نا تجربہ کار شخص کی انا


جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں کہ پنجاب پاکستان کا آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑا صوبہ ہے اور دارالحکومت تک پہنچنے والے سبھی راستے اسی صوبے سے گزرتے ہیں۔ عام تاثر بھی یہی ہے کہ اگر پنجاب چین کی سانس لے رہا ہو تو پاکستان میں کوئی بھی حکومت ہو وہ بھی چین سے ہی سانس لے رہی ہوتی ہے اور اگر پنجاب کی حالت نازک ہو تو مرکز بھی آئی سی یو میں سمجھا جاتا ہے۔ میرا مقصد دوسرے صوبوں کو کم اہم ثابت کرنا نہیں ہے سبھی صوبے پاکستان کے جسم کا حصہ ہیں لیکن پنجاب کا معاملہ دل ایسا ہے یہ خون پمپ کرنا بند کر دے تو سارا وجود کام چھوڑ دیتا ہے۔

اس وقت ہم چاروں صوبوں پہ نظر دوڑائیں تو سبھی صوبے اپنے لیے کچھ نہ کچھ تگ و دو کرتے نظر آ رہے ہیں لیکن پنجاب کی حالت کچھ اس مریض کی سی ہے جو جینے کی امید چھوڑ چکا ہو۔ ڈاکٹر حضرات یقیناً اس کی وجوہات جانتے ہوں گے اور بیماری کی تشخیص اور اس کے علاج کے لیے سوچ بچار بھی کر رہے ہوں گے لیکن بظاہر بہتری کے آثار دکھائی نہیں دے رہے۔

یار لوگ بھی حیران ہیں کہ صرف ڈیڑھ سال پہلے اچھا خاصا دکھائی دینے والا پنجاب ایسا بے حال کیسے ہو گیا ہے کیا کسی نشے نے اس کا یہ حال کیا ہے یا کسی عطائی کی دوا نے الٹا اثر کر دیا ہے۔ یعنی جتنے منہ اتنی باتیں۔ ہم کسی کا منہ تو بند نہیں کر سکتے جو بے رونقی اس کے چہرے پہ نظر آ رہی ہے اس کے بارے باتیں تو ہوں گی ہی۔ ممکن ہے کچھ لوگ حسد کی بنا پہ باتیں بناتے ہوں مگر گھر کے لوگوں کی فکر کو تو ہم حسد کا نام نہیں دے سکتے نا۔

کچھ دن پہلے ایک ڈاکٹر صاحب کے ہاں جانا ہوا تو باتوں ہی باتوں میں پنجاب کی حالت زیر بحث آ گئی۔ ڈاکٹر صاحب شاید نون لیگ کے تھے فرمانے لگے کہ پنجاب کی یہ حالت شہباز شریف کی جدائی کی وجہ سے ہے۔ چونکہ پنجاب شہباز شریف صاحب سے حد درجہ محبت کرتا ہے اس لیے اس فراق کو برداشت نہیں کر پایا اور یہ صدمہ دل پہ لے گیا ہے اور اس کے بچنے کی ایک ہی امید ہے کہ اسے شہباز شریف کے حوالے کر دیا جائے۔ ہم نے ڈاکٹر صاحب کی بات سنی تو ڈرتے ڈرتے عرض کی حضور ہمیں تو معاملہ کچھ اور ہی لگتا ہے۔ کہنے لگے آپ بھی اپنی رائے کاکھل کے اظہار کیجیے۔

ہمیں لگتا ہے کہ پنجاب کسی کی انا کی وجہ سے اس حال میں پہنچا ہے۔ اس کی بیماری کی وجہ شہباز شریف سے جدائی نہیں بلکہ اس کے نئے معالج کی نا تجربہ کاری ہے۔ پنجاب شہباز شریف سے پہلے بھی جدا ہوا تھا لیکن اس کی صحت پہ کوی اثر نہیں پڑا تھا بلکہ پہلے سے زیادہ صحت مند و تندرست دکھائی دیتا تھا اس بار اس کے ساتھ دو حادثے ہوئے ہیں ایک تو یہ کہ اس نے جن لوگوں کو اپنا فیصلہ کرنے کی اجازت نہیں دی تھی انہوں نے اس کا فیصلہ کیا جسے تسلیم کرنے میں اسے دشواری پیش آ رہی ہے اور دوسرا اس کا ذاتی معالج نا تجربہ کار ہے جو اس کے جسم پہ ہر اس دوا کا تجربہ کر رہا ہے جس کی اسے ضرورت نہیں ہے۔

جو خود کہتا ہے کہ میں ابھی سیکھ رہا ہوں اور اس کے سیکھنے کے عمل کا خمیازہ پنجاب بھگت رہا ہے۔ اس وقت پنجاب کی زندگی بچانے کے لیے معالج بدلنا بہت ضروری ہے اور اس کے لیے شہباز شریف کی خدمات کی ضرورت بھی نہیں کیونکہ اسی ہسپتال میں چوہدری پرویز الہی بھی موجود ہیں جو پہلے بھی اس کے معالج رہ چکے ہیں اور اس کی ساری ہسٹری اور بیماریوں کے اتار چڑھاؤ سے بھی واقف ہیں اور اس ایک تبدیلی سے نا صرف پنجاب کو افاقہ ہو گا بلکہ مرکز کی بھی آدھی بیماریاں دور ہو جائیں گی۔

کہنے لگے میں ریجڈ نہیں ہوں بات تمہاری بھی درست ہے لیکن تھوڑی وضاحت کرو۔

دیکھیں جناب ہم نے بات حالات کے تناظر میں کرنی ہے اور جو زمینی حقائق ہمارے سامنے ہیں ان کے مد نظر پنجاب اس وقت جن مسائل کا شکار ہے ان کا حل کوئی تجربہ کار ڈاکٹر ہی نکال سکتا ہے اور اس وقت پنجاب میں سب سے تجربہ کار ڈاکٹر چوہدری پرویز الہی ہیں جو پہلے ان تمام مسائل کا علاج کر چکے ہیں۔ دوسرا جس جماعت کی پنجاب میں اکثریت ہے اس کے اکثر ارکان پہلے بھی ان کے ساتھ کام کر چکے ہیں۔ تیسرا وہ لوگ جو حکمران جماعت کے سیاسی مخالف ہیں ان میں بھی نصف نہیں تو تیسرا حصہ چوہدری صاحب سے منسلق رہ چکا ہے۔ چوتھا چوہدری صاحب پنجاب کی انتظامیہ کو اچھے طریقے سے ڈیل کرنا جانتے ہیں۔ جب انتظامیہ اپنے کام ٹھیک سے سر انجام دے گی تو معاملات خود بخود بہتر ہونا شروع ہو جائیں گے۔ پانچواں چوہدری صاحب کو اگر پنجاب مل جائے گا تو وہ اپنے فیصلوں میں با اختیار ہوں گے۔

میری بات ٹوک کے کہنے لگے کیا عمران خان اپنی جماعت سے باہر کا شخص برداشت کر لیں گے؟

پنجاب میں خان صاحب کا نظریاتی کارکن صرف محمود الرشید ہے جن کو کبھی وزارت اعلی نہیں مل سکتی باقی سب ادھار کے لوگ ہیں۔ جو آج اقتدار کو دوسری سمت جاتا دیکھ کر بدل جائیں گے۔ اگر اس وقت بھی خان صاحب اپنی آنکھیں نہیں کھولیں گے تو پنجاب کی حالت اور خراب ہوتی جائے گی۔ لہذا بہتر ہے کہ پنجاب کے ناتواں جسم پہ مزید تجربات کرنے کی بجائے اسے چوہدری پرویز الہی جیسے تجربہ کار معالج کے حوالے کر دیا جائے۔

ڈاکٹر صاحب کے تاثرات بتاتے تھے کہ وہ مجھ سے متفق ہیں لیکن جب میں نے اجازت چاہی تو کہنے لگے خان صاحب خود بھی نا تجربہ کار ہیں اور نا تجربہ کار شخص کی انا اس کی بصیرت کھا جاتی ہے جیسا تم سوچتے ہو ایسا کبھی نہیں ہو گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments