امرتسر سے راکھی جائے پاک پتن میں بھائی کو


نیند کے دوران آنے والے خوابوں پر ہمارا کوئی اختیار نہیں، لیکن جاگتی آنکھوں کے خواب اور خیالات پر تو ہماری مرضی چلتی ہے. ہم جیسے بھی خواب دیکھیں، جو بھی خیالات ذہن میں لائیں، ہمیں کوئی پوچھنے والا نہیں۔ ساحر لدھیانوی صاحب کے دل میں تو یہ خیال آیا تھا کہ ”زندگی تیری زلفوں کی نرم چھاؤں میں گزرنے پاتی توشاداب ہو بھی سکتی تھی“۔ ہمیں اس سے ذرا مختلف خیال آیا ہے. انجام کے اعتبار سے اگر چہ ہم دونوں کے خیالات کا ایک ہی حشر ہوا، نہ ساحرکو زلفوں کی نرم چھاؤں مل سکی اور نہ ہمیں اپنے خیالی پلاؤ کو دم دینے کا موقع ملا۔

ایک بار نہیں کئی بار ہمیں اٹھتے بیٹھتے، لیٹے اور چلتے ہم پر خیالات کی یلغار ہوتی رہتی ہے کہ اگر انڈیا اور پاکستان کے درمیان کشمیر سمیت تمام تنازعات حل ہو جائیں اور ان دونوں ممالک کے درمیان اعتماد کی فضا بحال ہو جائے، ایسی فضا کہ قائدِ اعظم کی خواہش کے مطابق واقعی دونوں ممالک کے درمیان ایسے مثالی تعلقات قائم ہو جائیں جیسے امریکہ اور کینیڈا کے درمیان ہیں تو خطے میں ایک حیران کن دنیا کا ظہور ہو جائے۔

دونوں ممالک کے شہری آزادانہ سیروسیاحت اور تجارتی مقاصد کے لیے اسی طرح ایک دوسرے کے ہاں آ جا سکیں جس طرح یورپ کے اکثر ممالک کے شہری ایک دوسرے کے ملک میں آتے جاتے ہیں۔ بندہ صبح صبح ناشتہ کیے بغیرلاہور سے اپنی بائیک نکالے، واہگہ بارڈر پر رسمی سی چیکنگ کے بعد آدھے گھنٹے بعدامرتسر شہر کے کسی ہوٹل پر ناشتہ کر رہا ہو۔ واہگہ سے آگے امرتسر تک کے 28 کلومیٹر کے سفر کے 30 منٹ ہی تو لگیں گے۔ کار والا تو 15 منٹ میں ہی پہنچ سکتا ہے۔

دوپہر تک شہر کی سیر کریں. امرتسر کے ان باغوں میں بھی جائیں جہاں کا ذکر اے حمید مرحوم بڑے رومانوی انداز میں کرتے تھے۔ دل چاہے تو کسی سینما میں من پسند انڈین فلم پر اپنا رانجھا راضی کر لیں۔ کھانا کھائیں، کسی جگہ سے روایتی سماوار میں تیار شدہ کشمیری قہوہ نوش کریں اور واپسی کی راہ لیں اور سرِشام لاہور پہنچ جائیں۔ اچھے دنوں میں جب لوگ صرف فلم دیکھنے امرتسر سے لاہور سائیکلوں پر آ سکتے ہیں تو آج بائیک پر یہ سفر کیوں نہیں ہو سکتا۔

بائیک کا سفر پسند نہیں، گاڑی بھی آپ کے پاس نہیں تو کوئی پریشانی کی بات نہیں، بادامی باغ کے لاری اڈے سے لاہور امرتسر بس سروس کی کسی آرام دہ بس میں بیٹھ جائیں۔ موسیقی سے لطف اندوز ہوں، نہیں تو تسبیح گھماتے جائیں، آپ کو پتہ بھی نہیں چلے گا اور 52 کلومیٹر کا سفر طے کر کے بس ایک گھنٹے بعد امرتسر کے بس اڈے پر کھڑی ہوگی۔ م میں تو امرتسر کے سفر سے پہلے سیدھا قصور جاؤں گا۔ قصور امرتسر والی ٹرین میں بیٹھوں گا اور راستے میں قصور شہر سے صرف 29 کلومیٹر ( 18 میل) دور اپنے والد صاحب کی جنم بھومی گھڑیالہ اتر جاؤں گا۔

اس گھڑیالہ میں جہاں میرے والد صاحب پیدا ہوئے، آٹھویں تک وہیں تعلیم پائی، ان گلیوں میں کھیلے کودے اور پھر ایک دن اچانک اپنے بھرے بھرائے گھر چھوڑ کر اپنے بڑوں کے ساتھ ٹرین میں بیٹھ کر قصور شہر میں آگئے۔ وہ زندگی بھر گھڑیالہ کو یاد کرتے رہے لیکن 29 کلومیٹر کا یہ مختصر سا سفر ان کے لیے ہمیشہ 2900 کلومیٹر کا سفر بنا رہا، وہ گھڑیالہ کو ایک بار پھر دیکھنے کی خواہش دل میں ہی لیے اس دنیا سے چلے گئے۔ وہاں پہنچ کر ظاہر ہے میں نے اپنے آبائی گھر دیکھنا تھا، ابا جی کا سکول دیکھنا تھا جہاں وہ مڈل کلاسز تک پڑھتے رہے تھے، چراغ دین کی اس ”ہٹی“ کوتلاش کرنا تھا جہاں ابا جی اپنے ابا جی سے پیسے لے کر کھانے کی چیزیں لے کر آتے تھے۔ ابا جی کے کسی بچے کھچے دوست سے ملنے کی کوشش بھی کرنی تھی۔ اگر قبروں کے کوئی نشان باقی ہوتے تو اپنے دادا جی اور دادی جی کی قبروں پر فاتحہ بھی پڑھنی تھی۔ قصور کے فالودے اور وہاں کی مشہور میتھی پر بھی تو شام کو گھڑیالہ سے واپسی پر ہاتھ صاف کیے جا سکتے ہیں۔

یہ سفر صرف امرتسر یا گھڑیالہ تک محدود نہیں رہنا تھا، دلّی والوں نے دلّی، فیروز پپور والوں نے فیروز پور، حصار والوں نے حصار تک اورر پتہ نہیں یہ سلسلہ کہاں سے شروع ہونا تھا اور کہاں ختم ہونا تھا۔ ہجرت کا دکھ سہنے والے صرف اِدھر پاکستان ہی نہیں آئے، اُدھر ہندوستان میں بھی گئے تھے۔ ان کے گھر، ان کی یادیں، ان کی سمادھیاں، اُن کے شمشان گھاٹ بھی اِدھر رہ گئے تھے۔ ان لوگوں نے بھی اپنے سینوں کو ٹھنڈ ڈالنے کے لیے ادھر آنا تھا۔

پتہ نہیں کتنے لوگ صرف لاہور کی یاد میں آآہیں بھرتے اس سنسار کو چھوڑ چکے ہیں اور کچھ ابھی بھی باقی ہیں۔ جناب مستنصر تارڑ کے بقول دہلی میں ایک ایسا کلب ہے جہاں لاہور سے ہجرت کر کے جانے والے ہندو اور سکھ شام کو اکٹھے ہوتے ہیں اور لاہور کی باتیں کر کے اپنی پرانی یادوں کو تازہ کرتے ہیں۔ تجارت تو ایک طرف رہی اگر میرے یہ خیالات کبھی عملی جامہ پہن لیں تو دونوں ممالک صرف دو طرفہ سیاحت سے اتنا کچھ حاصل کر لیں کہ ہر طرف خوشحالی کا سبزہ بہار کا منظر پیش کرے۔ جب تناؤ کی تمام کیفیتیں دم توڑ جائیں گی تو تلواریں اپنی اپنی نیاموں میں چلی جائیں گی اور بارود پر اٹھنے والے اخراجات کا رخ اپنے آپ ہی باغ و بہار کی طرف مڑ جائے گا۔

ساحر لدھیانوی صاحب ”کبھی کبھی“ والی اپنی اس شہرہ آفاق نظم میں بالآخر یہ کہنے پر مجبور ہوئے : ”مگر یہ ہو نہ سکا اور اب یہ عالم ہے کہ تو نہیں تیرا غم، تیری جستجو بھی نہیں“۔ اِدھر ہمارے خیالات کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی سانحہ ہوگیا۔ ان خیالات کے ساتھ کبھی ایسا حادثہ پیش نہ آتا۔ یہ خیالات ضرور حقیقت کا روپ دھارتے لیکن مسئلہ یہ ہوا کہ دنیا میں جو ممالک مہلک اور خوفناک اسلحہ بناتے ہیں ان کے کارخانے بند ہو جانے تھے، ان کا دیوالیہ نکل جانا تھا، ان ممالک کی معیشتوں کو ٹھیک ٹھاک دھچکا لگنا تھا، سیاچن کے برفیلے محاذ پر خاص قسم کا لباس، خیمے اور اسلحہ بنانے والی کمپنیاں اپنے کاروبار بند کر کے کہاں جاتیں، کون سا نیا کاروبار کرتیں، کون سا نیا ہنر سیکھتیں۔ ان کی معیشت اور مفادات کے جسدِ خاکی میں خون کی بلا روک ٹوک روانی کے لیے ضروری ہے کہ یہاں خون بہتا رہے۔ تلواریں بے نیام ہی رہیں۔ تلواروں کے ٹکرانے سے جو جلترنگ ہو گا، وہی ان کے لیے مدھر موسیقی ہے جو ان کے لیے راحت کا سامان ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments