داراشکوہ: شاہجہاں کا لاڈلا مفکر، شاعر اور صوفی ولی عہد


سر قلم کیا گیا

اس کے ایک دن بعد اورنگزیب کی عدالت میں فیصلہ ہوا کہ دارا شکوہ کو سزائے موت دی جائے۔ ان پر توہینِ اسلام کا الزام عائد کیا گیا تھا۔ اورنگزیب نے 4000 گھڑ سواروں کو دہلی سے باہر جانے کا حکم دیا اور جان بوجھ کر یہ افواہیں پھیلائیں کہ دارا کو گوالیار کی ایک جیل میں لے جایا جا رہا ہے۔

اسی شام اورنگزیب نے نذر بیگ کو بلایا اور کہا کہ وہ دارا شکوہ کا کٹا ہوا سر دیکھنا چاہتا ہے۔

ایوک چند نے وضاحت کرتے ہوئے کہا ’نذر بیگ اور اس کے ملازم، مقبول ، محرم ، اور فتح بہادر خنجر لے کر خضرآباد کے محل میں گئے جہاں دارا اور اس کا بیٹا کھانے کے لیے اپنے ہاتھوں سے دال بنا رہے تھے ، کیونکہ انہیں خدشہ تھا کہ ان کے کھانے میں زہر بھی ملایا جا سکتا ہے۔

’بیگ نے اعلان کیا کہ وہ دارا کے بیٹے کو لینے آیا ہے۔ سپہر رونے لگا اور دارا نے اپنے بیٹے کو سینے سے لگا لیا مگر نذر بیگ اور اس کے ساتھی زبردستی سپہر کو دوسرے دوسرے کمرے میں لے گئے۔

دارا کو اندازہ ہو چکا تھا کہ نذر بیگ کی آمد کا مقصد کیا ہے۔ ایوک چند کے مطابق ‘دارا نے پہلے ہی اپنے تکیے میں ایک چھوٹی چھری چھپا رکھی تھی۔ انھوں نے چاقو نکال کر نذر بیگ کے ایک ساتھی پر بھرپور وار کیا لیکن ان لوگوں نے دارا کے دونوں ہاتھ پکڑ لیے اور گھٹنوں کے بل بیٹھا کر ان کا سر زمین پر رکھا ساتھ ہی نذر بیگ نے اپنی تلوار سے دارا کے سر کو دھڑ سے جدا کر دیا۔‘

اورنگزیب کے سامنے دارا شکوہ کا سر پیش کیا گیا

جب دارا شکوہ کا سر اورنگزیب کے سامنے لایا گیا تو اس وقت وہ اپنے قلعے کے باغ میں بیٹھا ہوا تھا۔ سر دیکھنے کے بعد اورنگزیب نے حکم دیا کہ اسے دھو کر اس کے سامنے ایک سینی میں رکھ کر پیش کیا جائے۔

ایوک چند نے وضاحت کی ہے اس موقع پر مشعلیں اور لالٹینیں لائی گئیں تاکہ اورنگزیب اپنی آنکھوں سے دیکھ سکے کہ یہ سر اس کے بھائی کا ہے۔

اگلے دن یعنی 31 اگست 1659 کو ، اس نے حکم دیا کہ دارا کے سر سے جدا ہوا دھڑ ہاتھی پر رکھ دیا جائے اور ایک بار پھراسے دہلی کے انھی راستوں پر گھمایا جائے جہاں دارا کو زندہ گھمایا گیا تھا۔

یہ دلخراش منظر دیکھ کر لوگوں حیران رہ گئے اور عورتیں گھر کے اندر جا کر رونے لگیں۔ دارا کے سر کٹے دھڑ کو ہمایوں کے مقبرے کے صحن میں دفنا دیا گیا۔

اورنگ زیب نے شاہ جہاں کا دل توڑا

اطالوی مورخ نکولا منوچی نے اپنی کتاب اسٹوریہ ڈو موگور میں لکھا ، عالمگیر نے شاہ جہاں کو ایک خط بھیجا جس پر لکھا گیا تھا کہ اورنگزیب ، آپ کا بیٹا تحفے میں آپ کے لیے یہ طشتری بھیجتا ہے جسے دیکھنے کے بعد، آپ اسے کبھی بھی نہیں بھول پائیں گے۔

پھر شاجہاں کے سامنے ایک ڈھکی ہوئی طشتری پیش کی گئی۔ جب شاہ جہاں نے طشتری پر سے کپڑا اٹھایا تو اس کی چیخ نکل گئی کیونکہ اس میں ان کے لاڈلے بیٹے دارا کا کٹا ہوا سر تھا۔

منوچی مزید لکھتے ہیں اس منظر کو دیکھ کر وہاں موجود خواتین نے آہ و زاری اور ماتم شروع کر دیا اور اپنے زیورات نوچ ڈالے۔ اس واقعے کے بعد شاہ جہاں کی طبعیت اتنی بگڑی کہ انھیں وہاں سے منتقل ہونا پڑا۔

دارا کی باقی لاش کو ہمایوں کی قبر میں دفن کیا گیا تھا لیکن اورنگ زیب کے کہنے پر دارا کا سر تاج محل کے صحن میں دفن کر دیا گیا۔

اورنگزیب کا خیال تھا کہ جب بھی شاہجہاں کی نظریں اپنی بیگم کے مقبرے پر پڑیں گی تو ساتھ ہی انھیں یہ خیال بھی آئے کہ ان کے سب سے بڑے بیٹے کا سر بھی وہاں ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32540 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp