این جے وی ہائی اسکول اور این ای ڈی انجنیئرنگ یونیورسٹی، کراچی: مختصر تاریخ


برِصغیر ہندوپاک کے تعلیمی اداروں کی تاریخ بھی اِس خطّے کی تاریخ کا وہ باب ہے، جس پر الگ سے قلم نہیں اُٹھایا گیا۔ تقسیم سے پہلے اور بعد میں بہت سارے علم دوستوں اور اللہ کے نیک بندوں نے جس بے لوث انداز میں تعلیمی ادارے قائم کر کے، قوم کی آنے والی نسلوں کو علم و آگہی سے سرشار کرنے کا اہتمام کیا، وہ عمل نسلوں کی ذہنی پرورش میں معاون، ایک ناقابلِ فراموش عمل ثابت ہوا۔ اس عمل میں سرسیّد احمد خان سے لے کر حسن علی افندی اور سیشد الہندو شاہ سے لے کر ایچ۔ ایم۔ خوجہ تک بیشمار تعلیمدانوں اور دیگر مخیّرافراد نے اپنا فرض سمجھ کر حصّہ ڈالا اور ان کے قائم کردہ تعلیمی اداروں نے ہمیں بیش بہا عظیم شخصیات عطا کیں۔ آج ہم کراچی کے دو اہم تعلیمی اداروں کا مُختصر ذکر کریں گے، جو کراچی ہی نہیں، اس ملک اور سابقہ مشترکہ ہندوستان کے اہم ترین تعلیمی اداروں کی حیثیت سے جانے پہچانے جاتے ہیں۔

اُن میں سے پہلا ادارہ، این جے وی ہائی اسکول (نارائن جگن ناتھ اسکُول) ہے، جس کی پرانے بندر روڈ (موجُودہ ایم اے جناح روڈ) پر واقع عمارت آج بھی اس ادارے کی برسوں پُرانی عظمت کے گُن گاتی ہے۔ یہ اسکول اکتوبر 1855 میں 68 بچّوں کی انرولمنٹ کے ساتھ شروع ہُوا اور کراچی میں قائم ہونے والا ترتیب کے لحاظ سے چوتھا اسکُول تھا۔ اس اسکُول کا ابتدائی نام ’ورنیکیُولر انگلش میڈیم وِدّیا اسکُول‘ تھا۔ اس ادارے کے قیام کا اہم ترین مقصد ہی یہاں کی مقامی آبادی کو اُن کی مادری زبان (سندِھی) کے ذریعے سے انگریزی زبان سے آشنا کرنا تھا۔

کچھ عرصے بعد ہی اس اسکول کو اسی اسکول کے ایک مثالی اُستاد، ’نارائن جگن ناتھ‘ کے نام سے منسُوب کر کے اس کا نام ’نارائن جگن ناتھ وِدّیا اسکُول‘ رکھا گیا، جو عرفِ عام میں ’این جے وی اسکول‘ کے طور پر مقبُول ہو گیا اور آج تک اسی نام سے قائم و مشہُور ہے۔ اسکُول کے جنرل رجسٹر کے اندراج کے مطابق 1888 میں این جے وی ہائی اسکول میں کُل 391 طالب علم پڑھتے تھے، جن میں سے 276 ہندو، 93 پارسی، 17 مسلمان اور 5 یہودی تھے۔

اس کے 28 برس بعد 1916 میں یہاں کُل 477 طالب علم زیرِ تعلیم تھے، جن میں سے 350 ہندو، 32 برہمن، 10 جین، 66 پارسی، 12 مسلمان اور 7 یہودی تھے۔ تعلیمی معیار بہتر ہونے کی وجہ سے اس اسکول کو تقریباً شروع ہی سے دو شفٹوں میں چلایا گیا۔ این جے وی ہائی اسکول، 1876 میں اپنی نئی عمارت میں مُنتقل ہوا، جو اِس کی موجودہ عمارت ہے۔

این جے وی اسکول کی اہمیت صرف تدریسی حوالے سے ہی نہیں، پاکستان کی سیاسی تاریخ کے حوالے سے بھی انتہائی اہم اور مُقدّم ہے، کیُونکہ 1947 میں قیامِ پاکستان کے فوراً بعد جب کراچی، ملک کا دارالحکُومت بنا، تو اُس وقت کی دستُورساز اسمبلی (موجودہ سندھ صُوبائی اسمبلی) کو پاکستان کی قومی اسمبلی کا درجہ دیا گیا، جس کے پُرانے ہال میں پاکستان کی قومی اسمبلی کے اوائلی اجلاس منعقد ہونے لگے۔ ایسے میں جب کراچی بہ یک وقت سندھ کا دارالحکُومت بھی قرار پایا، تو سندھ اسمبلی کے اجلاس منعقد کرنے کے لئے این جے وی ہائی اسکول کے گراؤنڈ فلور پر واقع ہال کا انتخاب کیا گیا، جس میں سندھ اسمبلی کے ابتدائی اجلاس منعقد ہوئے۔

2005 کے آس پاس، جب سندھ کی ٹیکنوکریٹ کابینہ میں ڈاکٹرحمیدہ کھہڑو، سندھ کی صُوبائی وزیرِتعلیم تھیں، تو اُسی ہال میں تعلیم کے حوالے سے ایک سیمینار منعقد ہُوا تھا، جس کی نظامت راقم کررہا تھا، تب میں نے ڈاکٹر کھہڑو کو تقریرکے کیے بُلواتے ہوئے یہ کہا تھا کہ: ’میرے لئے یہ انتہائی یادگار لمحہ ہے، کہ میں اُسی ہال میں، جس میں سندھ کی صُوبائی اسمبلی کا اوّلین اجلاس منعقد ہوا تھا، اُس شخصیت کو خطاب کے لئے مدعُو کرنے جا رہا ہوں، جن کے والد (خانبہادرمحمّد ایُّوب کھہڑو) سندھ اسمبلی کے اُس اجلاس اور اُن ابتدائی اجلاسوں میں، اسی ہال میں بحیثیتِ قائدِ ایوان (پہلے وزیرِاعلیٰ) موجُود تھے۔ ‘

این جے وی ہائی اسکول کی تاریخی حیثیت کو ایک اور چیز بڑھاتی ہے کہ 1944 میں جب ’جامعہ سندھ‘ قائم ہوئی، تو اس کا قیام کراچی میں عمل میں آیا اور 1944 تا 1951 (تقریباً سات برس تک) سندھ یونیورسٹی نے، کراچی میں این جے وی ہائی اسکول کے مغربی حصّے میں موجُود چند کمروں میں اپنی تدریسی اور تحقیقی خدمات کا آغاز کیا، بعد ازاں یہ یونیورسٹی پہلے حیدرآباد اور پھر نئی عمارت بننے کے بعد جامشورو مُنتقل کردی گئی، جہاں، آج تک یہ جامعہ علم اور تحقیق کے دیے روشن کررہی ہے۔

این جے وی ہائی اسکول آج بھی ایم اے جناح روڈ پر، سعید منزل کے قریب واقع اُسی 141 سال پُرانی عمارت میں قائم ہے اوراب اِس کا درجہ ہائرسیکنڈری اسکول کا ہے، جہاں بارہویں کلاس تک کے طلبہ وطالبات تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ آج بھی یہ اسکُول دو شفٹوں میں چلتا ہے۔ ایک شفٹ لڑکوں اور ایک لڑکیوں کے لئے مخصُوص ہے۔ اب اس اسکُول کو ’این جے وی گورنمنٹ بوائز ہائرسیکنڈری اسکول (سندھی میڈیم) ‘ لکھا اور کہا جاتا ہے۔ آج کل این جے وی ہائی اسکول کے آدھے حصّے میں دیگر سرکاری دفاتر قائم ہیں، جبکہ آدھے حصّے میں یہ تاریخی درسگاہ، علم کے دیے روشن کررہی ہے۔ این جے وی اسکول سے فارغ التحصیل ہونے والے اہم طالب العلموں میں، کراچی کے پہلے میئر، ’جمشید نسروانجی مہتا‘ بھی شامل ہیں۔

آج کا زیرِ تذکرہ دُوسرا تاریخی ادارہ ”نادرشا ایڈل جی ڈنشا“ (یعنی این ای ڈی) یونیورسٹی آف انجنیئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی ہے، جو آج کل کراچی میں، یونیورسٹی روڈ پر، جامعہ کراچی کے ساتھ قائم ہے، جس کے قیام کے پیچھے بھی ایک دلچسپ کہانی ہے۔ ہُوا یُوں کہ جب 20 ویں صدی کی دُوسری دہائی میں ( 1923 تا 1932 ) سکھر میں لائڈ بیراج تعمیرہو رہا تھا، تو ڈی جے سندھ کالج کراچی کے اُس وقت کے پرنسپل، ایس۔ سی۔ شاہانی نے اس بیراج کی تعمیر کے حوالے سے انجنیئرز اور دیگر ہُنرمندوں کی ضرُورت کو محسُوس کرتے ہوئے، یہ تجویز دی کہ کراچی میں ایک انجنیئرنگ کی تربیت دینے والے ادارے کا قیام عمل میں لایا جائے، جہاں سے تربیت پانے والے ہنرمند (بالخصُوص انجنیئرز) اس اہم بیراج کی تعمیر میں اپنی خدمات انجام دے سکیں، اور دوسرے مُمالک سے تربیت یافتہ انجنیئرز بُلوانے کی بجائے اپنے ہی تربیت یافتہ نوجوان افراد سے فائدہ اُٹھایا جا سکے۔

مسٹرشاہانی کی اس تجویز کونہ صرف سراہا اور مانا گیا، بلکہ اُس سلسلے میں کراچی کی اُس وقت کی شہری انتظامیہ نے بھی گہری دلچسپی لی اور کراچی کے شہریوں سے، اس انجنئیرنگ کالج کی تعمیرکے لئے چندہ اکٹھا کرنا بھی شروع کیا۔ اُس وقت، شہریوں نے دل کھول کر اس نئے ادارے کے قیام کے لئے مالی مدد کی اور مجموعی طور پر 53 ہزار روپوں کی رقم جمع ہوئی اور اس انجنیئرنگ کالج کے خواب کو شرمندہ تعبیرکرتے ہوئے، 1922 میں ’ویلز‘ کے شہزادے کے نام پر یہ انجنیئرنگ کالج قائم کیا گیا، جس کے امُوروانتظامات کا کام ’سندھ کالیجئیٹ ایسُوسی ایشن‘ کے سپرد کیا گیا۔

بعد ازاں سندھ کی معروف سماجی و سیاسی شخصیت اور کراچی کے پہلے میئر، ’جمشید نسروانجی مہتا‘ نے اُس وقت کی ایک انتہائی امیراور صاحبِ استطاعت شخصیت، ”نادرشا ایڈل جی ڈنشا“ کی وفات کے فوراً بعد اُن کے لواحقین سے ڈیڑھ لاکھ روپے کا چندہ لے کر، اُس رقم کو اس کالج کی ترقی میں لگا کر، اِس ادارے کا نام، آنجہانی ڈنشا کے نام سے منسُوب کرتے ہوئے، ’نادرشا ایڈل جی ڈنشا انجنیئرنگ کالج‘ (یعنی این ای ڈی انجنیئرنگ کالج) رکھ دیا۔

1947 میں قیامِ پاکستان کے بعد، حکومتِ سندھ نے اس کالج کو اپنے زیرِ انتظام لیا اور اس کا نام ’این ای ڈی انجنیئرنگ گورنمنٹ کالج‘ رکھ دیا۔ 14 اکتوبر 1955 کو، اس کالج کا انتظام مغربی پاکستان نے سنبھال لیا۔ یکم جولائی 1962 تا 16 اپریل 1966، اس کالج کا انتظام ایک خودمختار بورڈ آف گورنرز چلاتا رہا۔ مسٹر جی۔ ایچ۔ گوکلے کو اس کالج کے پہلے پرنسپل بننے کا اعزاز حاصل ہوا، جبکہ اس کالج کے پہلے گریجُوئیٹ (یہاں سے انجنیئر بن کے نکلنے والے پہلے طالب العلم) کا نام، ”جمنا داس تخت رام“ تھا۔

1973 تک یہ کالج ڈی جے سائنس کالج کے عقب میں (موجُودھ دِین محمّد وفائی روڈ پر) قائم ایک عمارت میں کام کرتا رہا۔ 1973 میں اِسے یونیورسٹی کا درجہ دے کر، گلشنِ اقبال میں کراچی یونیورسٹی سے متصل موجودہ عمارت میں منتقل کیا گیا، جہاں یہ ادارہ آج بھی ’این ای ڈی۔ یونیورسٹی آف انجنیئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی‘ کے نام سے قائم ہے۔
تعلیمی ادارے قائم رہیں، پھلیں پھُولیں۔ اِن ہی سے قوموں کے شعوری بقا ممکن ہوتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments