داراشکوہ: شاہجہاں کا لاڈلا مفکر، شاعر اور صوفی ولی عہد


فوٹو

شاہجہان کے دربار کی خیالی تصویر

مغلیہ سلطنت کے بارے میں مشہور ہے کہ وہاں ہمیشہ ایک فارسی کہاوت عام ہوا کرتی تھی ‘یا تخت یا تابوت’۔

اگر ہم مغلیہ تاریخ کے صفحات کو پلٹ کر دیکھی تو ہمیں معلوم ہوگا کہ مغل بادشاہ شاہ جہاں نے نہ صرف اپنے دو بھائیوں خسرو اور شہریار کی موت کا حکم دیا تھا ، بلکہ سنہ 1628 میں تخت سنبھالنے کے بعد اپنے دو بھتیجوں اور چچا زاد بھائیوں کو بھی ہلاک کروا دیا تھا۔

یہ روایت شاہ جہاں کے بعد بھی برقرار رہی ان کے بیٹے اورنگزیب نے اپنے اپنے بڑے بھائی داراشکوہ کا سر قلم کروا کر ہندوستان کے تخت پر قبضہ کیا تھا۔

شاہ جہاں کے بڑے بیٹے داراشکوہ کی شخصیت کیسی تھی۔

میں نے یہی سوال حال ہی میں شائع ہونے والی کتاب ‘داراشکوہ ، دی مین ہو ووڈ بی کِنگ’ کے مصنف ، ایوک چندا کے سامنے رکھا۔

اویک کا کہنا تھا داراشکوہ کی شخصیت انتہائی کثیر الجہتی اور پیچیدہ تھی۔ ایک طرف وہ ایک بہت ہی پرجوش انسان، ایک مفکر، باصلاحیت شاعر، سکالر ، ایک اعلی درجے کے صوفی اور فنون لطیفہ کا علم رکھنے والے شہزادے تھے لیکن دوسری طرف انہیں انتظامیہ اور فوجی امور میں کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ وہ فطرتی طور پر نرم مزاج تھا اور لوگوں کی شناخت کے بارے میں ان کی سمجھ بہت محدود تھی۔

شاہ جہاں نے دارالشکوہ کو فوجی کارروائیوں سے دور رکھا

دارا شاہجہاں کو اتنے پیارے تھے کہ وہ اپنے ولی عہد کو فوجی کارروائیوں میں بھیجنے سے ہمیشہ ہچکچاتے رہتے تھے اور انھیں اسے ہمیشہ اپنی آنکھوں کے سامنے اپنے دربار میں رکھا کرتے تھے۔

تاہم شاہ جہاں کو اورنگزیب کو فوجی مہموں پر بھیجنے میں کوئی ہچکچاہٹ نہیں تھی، حالانکہ اس وقت ان کی عمر محض سولہ سال ہی تھی جب اورنگزیب نے جنوب میں ایک بڑی فوجی مہم کی رہنمائی کی تھی۔

اسی طرح مراد بخش کو گجرات بھیجا گیا اور شاہ شجاع کو بنگال کی طرف روانہ کیا گیا لیکن بادشاہ کا سب سے زیادہ پیارا بیٹا دارا دربار میں ہی رہا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ دارا نہ تو جنگ کا سامنا کر رہے تھے اور نہ ہی سیاست کا۔

وہ دارا کو اپنا جانشین بنانے کے لیے اس حد تک تیار تھے کہ ایک خصوصی تقریب کا اہتمام کیا اور انہیں ‘شاہِ بلند اقبال’ کا لقب دیا اور اعلان کیا کہ ان کے بعد وہ ہندوستان کے تخت پر بیٹھیں گے۔

شہزادے کی شکل میں ، دارا کو شاہی خزانے سے ایک سے دو لاکھ روپے کی رقم دی گئی جبکہ انھیں ایک ہزار روپے یومیہ الاؤنس بھی دیا جاتا تھا۔

ہاتھیوں کی لڑائی میں اورنگ زیب کی بہادری

28 مئی 1633 کو ایک بہت ہی ڈرامائی واقعہ رونما ہوا جس کا اثر کئی سالوں بعد ظاہر ہوا۔

شاہ جہان اور انکی بیگم ممتاز

شاہ جہان اور انکی بیگم ممتاز

شاہ جہاں کو ہاتھیوں کی لڑائی دیکھنے کا بہت شوق تھا۔ دو ہاتھیوں سدھاکر اور سورت سندر کے درمیان لڑائی دیکھنے بالکونی سے نیچے آئے۔

جنگ میں سورت سندرہاتھی نے میدان چھوڑ کر بھاگنا شروع کیا اور سدھاکر غصے میں اس کے پیچھے دوڑا۔ تماشا دیکھنے والے لوگ گھبراہٹ میں ادھر ادھر بھاگنے لگے۔

ہاتھی نے اورنگزیب پر حملہ کیا۔ گھوڑے پر سوار 14 سالہ اورنگ زیب نے اپنے گھوڑے کو بھاگنے سے روکا اور جب ہاتھی اس کے قریب آیا تو اس نے اپنا نیزہ اس کے ماتھے پر دے مارا۔

اسی دوران کچھ فوجی بھاگ کر وہاں پہنچ گئے اور شاہ جہاں کے گرد گھیرا بنا دیا۔ ہاتھی کوخوفزدہ کرنے کے لیے پٹاخے چھوڑے گئے تھے ، لیکن ہاتھی نے اپنی سونڈ سے اورنگزیب کا گھوڑا گرا دیا۔

کتاب

دارا شکوہ کی شادی کا منطر

اورنگزیب گرنے سے پہلے ہی اس پر کود پڑا اور ہاتھی سے لڑنے کے لیے اپنی تلوار نکالی۔ تب شہزادے شجاع پیچھے سے آئے اور ہاتھی پر حملہ کیا۔

ہاتھی نے ان کے گھوڑے کو اتنی زور سے مارا کہ شجاع بھی گھوڑے سے نیچے گر گیا۔ تب راجہ جسونت سنگھ اور وہاں موجود بہت سارے شاہی فوجی اپنے گھوڑوں پر وہاں پہنچ گئے۔ چاروں طرف شور مچانے کے بعد ، سدھاکر وہاں سے بھاگ گیا۔ اورنگزیب کو بعد میں شہنشاہ کے سامنے لایا گیا۔ اس نے اپنے بیٹے کو گلے لگا لیا۔

ایوک چندا کہتے ہیں کہ بعد میں ایک جلسہ منعقد کیا گیا جس میں اورنگزیب کو بہادر کا لقب دیا گیا۔ انھیں سونے میں تولا گیا اور یہ سونا انھیں انعام میں ملا تھا۔

اس پورے واقعے کے دوران داراشکوہ وہیں موجود تھے لیکن انھوں نے ہاتھیوں پر قابو پانے کی کوئی کوشش نہیں کی۔

مورخ رعنا صفوی کا کہنا ہے کہ ’دارا جائے وقوع سے کچھ فاصلے پر تھا۔ وہ چاہتا تو بھی فورا وہاں نہیں پہنچ سکتا تھا سو یہ کہنا غلط ہو گا کہ وہ جان بوجھ کر پیچھے رہا جس سے اورنگزیب کو داد سمیٹنے کا موقع ملا۔`

مغل تاریخ کی سب سے مہنگی شادی

نادرہ بانو کے ساتھ دارا شکوہ کی شادی مغل تاریخ کی سب سے مہنگی شادی کہی جاتی ہے۔

پیٹر مینڈی نے جو اس وقت انگلینڈ سے ہندوستان کے دورے پر آئے تھے، اپنے ایک مضمون میں لکھا تھا کہ اس وقت اس شادی پر 32 لاکھ روپے خرچ ہوئے تھے ، جن میں سے 16 لاکھ روپے دارا کی بڑی بہن جہاں آرا بیگم نے دیے تھے۔

ایوک چندا نے وضاحت کرتے ہوئے کہا ‘دارا سب کو پیارے تھے شہنشاہ کے بھی اور اپنی بڑی بہن جہاں آرا کو بھی عزیز تھے۔ اس وقت ان کی والدہ ممتاز محل کا انتقال ہو گیا تھا اور شاہ جہاں اپنی بیگم کی وفات کے بعد پہلی بار کسی تقریب میں شریک ہو رہے تھے۔

’یہ شادی یکم فروری 1633 کو ہوئی تھی اور دعوت آٹھ فروری تک جاری رہی، دن رات آتش بازی جاری رہی۔ کہا جاتا ہے کہ شادی کے دن پہنے گئے دلہن کے جوڑے کی قیمت ہی آٹھ لاکھ روپے تھی۔‘

دارا نے قندھار پر چڑھائی کی

دارا شکوہ کی عوامی شبیہ کمزور سپاہی اور نااہل منتظم کی سی تو تھی لیکن ایسا نہیں ہے کہ انھوں نے کبھی بھی جنگ میں حصہ نہیں لیا۔

قندھار کی مہم میں ، وہ خود ہی اپنی پہل پر لڑنے گئے تھے لیکن انھیں وہاں شکست کا سامنا کرنا پڑا۔

اویک چندا نے وضاحت کرتے ہوئے کہا ‘جب اورنگزیب قندھار سے ناکام ہو کر واپس آیا تو دارا شکوہ نے اپنے آپ کو اس مہم کی قیادت کے لیے پیش کیا اور شاہجہاں اس پر راضی ہو گئے۔

دارا 70 ہزار جوانوں کی فوج لے کر لاہور پہنچ گئے۔ انہوں نے 110 مسلمان اور 58 راجپوت جنگجو تیار کیے۔ اس فوج میں 230 ہاتھی، 6000 زمین کھودنے والے ، 500 بہشتی اور بہت سے جادوگر اور ہر طرح کے مولانا اور سادھو شامل تھے۔

اپنے سپہ سالاروں سے مشورے لینے کے بجائے ، دارا نے ان تانترکوں اور مولویوں سے مشورے کر کے حملے کے دن کا فیصلہ کیا۔ دارا نے ان لوگوں پر بہت زیادہ رقم خرچ کی۔

دوسری طرف افغان فوجیوں نے ایک بہت مضبوط دفاعی منصوبہ بنایا اور ‘کافی عرصے تک محاصرہ کرنے کے بعد بھی دارا کو ناکامی ہوئی اور انھیں خالی ہاتھ دہلی لوٹنا پڑا۔‘

مزید پڑھنے کے لئے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32195 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp