”لندن پلان“ اور ”قرض“ کی واپسی


ملک میں سابق ڈکٹیٹر و صدر مملکت جنرل (ر) پرویز مشرف کی معزول کردہ اعلیٰ عدلیہ بحال ہو چکی تھی، چیف جسٹس آف پاکستان افتحار محمد چوہدری اپنی بحالی کے بعد پہلی بار لاہور ہائی کورٹ میں خالی آسامیوں پر نئے جج بھرتی کرنے کے لئے ایک کمرے میں چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ خواجہ شریف کے ساتھ بیٹھے ان کے سفارش کردہ ناموں کا ایک ایک کر کے جائزہ لے رہے تھے تا کہ جوڈیشل کمیشن میں رسمی منظوری کی غرض سے پیش کرنے کے لئے حتمی لسٹ مرتب کر سکیں۔ ۔ بتایا جاتا ہے کہ جسٹس خواجہ شریف ہائی کورٹ کی ”ججی“ کے لئے اپنے منتخب کردہ وکلاء کی فائلیں ایک ایک کر کے ان کے آگے رکھ رہے تھے اور چیف جسٹس افتخار چوہدری ان فائلوں میں سے نئے جج چن رہے تھے۔

ایک مجوزہ جج کی فائل سامنے رکھی گئی تو چیف جسٹس افتخار چوہدری نے پوچھا ”ایہہ کون اے؟ “ جیسے وہ ہر مجوزہ نام کی فائل پیش کرنے پر استفسار کر رہے تھے، جسٹس خواجہ شریف نے کہا ”جی، ایہہ پیپلز پارٹی دا۔ ۔ ۔ “ چیف جسٹس افتخار چوہدری نے اتنا سنتے ہی فائل ایک طرف رکھتے ہوئے کہا ”اینہوں تے ایہدھر رکھو“ چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ انہیں ابھی اگلی فائل تھمانے ہی والے تھے کہ چیف جسٹس کے فون کی گھنٹی بجی، جسٹس افتخار چوہدری نے فون اٹھایا تو لائن پر دوسری طرف جنرل کیانی تھے جنہوں نے مختصر بات کرتے ہوئے ایک وکیل کا نام لیتے ہوئے بس اتنا کہا ”ایرانی سفیر نے بطور جج تقرر کے لئے ان کی سفارش کی ہے“

اور۔ ۔ ۔ پھر پورے 10 برس بعد ایک سابق آرمی چیف کو ”ریلیف“ دے کر ”قرض“ چکا دیا گیا۔

ملکی اسٹیبلشمنٹ سے این آر او پا لینے کے بعد آرمی چیف کی توسیع کے حوالے سے حال ہی میں pay back کرنے، یعنی ”قرض“ چکانے والی ”نون لیگ“ کی اعلیٰ قیادت آرام سے اپنے ”لندن پلان“ پر عمل کرنے میں مصروف بتائی جاتی ہے جس کا مقصد ”مجھے کیوں نکالا“ پکارتے پکارتے لندن پہنچ جانے والے سابق وزیراعظم نواز شریف ہی کو عالمی طاقتوں اور غیر ملکی میڈیا میں ایسے statesman کے طور پر پیش کرنا ہے جسے پاکستان کی سب سے زیادہ مقبول اور مضبوط سیاسی شخصیت کا مقام حاصل ہو۔

اس ضمن میں ان کے بڑے صاحبزادے اور ”شدید بیمار“ نواز شریف کے حالیہ کسٹوڈین، حسین نواز نے حالیہ دنوں میں ترکی، کویت، قطر اور سعودی عرب کے برطانیہ میں متعین سفیروں سے باری باری ملاقات کر کے درخواست کی کہ نواز شریف کی تیمارداری اور طبیعت پرسی کے بہانے ان سے ملاقات کی جائے مگر مذکورہ چاروں برادر اسلامی ممالک کے لندن میں مقیم سفیروں نے نواز شریف کے ساتھ ملاقات کرنے سے اپنی معذوری ظاہر کر دی، البتّہ ہمسایہ اسلامی ملک افغانستان کے سفیر نواز شریف سے ملاقات پر آمادہ ہوئے جو اپنے سابق صدر حامد کرزئی کے ساتھ سابق وزیراعظم سے ملاقات کرنے پارک لین آئے تھے۔

بتایا جاتا ہے کہ اس موقع پر حسین نواز اور افغان سفیر نے اپنے موبائل فون نمبروں کا تبادلہ بھی کیا جبکہ۔ ۔ بعض انٹیلی جنس رپورٹس میں کہا گیا ہے کہ سابق افغان صدر، در حقیقت افغانستان اور انڈیا سمیت 2 ممالک کے نمائندے کے طور پر نواز شریف سے ملے جنہوں نے پاکستان کے سابق وزیراعظم کو مذکورہ دونوں ملکوں کی حکومتوں کے اھم پیغامات بھی پہنچا ئے ہیں۔

بتایا جاتا ہے کہ حال ہی میں لندن کے علاقے پارک لین میں واقع ایون فیلڈ اپارٹمنٹس میں نواز شریف سے ملنے والی، اقوام متّحدّہ میں سابق پاکستانی مندوب ملیحہ لودھی نے بھی در اصل سابق وزیراعظم سے خفیہ ملاقات کی تھی، اسی لئے انہیں ایون فیلڈ اپارٹمنٹس میں نواز شریف کی رہائش گاہ پر ملاقات کے لئے پچھلے دروازے سے لایا گیا تھا تاھم کسی طرح یہ ملاقات میڈیا میں ”لیک“ (leak) ہو گئی

ایک طرف شریف فیملی نواز شریف کی ”سیاسی بحالی“ کے لئے ایسی اہم غیرعلانیہ سفارتی کوششوں میں مصروف ہے تو دوسری طرف ”چھوٹا شریف“ (شہبازشریف) پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ اپنے مجوزہ ”ہنی مون“ کے بندوبست کے لئے کوشاں ہے، اور اس تناظر میں بعض اہم ملاقاتوں میں مصروف ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ ابھی دو ماہ تک تو ”چھوٹے شریف“ کی بھی پاکستان واپسی کا کوئی امکان نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments