دستیاب قیادت


دستیاب قیادت کچھ نہیں۔ بس ایک اصطلاح۔ دل بہلانے کا خیال۔ تختہ مشق ہے نشانچی کی لا ابالی کے لئے۔ ناراض ورکر اس پر تف بھیج اپنی آتما کو شانتی دیتا۔ اپنے حواس کو آسودگی فراہم کرتا ہے اور بس۔

دنیا صدیوں سے غلاموں اور آقاوں کے کھیل کا میدان بنی ہوئی۔ آقا غلاموں کو حکم دینے کی عادی اور غلام سر جھکائے جی حضوری سے تعمیل کرتے یہ سلسلہ کمال سادگی سے چلا جا رہا تھا۔

پھر زمانے نے پلٹا کھایا۔ بے شعوروں نے روشنی سے آگہی چاھی تو یہ بھید کھلا غلامی تو لعنت ہے گالی ہے۔ انسان تو آزاد پیدا ہوا پھر وہ اس زنجیر پا میں خوش کیوں ہو۔

سو انسان چپکے سے غلامی کی حدود کو پامال کرتے ہوئے عشق کی گلیوں میں آن بھٹکا۔ حضرت انسان نے عشق کو غلامی سے بہتر جانا۔ یہ جانے بغیر کہ غلام تنہائی میں ہی سہی سوچ تو سکتا ہے عشق یہ اجازت بھی نہیں دیتا۔

ہم تو خیر اس حقیقت سے آشنا نہیں جان محفل سے سنا ہے چھوٹے میاں کا بڑے میاں سے یہی تعلق ہے عشق کا تعلق۔

یار بیان کرتے ہیں کہ یہاں حکم کی تعمیل واجب ہوا کرتی ہے عشق تو ویسے بھی دیوانگی کا دوسرا نام۔ بقول شاعر

من دا اے رضا مطلوب دی

سن دا اے گل محبوب دی

ایسے میں کیا اپنی ہستی اور کیا ہستی کے ناز نخرے۔

بے دام بکے لوگوں سے بے ہنگم جنبش کی بھی امید لوگوں کو ہو تو رہے ہم تو سوچ کر بھی گناہگار نا ہوں۔

پینتیس سالوں سے جاری اس کھیل کو کٹھ پتلی کا نام میرے لئے موزوں۔ صاحب علم بار ہا اس کی تصدیق کر چکے۔ لوگ تو یک جان دو قالب کی حقیقت انہی وجود سے بیان کیا کرتے تھے۔

ابھی کل تک ایسا ہی تھا۔

ہاں کبھی ہوا بھی تال، چال بگڑی تو آوازیں ابھریں۔ اساتذہ نے اس کی نشاندہی کی تو مداح میدان میں اترے گواہی دی کہ اب دائیں بازو کی ڈور بے اختیار ڈور بائیں بازو سے ہلائی گئی۔

یہ تو کٹھ پتلی ہے ڈور ہلانے والا بدلے تو بدلے اب اس کے ناچ پر پس پردہ ہستی کو مبرا جانا جائے کون جانے کے پردے کے پیچھے کون۔

لیکن یہ بھید آج تک نا کھلا کہ پس پردہ صرف بازو بدلتا تھا کہ پورا وجود۔ اپنا خیال تک تو صرف بازو تک ہی جاتا ہے۔

عشق میں رنگی کٹھ پتلی کچھ اور ہو تو ہو بے وفا ہو نہیں ہو سکتی۔

عشق تو دیوانگی کا دوسرا نام ہے عاشق برے اچھے کی تمیز کر نہیں سکتا۔ خیال یار ہی جن کے جینے کی وجہ ہو وہ خواہشات کے سایوں کی پناہ گاہ کہاں ڈھونڈتے ہیں۔

حضور والا یہ پارلیمنٹ فلور تھا اور اپوزیشن لیڈر پر جوش خطاب سینہ چوڑا کئیے اعلی ظرف کی مثال بنے۔ حکومت وقت کو گلے لگانے کے لئے تیار۔ ان کا کہنا تھا قوم کی خاطر میں اس زہر کو پینے سے بھی گریز نا چاھوں۔ آو ہمارے ساتھ بیٹھو ہم میثاق معیشت کرتے ہیں مل کر اس قوم کو آنے والی بدحالی سے محفوظ کرتے ہیں۔ وہ آنکھوں میں درد کی نمی لئے عوام کی بھلائی کی خاطر عدو کو مل بیٹھنے کا مشورہ عنایت فرما رہے تھے۔ ایک تباہ حال حکومت کو لاٹھی فراہم کر رہے تھے۔

دوسری طرف ”صاحبزادی“ ایک جلسہ گاہ میں اسٹیج پر کھڑی لاکھوں لوگوں سے ہم کلام۔ ماضی میں اس قوم کے ساتھ ہونے والی نا انصافیوں کو بیان کر رہی تھیں اچھے مستقبل کی ضمانت کے لئے اپنے ساتھ کا حلف لے رہی تھیں۔ ایسے میں کسی ہمدرد نے کان میں چغلی فرمائی۔ پارلیمنٹ میں پیش آنے والی تبدیلی سے آگاہی فرمائی۔ صاحبزادی کو جلال آیا۔ گفتگو کا رخ بدلا۔ عہدو وپیمان کا سلسلہ منقطع فرمایا اور اس خاص بیان کی طرف لپکی۔ فرماتی ہیں ”اس حکومت کی ڈوبتی کشتی کو میثاق معیشت کی بیساکھی پیش کرنے والے بھی غداری کریں گے“

حلیفوں نے اس موقف پر داد دی اور حریفوں نے۔

معذرت ان کا تو حریف کوئی تھا ہی صاحب عشق لوگ ہیں ہاں میں ہاں ملاتے ہیں اور یہ بھید مجھ پہ تب کھلا جب ان کی گہری خاموشی پر کوئی زبان شکوہ نا کر سکی

شاید ہم کو سمجھ نہیں ورنہ خاموشی کی زبان تو ہوتی ہے۔

، مصلحت خو کب ہوا ہے آئینہ

یوں تو میری جان پہچان کئی ایسے شعراء سے ہے جو اس خاص معاملے پر بڑے زبان دراز واقع ہوئے ہیں۔ اور مجھے اکسا رہے ہیں کہ تم بھی ذرا تو اس صحبت کا اثر لو مگر اپنی طیعت ذرا سہل پسند ہے۔

پڑھنے والے اس بات سے کہاں واقف کہ لکھنے والے نے کیا کیا جبر برداشت کئیے۔ وہ تو بس وہی پڑھتے ہیں جو ہم نے آخر صفحوں کا پیٹ بھرنے کو لکھ دیا۔ میں ایک ادنی انسان ہوں جبر برداشت کرنے کی سعی کرتا ہوں۔ مگر لازم ہے کہ جبر کو برداشت کرنے کی حد ہوا کرتی ہے۔

اس معاملے پر بہت جبر کے باوجود ایک مصرعہ پر تو بس ضبط ہو نہیں سکا

، شریک جرم نا ہوتے تو مخبری کرتے

شاید قاری مجھے باغی تصور کرنے لگے اور کیا کیا تہمتیں مجھ پر دھرنے کو ثواب سمجھ بیٹھیں۔

اس سے پہلے میں اس بات کا ا قرار چاھوں گا کہ بھائی لوگو! ہمارا تعلق بھی دیوانوں ہی کہ ایک قبیلے سے ہے۔

جناب ذی وقار کے ہر فیصلے پر آنکھ بند کر قبول ہے قبول ہے کا ورد جاری کرنا ہمارے نزدیک بھی عین وفا کی سند ہوا کرتا ہے۔

پھر اس تمام کا مقصد۔ واقعی میں حیران کن مگر کیا کریں ”صاحب“ شکوہ کناں ہونا پڑا۔ بس اس لئے کہ جب ”آپ“ ہی حاکم ”آپ“ ہی حرف آخر آپ ہی کے اشاروں پہ ناچتی کٹھ پتلیاں محو ”رقص“ تو پھر ہم دیوانوں کو اس راز سے واقف کردیں نا کہ

دستیاب قیادت کچھ نہیں۔

بس ایک اصطلاح۔

دل بہلانے کا خیال۔

تختہ مشق ہے نشانچی کی لا ابالی کے لئے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments