سب کچھ ممکن ہے مگر کچھ بھی ممکن نہیں!


پاکستان ممکنات اور نا ممکنات کا عجوبہ ہے۔ پاک وطن میں کسی بھی وقت کچھ بھی ہوسکتا ہے اور جو ہونا چاہیے وہ کبھی بھی ہو نہیں سکتا۔ مثال کے طور پر پاکستان میں ملک کی کوئی شاہراہ بشمول شاہراہ دستور کسی بھی وقت بلاک کی جاسکتی ہے اور کوئی بھی سیاسی جماعت یا کوئی دوسرا پریشر گروپ کسی بھی وقت دھرنا دے سکتے ہیں۔

پاکستان کو ہی یہ اعزاز حاصل ہے کہ کچھ سیاسی جماعتیں مل کر اچانک اقتدار کے اعلیٰ مناصب حاصل کرسکتی ہیں اور کسی بھی وقت اس اتحاد میں شامل پارٹیاں روٹھ کر گھر بیٹھ سکتی ہیں اور حکومت گھر جاسکتی ہے۔ یہ مقام بھی پاکستان کو حاصل ہے کہ منتخب وزیراعظم کو تخت سے اتار کر تختہ دار پر لے جایا جاسکتا ہے اور منتخب وزیراعظم کے خلاف اچانک دنیا کے کسی بھی دوسرے ملک میں اچانک کرپشن کہانیوں پر مبنی کاغذات منظر عام پر آسکتے ہیں اور یہ بھی ممکن ہے کہ ملک کے نا اہل ترین شخص کو کسی اہم عہدے پر اچانک بٹھا دیا جائے اور قابل ترین شخص کو زندہ درگور کردیا جائے۔

یہ پاکستان ہی تو ہے جہاں پر کسی اقتصادی امور کی ڈگری کے بغیر وزیر خزانہ بھرتی ہوسکتے ہیں اور تعلیمی امور کی اعلیٰ ڈگری نہ ہونے کے باوجود میٹرک اور ایف اے پاس وزیر تعلیم بن سکتے ہیں اور یہ عجوبہ بھی پاکستان میں دیکھا گیا ہے کہ جس وکیل کو قانونی امور پر مہارت نہ رہی ہو اور اس کا چیمبر ویران رہتا ہو اسے اعلیٰ عدالتوں میں انصاف کی فراہمی کا منصب دیدیا جاتا ہے اور یہ بھی صرف اس پاک وطن میں ہی ہوا ہے کہ اعلیٰ ترین عدالت نے بے گناہ شہری کو پھانسی دینے کے بعد اعتراف کیا کہ وہ تو بے گناہ تھا۔

ایسا صرف ہمارے ہاں ممکن ہے کہ سرکاری وردیوں میں ملبوس قانون کے رکھوالے کسی بھی چوک اور چوراہے میں اپنی عدالت لگا کر معصوم اور بے گناہ شہریوں کو ماورائے عدالت قتل کردیں اور پھر ملک کی تمام عدالتیں اور حکومتیں ان ہتھیاروں کو بے گناہی کا سرٹیفکیٹ دے دیں۔ اور یہ بھی صرف پاکستان میں ہوتا ہے کہ فقیروں کی کمائی ”بحق تھانیدار“ ضبط کرلی جاتی ہے۔

انصاف کی فراہمی کے لئے بنائی گئی کورٹ کچہریاں یہ داستانیں بھی سناتی ہیں کہ اگر کوئی حقیقی شہری اپنی جائیداد چھوڑ کر چند سال کے لئے بیرون ملک چلا جائے تو واپسی پر ان کاغذات کو دیکھ کر حیران رہ جاتا ہے جس پر اس کے دستخط اور انگوٹھے گواہی دے رہے ہوتے ہیں کہ یہ جائیداد وہ فروخت کرچکا ہے۔

ایسے المیئے صرف پاکستان میں ہی ممکن ہوسکتے ہیں کہ پولیس اور ڈاکو ایک پیج پر ہوں اور ہر واردات دونوں مل کر کرتے ہوں اور یہ بھی پاکستان میں ہی ہوا ہے۔ عدالتوں سے عمر قید کی سزا پانے والے ایگزیکٹو آرڈر پر جیلوں سے رہا ہوکر بیرون ملک چلے گئے اور انصاف کے منہ پر زور دار طمانچہ بھی پاکستان میں ہی مارا گیا تھا جب دو سیاسی قوتوں کے درمیان ہونے والے این آر او نے سنگین جرائم میں ملوث 8 ہزار قیدیوں کو بیک جنبش قلم ”معصوم“ بنا دیا تھا۔

یہ بھی پاکستان میں ہی ہوتا ہے کہ گندم پیدا کرنے کے باوجود آٹے کی قلت پیدا ہوجاتی ہے اور ٹماٹر اچانک اس قدر ”قیمتی“ ہوجاتے ہیں کہ گندے لیڈروں کو ٹماٹر مارتے ہوئے ہانڈی کا خیال آجاتا ہے۔ پاکستان طاقتور مافیاز اور با اثر لوگوں کی جنت ہے۔ یہاں ان کی مرضی اور منشا سے کسی بھی وقت اور کسی بھی حال میں پولیس اور عدالتیں انصاف فراہمی کے لئے دستیاب ہوتی ہیں۔

پاکستان میں اگر ممکن نہیں ہے تو غریب کو نہ کبھی عزت مل سکتی ہے اور نہ ہی اسے انصاف مل سکتا ہے۔ غریب کی انصاف کی فراہمی کے لئے تھانوں اور عدالتوں میں دی گئی لاکھوں بلکہ کروڑوں درخواستوں نے صرف اس لئے دم توڑ دیا کہ ان کا مدعی پاکستان کا مخلص غریب، مزدور اور سفید پوش آدمی تھا۔ یہ پاکستان ہی ہے جہاں غریب آدمی کو نہ کھانے کے لئے روٹی پوری مل سکتی ہے اور نہ ہی بیماری کے علاج کے لئے اسے اصل دوائی مل سکتی ہے۔ دو دہائیوں پہلے غریب کا جینا مشکل تھا اور اب مرنا بھی مشکل کردیا گیا ہے۔

یہ بھی پاکستان میں نہیں ہوسکتا کہ غریب کا بچہ اسی طرح تعلیم حاصل کرے جس طرح امراء کے بچے تعلیم حاصل کررہے ہیں ۔غریب کے بچے کا مقدر غیر معیاری اور بے فائدہ تعلیم ہے۔ میٹرک تک پہنچتے ہوئے ہر غریب کے بچے کو سمجھ آجاتی ہے کہ اس کا مقدر غلامی اور مزدوری ہے۔ پاکستان میں غریب ہی تو ہے جسے 1947 کی آزادی کے بعد بھی آزادی نہیں مل سکی۔ فرق صرف یہ ہوا ہے کہ غریب پہلے انگریزوں کی غلامی کررہا تھا اور اب انگریز کے غلاموں کی غلامی اس کی نسلوں میں سرائیت کرچکی ہے۔

پاکستان کا یہ بھی المیہ ہے کہ یہا ں کسی حقدار کو حق ملنا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہے بلکہ دولت، شہرت اور عزت ان کے گھر کی لونڈیاں بن چکی ہیں۔ جو کسی بھی معاشرے میں ”باعزت“ قرار نہیں دیے جاسکتے عصمت فروشی کا دھندہ کرنے والے اپنی ”خدمات“ کے عوض اعلیٰ ترین عہدوں کے مزے لوٹ رہے ہیں اور ”خدمات“ لینے والے اپنی ذمہ داریوں سے غافل ہیں جس کاجتنا بڑا کالا دھندہ ہے وہ اسی نسبت سے معزز اور اعلیٰ مناصب کا حقدار ہے، اس کے باوجود حکومت ریاست مدینہ کے حوالے دے دے کر غریب عوام کو تسلیاں دے رہی ہے۔ پاکستان میں طاقت ور کے لئے سب کچھ ممکن ہے کمزور کے لئے کچھ بھی ممکن نہیں۔ طاقتور گروپوں نے سیاسی گروپ بنا کر کمزوروں کو مکمل طور پر یرغمال بنالیا ہے اور شاید اب ان طاقتوروں سے کمزوروں کی رہائی بھی ممکن نہیں ہے۔

شمشاد مانگٹ
Latest posts by شمشاد مانگٹ (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

شمشاد مانگٹ

شمشاد مانگٹ گذشہ 25برس سے الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کے ساتھ منسلک ہیں۔اس وقت بطور گروپ ایڈیٹر روزنامہ جناح اور آن لائن نیوز ایجنسی کے ساتھ کام کر رہے ہیں

shamshad-mangat has 105 posts and counting.See all posts by shamshad-mangat

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments