چیونٹیوں بھرا کباب


چیونٹیوں بھرا کباب اگر آپ نے دیکھا ہوتو یقیناً آپ جانتے ہوں گے کہ اس میں کباب کم اور چیونٹیاں زیادہ نظر آتی ہیں۔ اس وقت ہمارے ملک پاکستان کا حال بھی اس کباب جیسا ہے جو چیونٹیوں سے بھرا ہوا ہے، کوئی شعبہ لیں، کسی ادارے پہ نظر ڈالیں دیکھنے میں خوشنما کباب نظر آئے گا لیکن اس کباب کو توڑتے ہی ہزاروں چیونٹیاں اس میں موجود ہوں گی جو خاموشی سے اس کباب کو ہڑپ کرنے میں لگی ہوں گی، ہر محکمے میں چیونٹی نما دشمن اسے کھانے میں لگے ہیں۔

اس ملک کا ہے ایک مسئلہ حل نہیں ہوتا دوسرا مسئلہ سر اٹھا لیتا ہے۔ آرمی چیف کی ایکسٹینشن کا واویلہ مچا پتہ چلا صدر مملکت کی غائب دماغی اور وزیراعظم کی جلد بازی نے اس عہدے کو بھی کٹہرے میں لا کھڑا کیا۔ شکر ہے یہ بل قومی اسمبلی اور سینٹ سے فی الفور منظور ہوگیا چاہے ایک ہی صف میں کھڑے ہوگئے محمود و ایاز، نہ پاس کر سکے تو ”زینب الرٹ بل“ نہ پاس کرسکے قومی اسمبلی سے نکل کر سینٹ میں پھنسا ہوا ہے۔ اس دوران بے شمار معصوم بچیاں اپنی عزت کا جنازہ نکلوانے کے بعد راہی ملک عدم ہو چکیں، بچے بچیوں کے ریپ کے واقعات تسلسل سے ہورہے ہیں لیکن سب اپنی لوٹ کھسوٹ میں لگے ہیں۔

لوٹ کھسوٹ سے یاد آیا آٹے کا بحران چل رہا ہے اور چینی کا بحران آیا ہی چاہتا ہے۔ یہ سب بھی ان بیس پچیس افراد کی کارستانی ہے جنھوں نے پہلے بد انتظامی اور ناقص منصوبہ بندی کی، اسی وجہ سے آٹے کے بحران نے جنم لیا۔ کہا جارہا ہے غلط تخمینوں کی وجہ سے حکومت نے تین لاکھ ٹن گندم برآمد کر دی جب آٹے اور گندم کی ہاہا کار مچی تو اس کمی کو پورا کرنے کے لیے اقتصادی رابطہ کمیٹی نے اتنی ہی گندم درآمد کرنے کی منظوری دی یعنی پہلے سستے داموں گندم برآمد کرکے کسانوں کونقصان پہنچایا گیا اور اب مہنگی گندم منگوا کر عوام کو چونا لگایا جائے گا اور اس میں فائدہ ان افراد کا ہوگا جو یہ کھیل کھیل رہے ہیں

ساتھ ہی گندم کی اسمگلنگ بھی جاری ہے، چینی کے بحران سے بھی بد ترین لوگوں کو فائدہ پہنچایا جائے گا۔ اس پر وفاقی وزیر کا بیان کٹے پر نمک مرچ لگانے کے مترادف کہ اس سیزن میں لوگ روٹیاں زیادہ کھاتے ہیں ستم بالائے ستم صدر پاکستان اس آٹا بحران سے لاعلم نکلے۔

ملکی معیشت پر کتنا دباؤ ہے اس کا اندازہ روز افزوں مہنگائی سے لگانا مشکل نہیں، سبزیوں، پھلوں، انڈے، مرغی اور دوسری اشیاء کے بعد اب آٹے اور چینی کی قیمتوں کے بے تحاشا اضافے نے کم آمدنی والے طبقے کے لیے دو وقت کی روٹی کا حصول بھی تقریباً ناممکن بنا دیا ہے۔ اب ایک اور ستم ہونے جارہا ہے بجلی اور گیس کے نرخ جو پہلے ہی عام آدمی کی پہنچ سے باہر ہیں مزید بڑھانے کی تیاری ہورہی ہے۔ کسی کو بھوکے ننگے نظر نہیں آرہے ہیں، وزیراعظم بھی اپنی دولاکھ کی تنخواہ کا رونا رونے بیٹھ گئے سوچیں آپ ایک غریب مزدور اپنے نو دس افراد کے کنبے کو پندرہ ہزار ماہانہ میں کیسے پالتا ہوگا۔

گھروں میں مسائل جنم لے رہے ہیں چادر دیکھ کر پاؤں پھیلانے کا محاورہ پرانا ہوگیا ابن ِ انشا سے معذرت اب تو اس چادر میں سو چھید ہوئے اس چادر کا پھیلانا کیا۔ غریب غریب تر ہوتا جارہا ہے شاید یہ فارمولا اپنایا گیا ہے کہ غریب کو ختم کردو غربت خودبخود ختم ہوجائے گی۔ غربت سے تنگ لوگ حرام کھانے کے بجائے حرام موت مرنے کو ترجیح دے رہے ہیں، کہیں گرم کپڑے مہیا نہ کرنے پر باپ نے خودکشی کر لی کہیں ماں بچوں کو پیٹ بھر کھانا نہ کھلانے پر موت کو گلے لگا لیتی ہے۔

لوگوں کو مہنگائی کی مد میں ریلیف دینے کے بجائے لنگر خانے کھولے جارہے ہیں اور وزیراعظم وہاں کھانا کھا کر بتا رہے ہیں بہت مزے کا کھانا ہے۔ امیر جماعت اسلامی کا کہنا درست کہ کیا عمران خان بائیس کروڑ عوام کے لیے لنگر خانے کھولیں گے کیونکہ جتنی تیزی سے غربت میں اضافہ ہورہا ہے اس کا نتیجہ یہی نکلنے والا ہے۔

آٹے کے بحران سے توجہ ہٹانے کے لیے اوٹ پٹانگ حرکتیں کی جارہی ہیں اور زندگی واقعی تماشا بن گئی ہے۔ سب ایک دوسرے کی ٹانگ کھینچنے میں لگے ہیں اپنی مرضی کا بندہ اپنی مرضی کا کام کرنا چاہتے ہیں چاہے اس میں ریاست کو نقصان ہی کیوں نہ پہنچ جائے۔ خدارا غریب ختم کرنے کے بجائے غربت ختم کریں، مہنگائی کنٹرول کریں، اعلٰی تعلیم پہ خرچ کرنے کے بجائے بنیادی تعلیم کو لازمی اور مفت کریں جب جڑیں مضبوط ہوں گی تب ہی نظام چلے گا ورنہ تاش کا گھر زمیں بوس ہوتے لمحے لگتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments