چھ کے بعد چار نمبر سیاست


ظلم وتعدی کا سماں ہے، قفل سازی کا بازار گرم ہے۔ زخمی بدن، درد سہتے سہتے خویافتہ ہوئیں۔ زباں کو نافذالعمل رکھنے میں ہی عافیت سمجھی جاتی ہے جبکہ عیاش کوش طبقہ قاصر الہمت بھی ہوا ہے۔ آئے روز حاجت روا کی چیخ پکار، دم بدم حالت زار کی فریادوں سے شاید نالاں ہونے کا سمے آپہنچا ہے۔ لمحہء رواں میں تو یوں لگتا ہے کہ دید شنید کا زمانہ نہیں رہا۔ بنی آدم محبت کی تعلیم میں تو قاصر البیان ہونے کے ساتھ ساتھ قاصر الید بھی ہوچکی ہیں۔

بنیادی حقوق کا بول بالا نہ ہوا، آئین کو جو مقامِ تقدس دِلانا تھا محض بیانیہ رہی۔ کم آبادی والے صوبوں کو جس جاں گسل حالات کی طرف پوش کرنی کی جتن ہوئی یا ہورہی ہے وہ تو بالکل صریح ہیں۔ تہی دستی اور افتادگی کے اس عالم میں مقتدر حلقوں کی ذہنیت یہ بنی ہوئی ہے کہ یہ عوام زمانہء حال کے پولیٹیکل سیٹ اَپ اور Securitization کی اس نیچر سے عارف نہیں۔ نہیں جناب، کج فہمی کی بھی کوئی حد ہوتی ہے۔ یہ لوگ چار نمبر گیٹ اور چھ نمبرتبلیغات سے خوب واقف ہیں۔

البتہ اَب یہ نا آزمودہ کاری کام نہیں آنے والی ہے۔ سوال تو یہ ہے کہ یہ جو ہلکی پھلکی سویلین سپریمسی اور Constitutionalism کی چیخ وپکار تھی اِک بارگی سے اس کو زک کیسے پہنچی؟ یہ بزور شمشیر کام کرانے والے تو ستر سالہ دور میں 36 سال فرنٹ لائن اور باقی ماندہ دور میں سکرپٹ لکھتے تھے لیکن یہ بڑے صوبے سے اُٹھنے والی آواز ایک دم کیوں کولیپس کر گئی؟ فیض احمد فیض کے اشعار جس سے مجھے ڈھارس ملتی ہے۔

ہم پرورش لوح و قلم کرتے رہیں گے

جو دل پہ گزرتی ہے رقم کرتے رہیں گے

کالی پٹیاں باندھنے کی سرگزشت گزر چکی ہے، یوم سیاہ، کمزور ناتواں اور بے وسیلہ لوگ منایا کرتے ہیں اور ویسے بھی دستگیری سہایک اور ممد حکمران کے سامنے ہی کارآمد عمل ہے۔ دوہری پالیسی، گمراہ کن میکنزم کی وجہ سے ساری دنیا میں ملک کی انگشت نمائی ہوئی (ہورہی ہے ) ۔ جواب الجواب کے لئے کوئی منطق آمیز دلیل ہی نہیں۔ ارباب اختیار کے سامنے شکشا جیسی کسی چیز کا فکر نہیں، کمزور بے بس، بے تھکان قوموں پر تو کب کی یہ نرک آپہنچی ہے۔

پشتون ملک کے ہر کونے میں، لمحہ بہ لمحہ، مختلف اوقات میں، طرح طرح کے ستم راں کے کڑی گھڑی کے نظر ہوئے، بے حسی اور تلاطم کی یہ تاریخ لمبی ہے۔ جس اوگھٹ گھاٹی پر پشتون نے بحیثیت قوم انسانیت کے لئے جو سفر کیا، شاید دنیا میں کسی نے نہیں کیا ہوگی۔ بلوچ بھی مقتدر کی اس حکمت عملی سے دور نہیں، تن مردہ اٹھاتے اٹھاتے اس کے کندھے مضمحل ہوئے۔ ہزارہ بھی کوئٹہ میں گزشتہ دو دہائیوں سے اس ناروا پالیسی کے نظر ہوئے، ان کے حالات بھی فاٹا کے عوام سے کچھ مختلف نہیں۔

اب بس دیکھنا یہ باقی ہے کہ صوبہ پنجاب کے مصلحت پسندانہ نظریات کی لیڈرشپ ستر سالہ دوغلاپن سے نکلے گی کہ نہیں۔ وہاں کے عوام جو جمہور کی بالادستی کے بانگ بلند کرنے کے دعوے دار ہیں اب اُٹھ کے اپنے کمپرومائیز ماہرین کے خلاف کھڑے ہوں گے یا وہ بھی اس بہتے دریاوں کی نظر ہو جائیں گے۔ البتہ تاریخ میں اور آج بھی، یہ انہی جابرانہ طبقے کے صف اول کے سپاہی رہے ہیں۔ فیض صاحب مزید فرماتے ہے۔

اب کے برس دستور ستم میں کیا کیا باب ایزاد ہوئے

جو قاتل تھے مقتول ہوئے جو صید تھے اب صیاد ہوئے

پہلے بھی خزاں میں باغ اجڑے پر یوں نہیں جیسے اب کے برس

سارے بوٹے پتہ پتہ روش روش برباد ہوئے

مہینے پہلے سپریم کورٹ کے فیصلے سے ایک اچھی موقع ملی تھی کہ توسیع کے معاملے پر قوانین بنایا جائیں۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ یہ مراسم ہی جڑ سے اکھاڑ دیں تاکہ کل کسی بھی محکمے میں کوئی ایکسٹینشن کے لئے سر نہ اُٹھائے۔ ایک طرف سے تو حکومت ہی پر انسٹال ریجیم کی سوالات اُٹھ رہے تھے، تو دوسری طرف سے وہی اپوزیشن بھی اس کشتی کے سواری بنے بیٹھے۔ ہمیں صرف جناب محمود خان اَچکزئی صاحب اور حاصل بزنجو صاحب کی پارٹیاں ہی کام آئی، جماعت اسلامی اَب چونکہ ”اُن“ کو چھوٹی پارٹی لگی کیونکہ بڑی پارٹیوں (ن لیگ اور پیپلز پارٹی) نے جان نچھاور کرنی کی آفر دے دی ورنہ جماعت اسلامی سے تو رشتے پرانے ہیں۔

قانون جس پھرتی سے پاس ہوا، جھپاک جھپاک شمار کے چند حضرات نے تقاریر فرمائی، ”نو“ والی آواز تو سینیٹ سیشن میں میوٹ ہی ہوئی تھی۔ سوال تو یہ ہے کہ جب قانون ہی نہیں تھا (کورٹ فیصلے کے مطابق) پھر جنرل کیانی کو توسیع کیسے ملی؟ کورٹ نے موجودہ چیف کو چھ مہینے کی مہلت کس قانون کی رو سے دی؟ ہم تو یہ نقوش سرے سے ختم کرنے کی اُمید لگائے بیھٹے تھے مگر ایسے کچھ نہ ہوا۔ اَب اختیار بدست مختیار، جو چاہے پہلے سے بھی آسانی سے کرتے رہیں گے۔

De۔ jure حکمران بلاناغہ کانفرنسیں فرماتارہے گا، قوم کو تہنیت کے پیغامات موصول ہوں گے اَب علاقائی اور بین الاقوامی صورتحال سے گھبرانا نہیں۔ اَب تو پارلیمانی َروش (بلاول کے مطابق) کو اپناتے ہوئے قوانین بنیں گے وہ بھی چند منٹ میں لپیٹ سپیٹ کر۔ اس وقت تینوں بڑی پارٹیوں کو ایک ساتھ دیکھ کر اتنی خوشی ہوئی کہ فرط جذبات سے آنسو نکل آئے کیونکہ مستقبل قریب میں تو ایک دوسرے کی انگشت نمائی کرنے سے باز رہیں گے۔ ایکجہتی کے نام پر گانے ریلیز کرتے رہیں گے۔ تینوں پارٹیاں محکمے سمیت سب ہی کامیاب ہوں گے پسپائی کسی کا مقدر نہیں بلکہ یہ عوام اور جمہور کی کٹھالی میں آئیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments