امید زندگی


فارسی کی ضرب مثل ہے عقلمند را اشارہ کافی است۔ وزیر اعظم پاکستان محترم عمران خان صاحب نے بھی اپنی قوم کو انقلابی اشارہ دیتے ہوئے فرمایا کہ سکون تو صرف قبر میں ہے۔ بس قوم کو سمجھ لینا چاہیے کیوں کہ بات عام آدمی کی نہیں بلکہ وزیر اعظم کی ہے۔ وزیر اعظم ہر چہ گوید دیدہ گوید (وزیر اعظم جو بات بھی کہتا ہے آنکھوں دیکھی کہتا ہے ) کیوں کہ وہ خود اپنے گھریلوبجٹ سے پریشان ہیں مگر پرعزم بھی ہیں اور عوام کو دلاسا بھی دیا کہ رسید مژدہ کہ

ایامِ غم نخواھد ماند (خوش خبری پہنچی ہے کہ غم کے دن باقی نہیں رہیں گے)۔

چنان نماند و چنین نیز ہم نخواھد ماند (ویسا نہیں رہا تو ایسا بھی نہیں رہے گا )

ویسے پنجابی کی حالات کے تناظر میں ضرب مثل بھی ملاحظہ فرمائیں کہ رئے دن اہوی نئیں تے جانے اے وی نئیں (اگر دن وہ بھی نہیں رہے تو جانے یہ بھی نہیں ) بہر حال امید پر دنیا قائم ہے۔ یقین جانیے باتوں کی حد تک تو سب بہتر ہوتا ہے۔ جب پریکٹیکلی کیا جائے تو بہت مختلف ہوتا ہے۔ چند دن پہلے محترمہ شیریں مزاری صاحبہ نے قابل تحسین کام کیا جو انہوں نے عدالت میں قیدیوں کے حوالے سے رپورٹ چیف جسٹس ہائی کورٹ اسلام آباد کی خدمت میں پیش کی۔

جس میں پیش کردہ پوائنٹس کو پڑھ کر بندہ اپنے دکھ بھول جاتا ہے۔ ان کے مطابق بلوچستان میں پچپن فیصد، خیبرپختونخواہ میں ستّتر فیصد، پنجاب میں ساٹھ فیصد، اور سندھ میں ستّر فیصد ملزموں کے کیسززیر التوا ہیں۔ جو کہ قید کی صعوبت اٹھا رہے ہیں۔ جو کہ بہت بڑا ایشو ہے۔ اگر کوئی انسان جیل جاتا ہے تو اس کا وقار مجروح ہوتا ہے۔ ہمارے رول میں زیر حراست افراد کو کوئی حقوق حاصل نہیں۔ جیل میں قید افراد کو اپنے حقوق کا نہیں پتہ۔

جیل میں ہر فرد کو ان کے بنیادی حقوق دینا بہت ضروری ہیں۔ جیل میں ان کے حقوق کے بورڈ نصب ہوں تا کہ ان کو اپنے حقوق سے آگاہی حاصل ہو۔ ان کو پتہ چلے ان کے حقوق کیا ہیں۔ جیل میں بیمار قیدیوں کا کوئی حال نہیں، ان میں کیٹگری بنائی جائے جو زیادہ بیمار ہیں ان کو زیادہ سہولیات دی جائیں۔ ان کے لیے علیحدہ کھانے اور رہائیش کا انتظام کیا جائے۔ بیمار افراد کے لیے علیحدہ ٹوائیلٹ تک کی سہولت میسر نہیں۔ یہ بنیادی چیزیں ہیں جو میّسر آنی چاہئیں۔

جن قیدیوں کے کیس ابھی انڈر پراسز ہیں ان میں سے بہت سے لوگ ایسے ہیں اگر ان کی ضمانت ہو جائے تو وہ فرار نہیں ہوں گے۔ سیاسی لوگ تو اپنے لیے کوئی نہ کوئی حل تلاش کر لیتے ہیں ہمیں غریب جن کا کوئی پرسان حال نہیں ان کے بارے میں سوچنے کی اشد ضرورت ہے۔ قیدی بچوں اور خواتین کے مسائل اور بھی گھمبیر ہیں۔ ایک فرد سے جڑے پورے خاندان کو اس اذیت سے گزرنا پڑتا ہے جس کا ہم سوچ بھی نہیں سکتے۔ اس پورے گھرانے کو اموشنل اور فنانشل پرابلمز کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

نہ اس شخص کی پراپڑٹی سیل ہوتے ہے نہ بنک اکاؤنٹ استعمال ہو سکتا ہے۔ اس کا بھی فوری حل ڈھونڈنے کی ضرورت ہے کیونکہ دس، بارہ سال توگزر جاتے ہیں کیس فائینل ہونے تک۔ ان کا فنانشنل پرابلم کوئی نہیں سمجھتا کیونکہ فیملی نے جرم تو نہیں کیا ہوتا؟ کم از کم قیدی کی بیوی وغیرہ کو تو اکاؤنٹ تک رسائی ہونی چاہیے۔ ایک قیدی جتنی سزا مکمل کر کے آتا ہے وہ زمانے میں اتنے سال پیچھے چلا جاتا ہے۔ اس کے لیے پولیس کی بھی قانونی لحاظ سے ٹریننگ ہو تا کہ وہ کیس بناتے وقت قانونی پچیدگیوں کو مد نظر رکھے اور کسی اثرو رسوخ کواپنے فرائض پر حاوی نہ ہونے دے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments