آخری ہچکی


آنکھیں بند کرتا ہوں تو جیسے ابھی کل کا ہی قِصہ ہو ورنہ تو اِس کو بِیتے کم و بیش چھبیس سال ہو چلے ہیں۔ میں اور میرا دوست فرحان ایک آدھ سال کے فرق سے ہم عمر تھے میں اس وقت آٹھ نو سال کا ہوں گا جبکہ فرحان سات سال یا کچھ زائد لیکن یہ قِصہ صِرف ہم دونوں کا نہیں ہے بلکہ اِس میں ایک تیسرا کردار بھی ہے، وہ کردار جو مر جانے کے باوجود آج بھی نہ صِرف زِندہ ہے بلکہ اکثر میرے سامنے آن کھڑا ہوتا اور اس کی آنکھوں میں موجود سرخی اور درد میری اپنی آنکھوں میں اتر آتا ہے۔

اس کی نظروں سے نظریں چراؤں تو کیسے؟ کبھی ڈر کر تو کبھی پشیمان ہو کر اپنی آنکھیں بند کرلیتا ہوں لیکن صاحب بند آنکھوں کے پیچھے محض اس کی سرخ، درد سے بھری آنکھیں ہی نہیں بلکہ اس ڈھلتے سورج، پھیلتی تاریکی اور اس کی درد بھری چیخیں بھی یاد آتی ہیں۔ پھر یہ بات چھبیس سال پرانی نہیں بلکہ ابھی اِسی پَل کا واقعہ لگتا ہے۔

آج جب یہ لکھنے بیٹھا ہوں تو ضمیر کی چبھن، خلش، پشیمانی، گناہ اور ندامت سب نے اِن تمام بِیتے برسوں میں کبھی ایک پَل ساتھ نہیں چھوڑا۔ شاید میں کچھ غلط کہہ گیا ہوں، جب میں اور فرحان اپنے اِس تیسرے ساتھی کو جان سے مار رہے تھے تو تب اور اس کے چند سال بعد تک بھی کبھی احساس ہی نہیں تھا کہ اپنے خود ساختہ مذہبی جنون میں ہم کیا کر بیٹھے ہیں، بلکہ ایک سرشاری اور طمانیت کا احساس ہوتا تھا۔ فرحان سے آخری بار ملاقات ہوئے انّیس سال ہونے کو ہیں، دوستی تو شاید انّیس سالوں سے بھی پہلے ہی ختم ہوگئی تھی۔ اس کو مِلنا ہی نہیں چاہتا کہ مِلوں گا تو وقت ایک پَل میں سالوں کا سفر طے کر کے پِھر وہیں جا رکے گا، وہی ڈھلتی شام کا وقت، ڈوبتے سورج کی سرخ لالی، سرخ درد بھری آنکھوں، آنکھوں میں شِکوہ، سوال اور دَم توڑتی سانسوں کا وقت۔

یہ تیسرا کردار، تیسرا بدنصیب دوست ابھی چند ہفتے پہلے ہی ہماری واقفیت میں آیا تھا، شروع شروع میں فرحان کا وہ اچھا دوست تھا اور فرحان بھی اسے ساتھ ساتھ لیے پِھرتا تھا میری اس سے ملاقات بہت کم تھی اِسی لیے اس کو اچھی طرح جاننے کا تو سوال ہی نہیں پیدا ہوتا تھا۔ ایک دِن فرحان اور میں دیگر چند دوستوں کے ساتھ کرکٹ کھیل رہے تھے کہ اچانک اذان کی آواز گونجی تو اذان کے احترام میں ہم سب دوست کھیل چھوڑ کر خاموش ہوگئے لیکن فرحان کا وہ نیا دوست شور مچانا شروع ہوگیا اس کو فرحان اور دیگر دوستوں نے بڑا سمجھایا، بہت روکا لیکن وہ بھی بَلا کا ضِدی تھا، اپنی مَن مانی کرتا رہا۔ بہرحال اذان ختم ہوئی اور وہ بھی چپ کر گیا اور ہم سب بھی اپنے کھیل میں لگ گئے۔

اِس بات کو ہم ایک آدھ دِن بعد بھول بھی گئے۔ چند دِن مزید گزرے تھے کہ ایک بار پھر وہی قِصہ، ادھر اذان شروع ہوئی اِدھر موصوف اپنا لگے شور مچانے، اب کی بار فرحان نے دو چار جڑ دیں اور وہ کچھ دیر تک ڈر کر چپ کرگیا لیکن یہ طے تھا کہ صاحب کو اذان سے خاصی چِڑ سی تھی۔ اگلے آنے والے دو ہفتوں میں ہم سب کو یہ بات اچھی طرح معلوم ہوگئی تھی کہ موصوف کو یہ دورہ محض اذان کے وقت ہی پڑتا تھا، آگے پیچھے اس کا رویہ بڑا نارمل رہتا تھا۔

اب ہم سب اس وقت اتنے ہی سمجھدار تھے جِتنے آج کل ہمارے مذہبی رجحان رکھنے والے اکثر دوست یار یا نوجوان ہوتے ہیں۔ دوستوں کی چھ رکنی بیٹھک میں طے پایا کہ اس دوست کے اندر یا تو کوئی شیطانی روح ہے یا یہ ہمیں تنگ کرنے کے لیے ایسی حرکات کرتا ہے بہرحال جو بھی تھا اس کو پیار سے بہت سمجھا لِیا تھا اب اس کا واحد عِلاج موت تھی۔ فرحان اور میں نے یہ طے کِیا کہ کِسی روز شام کے وقت اِس کو آبادی سے ذرا باہر ویران جگہ لے جاتے ہیں اور اِس ”شیطانی روح“ کو اوپر پہنچا کر آتے ہیں۔ اِس ”نیک کام“ کے لیے اگلے روز کا اِنتخاب کِیا۔

اگلے دِن شام کو کھیل ختم ہونے کے بعد بجائے گھر واپس جانے کے میں اور فرحان اس کو ساتھ لے کر قبرستان سے ذرا دور ایک نسبتاً ویران جگہ پر لے گئے۔ وہ دوست بھی فرحان اور مجھ پر اعتماد کرتا تھا اِسی لیے بغیر تنگ کیے ساتھ آگیا۔ اپنے مطلوبہ مقام پر پہنچ کر سب سے پہلے میں نے ایک بڑا سا پتھر اس کو مارا اور وہ درد کی شِدت سے ایک چیخ مار کر زمین پر لوٹ پوٹ ہونے لگ گیا، اِتنے میں فرحان نے ایک پتھر مارا جو اس کو پسلیوں پر لگا اور وہ غالباً درد کم اور حیرانگی زیادہ سے فرحان کو دیکھنے لگا کہ یہ کیا؟

ہم پتھر مارتے گئے اور وہ چیختا رہا، ہر نئے پتھر کی چوٹ پر وہ ایک بلند چیخ مارتا اور ہم مزید جھنجھلا کر پتھر مارتے کہ کم بخت مر کیوں نہیں رہا۔ ہم پتھر مارتے مارتے تھک گئے لیکن وہ پتھر کھاتے کھاتے نہیں تھکا۔ جب سر زمین پر ڈالتا، زور سے سانس لیتا تو ہمیں لگتا کہ یہ آخری سانس تھی لیکن وہ پھر زخمی جسم اور ٹوٹی ہڈیوں سے اٹھنے کی کوشش کرتا اور ہم پھر ایک پتھر مارتے۔

اِس سارے عمل میں کافی وقت لگ گیا اور وہ ڈھیٹ تھا کہ مر ہی نہیں رہا تھا۔ اب کی بار میں نے فیصلہ کیا ایک بڑا سا پتھر اٹھا کر اس کے سر پر ماروں تو شاید جلدی مرجائے۔ میں نے ایک بھاری پتھر اٹھایا، اِتنا وزنی جتنا اس وقت میں اٹھا سکتا تھا، میں اس کے عین سر پر پہنچا، اس نے بمشکلِ تمام اپنا سر زمین سے اٹھایا میری طرف دیکھا، اس کی آنکھیں بالکل سرخ تھیں اور ہمارے دیے زخموں اور درد سے کی کہانی بیان کررہی تھی، وہ جیسے مجھے اِلتجا کررہا تھا،

” نہ کرو، مجھے مَت مارو، میں نے تمہارا کیا بِگاڑا ہے؟ “

زخمی وہ اِس قدر تھا کہ اس کے منہ سے اب آواز بھی نہیں نِکل رہی تھی، میں نے دونوں ہاتھوں میں اٹھایا ہوا پتھر اس کے سر پر دے مارا اور وہ ایک درد بھری ہچکی لے کر ہمیشہ کے لیے چپ ہوگیا۔

میں نے فرحان کی طرف فاتحانہ انداز سے دیکھا اور ہم دونوں وہاں سے کھسک لیے۔ راستے میں ہم دونوں ہی اپنے کارنامے پر بہت خوش تھے کہ ایک ”شیطان روح“ کو ہم نے ٹِھکانے لگادیا لیکن مجھے کیا معلوم تھا کہ یہ بھیانک جرم اور گناہ مجھے ہر پَل یاد آئے گا؟ ہمیشہ مذہبی لوگوں سے سنا تھا کہ کتا ناپاک جانور ہے، اِس کا گھر میں ہونا بے برکتی کا سبب ہوتا ہے، فرشتے گھر میں نہیں آتے وغیرہ وغیرہ۔ معلوم نہیں سچ کیا ہے، کبھی جاننے کی کوشش بھی نہیں کی تھی بس اِتنا واضح تھا کہ اذان کی آواز پر شور مچاتا ہے تو لازماً اِس کے اندر شیطانی روح ہے اور اِس کا عِلاج یہی ہے کہ اِس کو مار دِیا جائے اور یہی ہم نے کِیا، کیا معلوم اس کو اذان اچھی لگتی ہو اور وہ اپنی پسندیدگی کا اِظہار کرتا ہو؟ لیکن اس وقت ہمیں یہی لگتا تھا کہ یہ گستاخی اور بے ادبی کرتا ہے۔

اس چھوٹے چند ماہ کے جرمن شیفرڈ کتے کو مارنے سے پہلے میں نے کبھی کتا نہیں پالا تھا اور کتے مجھے سخت ناپسند بھی تھے لیکن اِس گھٹیا حرکت کے تین چار سال بعد جب شعور ذرا سا بہتر ہونے لگا تو مجھے کتے بہت اچھے لگنے لگے شاید اِسی جرم کا احساس تھا، پچھتاوا تھا۔ میرے دادا ابو نے مجھے پہلا کتا لا کر دیا جو اس وقت ایک ڈیڑھ ماہ کا پَپی تھا، اس کا نام میں نے ”بِیشو“ رکھا وہ کئی سال میرے ساتھ رہا، پھر اس کے بعد ”جیکی“، اس کے بعد ”ٹونی“ پھر ”شیری“ تھا۔ پھر میں یہاں لندن آگیا، لندن آنے کے بعد پہلا کتا جاپانی اکیتا تھا جِس کا نام ”ریور“ تھا اور اَب جرمن شیفرڈ ”میکس“ ہے۔ تب سے لے کر آج تک ایک کتا ہمیشہ میرے ساتھ رہا ہے اور جِتنا پیار میں اپنے کتے سے کرتا ہوں اِتنا پیار میں نے کبھی کِسی جانور سے نہیں کِیا۔

یہ وہ واحد تحریر ہے جو میں جانے کب سے لِکھنا چاہتا تھا لیکن لکھ نہیں پاتا تھا ویسے تو زیادہ تر تحاریر میں اپنے لیے لِکھتا ہوں لیکن پھر بھی کہیں نہ کہیں اس تحریر کا مقصد اپنے تئیں آگاہی ہوتا ہے لیکن اِس تحریر کو میں نے خصوصی طور پر اپنے لیے لکھا ہے، اِس تحریر کو لکھنا یوں بھی ضروری تھا کہ شاید اِسی طرح میرے دِل سے بوجھ اتر سکے، کم ہوسکے۔ میں مذہبی تو شاید بالکل بھی نہیں ہوں لیکن اگر کبھی خدا سے میں نے کِسی گناہ کی بار بار معافی مانگی ہے تو وہ یہی ایک گناہ ہے جو مجھے کبھی نہیں بھولتا۔

ایسا نہیں کہ زندگی میں اور کئی ”گند“ نہ گھولے ہوں لیکن ان سب کا تعلق میری اپنی ذات یا خدا سے ہے جبکہ یہ وہ واحد گناہ ہے جِس کا ایک فریق مر چکا ہے اور میں پچھتانے کے عِلاوہ اور کچھ نہیں کر پاتا۔ آج بھی کبھی اکیلا بیٹھا ہوں تو وہ چھوٹا سا معصوم کتا ماضی کے بند دریچوں کے کواڑ بغیر اجازت کھولے چلا آتا ہے، پھر میں ہوتا ہوں اور اس کی درد سے بھری سرخ آنکھیں اور ان آنکھوں میں بس ایک ہی سوال۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments