بچوں بڑوں کو بھوک نہ لگنے کی کیا وجہ ہے؟


کچھ دن پہلے سائنس کی دنیا فیس بک پیج پر ایک سوال کیا گیا کہ بھوک نہ لگنے کی کیا وجہ ہے؟ اس سوال کو کئی مختلف حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ نوجوانوں میں بھوک نہ لگنے کی کیا وجوہات ہیں؟ وہ کون سی بیماریاں ہیں جن میں بھوک نہیں لگتی؟ نئی تحقیق سے کئی دلچسپ سوال بھی سامنے آئے ہیں کہ کیا بھوک نہ لگنا ایک بیماری ہے یا ہمارے جسم کا مدافعتی نظام ہے جس میں وہ ہاضمے کے نظام سے توجہ ہٹا کر ان حصوں کی مرمت پر دھیان دیتا ہے جو کسی بیماری سے متاثر ہیں۔ اگر کسی کو بھوک نہ لگ رہی ہو تو کیا ضروری ہے کہ ہم بچوں کو یا مریضوں کو زبردستی کھلائیں پلائیں؟

آج کا مضمون اینوریگزیا کی بیماری پر لکھا گیا ہے۔ باقی موضوعات کو اس کی اگلی قسطیں بنایا جاسکتا ہے۔ ویب ایم ڈی کے لحاظ سے اینوریگزیا نرووزا کی تعریف مندرجہ ذیل ہے۔

“Anorexia (an-o-REK-see-uh) nervosa — often simply called anorexia — is an eating disorder characterized by an abnormally low body weight, an intense fear of gaining weight and a distorted perception of weight.”

وزن کم کرنے کے کھانا پینا کم کرنا ان لوگوں کے لیے بالکل مناسب ہے جن کا وزن نارمل سے زیادہ ہو اور ان کو ایسا کرنا بھی چاہیے۔ لیکن وزن کم کرنے کے لیے کھانا پینا انتہائی کم کردینا ان لوگوں یا نوجوانوں کے لیے قطعاً مناسب نہیں جو پہلے سے بہت دبلے ہوں۔ ان میں سے کچھ لوگ کھانے کے بعد الٹی کردیتے ہیں جس کو بلیمیا کی بیماری کہتے ہیں، کچھ وزن کم کرنے کی دوائیں لیتے ہیں اور کچھ قبض کی دوائیں کھا کر وزن گھٹانے کی کوشش کرتے ہیں۔ چاہے وہ پہلے سے ہی بہت دبلے پتلے ہوں لیکن پھر بھی ان کو وزن بڑھ جانے کا خوف لگا رہتا ہے۔

اینوریگزیا کی بیماری کھانے کے بارے میں نہیں ہے بلکہ یہ ایک غیر صحت مندانہ رویہ ہے جو جذباتی مسائل حل کرنے کے لیے اختیا ر کیا جاتا ہے۔ جب آپ کو اینوریگزیا ہو تو آپ اپنے دبلے پن سے اپنی وقعت جانچنے لگتے ہیں۔ اینوریگزیا ایک ایٹنگ ڈس آرڈر (کھانے کی بیماری) ہے جو آپ کی زندگی بگاڑ دیتی ہے۔ اس پر قابو پانا نہایت مشکل کام ہے لیکن علاج سے آپ میں عزت نفس بڑھ سکتی ہے اور آپ صحت مندانہ کھانے پینے اور ورزش کی عادات کی طرف آسکتے ہیں۔

ہماری امی کہا کرتی تھیں کہ کھاؤ من بھاتا اور پہنو جگ بھاتا۔ جب ہم روم میں ہوں تو ویسا ہی کرنا چاہیے جیسے رومن کررہے ہوں۔ اپنے ماحول کے ساتھ نارمل رہنا نوجوانوں کی عزت نفس اور خود اعتمادی کے لیے اہم ہے۔ کچھ سال پہلے میری بیٹی کی ایک سہیلی اینوریگزیا کی بیماری کے ساتھ ہسپتال میں داخل ہوئی تھی جہاں وہ دو مہینے تک رہی۔ ان کی فیملی جنوب ایشیائی تھی اور وہ اپنے امریکی بچوں کو ویسے ہی زندگی گزارتے دیکھنا چاہتے تھے جیسا کہ وہ خود جنوب ایشیا ء میں رہتے تھے۔

یہ بچی ٹین ایجر تھی اور عبایا اور سر پر اسکارف پہننے کی وجہ سے وہ اپنے جسم کے بارے میں اتنا پریشان ہوگئی کہ کھانا پینا چھوڑ دیا۔ ڈھیلے ڈھالے کپڑوں کی وجہ سے کسی کو اس وقت تک پتا نہیں چلا جب تک ایک دن لیب میں کھڑے کھڑے وہ بے ہوش ہو کر گر گئی۔ میں اس کی کلاس فیلوز کو ایک مرتبہ اپنی سہیلی سے ملوانے ہسپتال لے گئی تھی جہاں ہم نے دیکھا کہ اس کی ناک میں فیڈنگ ٹیوب لگی ہوئی ہے جس سے اس کو ضروری غذائیات دی جائیں۔ بلوغت سے گزرنے کے دوران بچوں میں بہت ساری جسمانی اور ذہنی تبدیلیاں واقع ہوتی ہیں اور اس دوران ان کو ہر طرح کے سہارے کی ضرورت ہوتی ہے۔ کھیل کود اور بھاگ دوڑ تمام لڑکے اور لڑکیوں کے لیے ضروری ہے تاکہ وہ مضبوط بڑے ہوں اور زندگی کے چیلنجز کا سامنا کرسکیں۔

اینوریگزیا کی علامات

اینوریگزیا کی علامات میں وزن کا انتہائی کم ہوجانا، خون کی کمی، تھکن، نیند کی کمی، چکر آنا اور بے ہوش ہوجانا، بالوں کا باریک ہونا، بالوں کا آسانی سے ٹوٹنا، ماہواری بند ہوجانا، لڑکوں میں ٹیسٹاسٹیرون کم ہونا، قبض، پیٹ میں درد، جلد کی پیلاہٹ، ٹھنڈ برداشت نہ کرسکنا، بلڈ پریشر کم ہونا، جسم میں پانی کی قلت ہونا، ہاتھوں پیروں کا سوجنا اور معدے کے تیزاب کی وجہ سے الٹیاں کرنے کی وجہ سے دانتوں کا خراب ہونا شامل ہیں۔

اینوریگزیا کی جذباتی علامات

اینوریگزیا کے مریض بہت زیادہ ورزش کرتے ہیں، کھانا پینا انتہائی کم کردیتے ہیں، یہ مریض الٹیاں کرکے اور دوائیاں استعمال کرکے وزن گھٹانے کی کوشش کرتے ہیں جبکہ ان کا وزن پہلے سے ہی انتہائی کم ہوتا ہے۔ یہ مریض ہر وقت کھانے کے بارے میں سوچتے ہیں، وہ طرح طرح کے کھانے پکاتے ہیں لیکن دوسروں کے لیے۔ یہ کھانے وہ خود نہیں کھاتے۔

بھوک لگ رہی ہو تو بھی کہتے ہیں کہ بھوک نہیں ہے۔ یہ صرف کم کیلوریوں والے کھانوں کو ترجیح دیتے ہیں اور دوسرے لوگوں کے سامنے کھانے پینے سے گریز کرتے ہیں۔ یہ مریض کھانے کی مقدار کے بارے میں بھی جھوٹ بول دیتے ہیں اور ہر وقت موٹا ہوجانے کی فکر میں مبتلا رہتے ہیں۔ ان کے ذاتی تعلقات اس بیماری سے منفی طور پر متاثر ہوتے ہیں اور ان کو نیند نہ آنے کی شکایت ہوتی ہے۔

ڈاکٹر کو کب دکھایا جائے

بدقسمتی سے جب لوگوں کو یہ معلوم نہ ہو کہ ان کو کوئی ذہنی یا جسمانی بیماری ہے تو ان میں اس بیماری کے علاج کی کوئی خواہش نہیں ہوتی۔ میری بیٹی کی سہیلی چونکہ ابھی 18 سال سے کم تھی، اس کو بچوں کے ہسپتال میں داخل کرایا جاسکا۔ اگر کسی کو اینوریگزیا کی بیماری ہو اور ان کے گھر والے ان کے لیے پریشان ہوں تو ان سے بات کرسکتے ہیں۔ یہ جملے پڑھنے والے اگر کسی شخص کو یہ بیماری ہے تو آپ اپنے قابل بھروسا دوستوں سے بات شروع کرسکتے ہیں۔

اینوریگزیا کیوں ہوجاتا ہے؟

کئی دیگر بیماریوں کی طرح اینوریگزیا کی بیماری کی بھی کئی مختلف وجوہات ہیں۔ کچھ تحقیق کے مطابق اس کا جینیات سے تعلق ہے۔ کچھ لوگوں میں ایسے جین پائے جاتے ہیں جو ان کو حساس بناتے ہیں۔ یہ مریض پرفیکٹ انسان بن جانا چاہتے ہیں۔ اس کی نفسیاتی وجوہات بھی ہوسکتی ہیں اور ماحول کا بھی انسان پر اثر ہوتا ہے۔ پچھلی صدی میں دبلے پن کو میڈیا میں خوبصورتی کا معیا ر بنا دیا گیا۔ یہ فوٹو شاپ تصویریں ہر طرف دیکھ کر بچے یہ سمجھنے لگتے ہیں کہ گورا ہونا، لمبا ہونا، دبلا ہونا ہی خوبصورتی کے معیار ہیں اور ان نقلی معیار کی بنیا د پر وہ اپنی وقعت جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔ ابصار فاطمہ کے حالیہ چھپنے والے آرٹیکل میں بھی انہی نکات پر روشنی ڈالی گئی ہے۔

اینوریگزیا کا خطرہ کن لوگوں کو ہے؟

اینوریگزیا حالانکہ زیادہ تر لڑکیوں اور خواتین کو ہوتا ہے لیکن یہ لڑکوں اور مردوں میں بھی ہوسکتا ہے۔ اینوریگزیا کی بیماری ٹین ایج بچوں میں سب سے زیادہ پائی جاتی ہے۔ 40 سال سے زیادہ عمر کے افراد میں یہ بیماری کافی کم دیکھی گئی ہے۔ جیسا کہ پہلے بھی کہا گیا ہے، بلوغت سے گزرنا ہر انسان کے لیے ایک مشکل وقت ہے اور اس وقت ان کے جسم کی طرف منفی توجہ دلانا ان کی شخصیت کچلنے کا کام کرتا ہے۔ بچپن میں جسمانی اور جنسی تشدد سے بھی یہ بچے اپنے جسم سے نفرت کرنے لگتے ہیں۔ جب یہ بچے کسی مشکل وقت سے گزر رہے ہوں جیسے کہ تبادلہ، نیا اسکول، ان کے گھر میں تشدد، والدین کی لڑائیاں یا طلاق وغیرہ تو بھی ان میں اینوریگزیا کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ اینوریگزیا کی بیماری سے موت بھی واقع ہوسکتی ہے۔

اینوریگزیا سے کیسے بچا جائے؟

اینوریگزیا سے بچنے کی کوئی گارنٹی نہیں دی جاسکتی ہے۔ جب ہم پاکستان میں چھوٹے بچے تھے تو ڈاکٹر کے پاس تبھی جاتے تھے جب کوئی شدید بیمار پڑ جائے۔ ہر بچے اور بڑے کو سال میں ایک مرتبہ مکمل چیک اپ کی ضرورت ہے۔ بچوں کے ڈاکٹر اور فیملی ڈاکٹر اینوریگزیا کی بیماری کو پہچان کر مناسب مشورہ اور علاج کرسکتے ہیں۔ اگر آپ بھی دیکھیں کہ اپنے خاندان میں کسی میں عزت نفس کی کمی ہے، خود اعتمادی نہیں ہے، وہ نارمل طریقے سے کھا پی نہیں رہے یا ان میں اپنی ہیت سے متعلق ناخوشی موجود ہے تو ان مسائل پر بات شروع کی جاسکتی ہے۔ اینوریگزیا نرووزا ان مسائل میں سے ہے جن کا علاج نہایت مشکل ہے۔

”سائنس روشنی ڈال کر وضاحت توکرسکتی ہے لیکن یہ انسانوں کے گہرے مسائل حل نہیں کرسکتی، کیونکہ معلومات کے بعد چناؤ اور عمل کا مرحلہ آتا ہے جو کہ دونوں انتہائی ذاتی چیزیں ہیں۔ “ پروفیسر پال بی سیئرز۔ یونیورسٹی آف اوکلاہوما۔ 1935


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments