر بجلی، گیس، پیٹرولیم مصنوعات اور سبزیوں کی طرح آٹے کی قیمتیں بڑھ جاتی لیکن مارکیٹ میں دستیاب ہوتا تو لوگ ضرور حکمرانوں پر لعن طعن کرتے لیکن مہنگا ہونے کے باوجود خرید بھی لیتے۔ اب بھی حکومت کو آٹے کی قیمتوں نے نہیں بلکہ قلت نے حواس باختہ کر دیا ہے۔ اگر مہنگائی سے حکمران پریشان ہوتے تو وہ ہر مہینے بجلی اور پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ نہ کرتے۔

اگر مہنگائی حکمرانوں کا درد سر ہوتا تو گزشتہ دو مہینوں سے سبزیوں اور اشیاء خورد ونوش کی قیمتوں میں جو اضافہ ہوا ہے وہ اس پر قابو پانے کی کوشش کرتے۔ حکمران مہنگائی سے پریشان کیوں نہیں؟ اس لئے کہ ان کو یقین ہے کہ عوام مہنگائی کے باوجود قوت خرید رکھتی ہے۔ ان کو اس بات پر بھی کامل یقین ہے کہ اس وقت کوئی بھی ان کے خلاف احتجاج کے قابل نہیں۔ جب بھی عوام کی قوت خرید جواب دے گی اور حکومت کو یقین ہو جائے گا کہ اب کوئی ہے جو ان کے خلاف سڑکوں پر نکل سکتا ہے تب جاکر مہنگائی ان کو پریشان کر سکتی ہے۔

لیکن معلوم ایسے ہو رہا ہے کہ عوام کی قوت خرید میں کمی نہیں آئے گی اور نہ ہی کوئی مہنگائی اور بنیادی اشیائے ضروریہ کی قلت کے خلاف وزیر اعظم عمران خان کے خلاف احتجاج کے لئے تیار ہے۔ اس لئے حزب اختلاف کی ہر سیاسی جماعت کے سربراہان اور لکھاری صرف پیشن گوئیاں ہی کرتے رہیں گے کہ آج نہیں تو کل، کل نہیں تو پر سوں وزیر اعظم عمران خان جانے والے ہیں، مگر و ہ سابق صدر آصف علی زرداری کی طرح جاتے جاتے اپنی آئینی مدت پورا کر دیں گے۔ اس لئے کہ صرف مہنگائی حکمرانوں کا کچھ نہیں بگاڑ سکتی جب تک قلت نہ ہو اور ان کو کسی کی طرف سے سڑکوں پر گرم احتجاج کا ڈر نہ ہو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments