ایک اور ریفارمیشن کی ضرورت


گلیلیو کی پیشی ( 1615 ) ، جوزف نیکولیس کی تصویرکشی

ہٹلر ایک ہیبت و صولت والا حکمران تھا۔ کچھ ایسی ہی بات میرے ایک دوست نے مجھے کی تھی تب یہ جملہ عجیب لگا تھا۔ کافی عرصہ بعد سوچا تو کہیں پڑھی اک بات یاد آئی کہ تاریخ کو دیکھنے کے بہت سارے زاویے ہوسکتے ہیں۔ شاید میرے دوست کا مطلب تھا کہ ہٹلر جیسا مطلق العنان کوئی نہیں گزرا۔ اب یہ بات کماحقہ درست ہے۔ میرا مقصد گو کہ آج تاریخ کو غلط مذہبی پیشوائی کے نتیجے میں پیدا ہونے والی شورش انگیزی کی نظر سے دیکھنا ہے۔

کوپرنکس نے کہا تھا کہ زمین کائنات کا محور نہیں۔ حقیقتاً یہ بات کوپرنکس نے کتابی شکل میں تب چھاپی جب وہ بسترِ مرگ پہ تھا اور اسے اپنے جلد مرنے کا یقین تھا کیونکہ دوسری صورت پاپائیت نے اس کے جلائے جانے کا انتظام کرنا تھا۔ گیلیلو نے اپنے ہی بنائے ٹیلی اسکوپ سے آسمان کا مشاہدہ کیا اور اسی نتیجے پر پہنچا کہ کائنات زمین کے گرد نہیں گھومتی۔ 1615 میں یہی بات گلیلیو نے چرچ کو سمجھانی چاہی مگر چرچ نے اس حقیقت کو بدعت قرار دیا۔

جب یہی بات گلیلیو نے اپنی کتاب میں لکھی تو 1636 میں انکیوزشن نے اسے خارجی قرار دیا اور ایسے شخص کی سزا بھلا دار پر زندہ جلائے جانے کے سوا کیا ہوسکتی ہے۔ بقول شخصے ایک فیصلہ تاریخ کرتی ہے۔ شاید ایسی آفاقی حقیقتیں کبھی کبھی اپنی پوری بدنمائی اور حیرت انگیز بے وقوفی کے ساتھ رونما ہو ہی جاتے ہیں۔ مثلا جس رومن کیتھولک چرچ نے گلیلیو کو بدعتی قرار دیا تھا اُسی چرچ نے 1993 میں تیرہ سال کی چھان بین کے بعد فیصلہ کیا کہ گلیلیو درست تھا اور چرچ غلط۔

جب وٹن برگ کے کلیسے پر مارٹن لوتھر نے اپنے 95 تھیسس کیل کی مدد سے ٹھوکے تھے تب بھی عام آدمی کے لیے سوال مختلف تھے۔ (اور شاید جواب بھی) اسی دورانیے میں ایک بغاوت بھی ہوئی تھی 1524 میں۔ یہ بغاوت غریب دہقانوں کی تھی جو کہیں چرچ اور کہیں جاگیرداروں کے محصولات تلے دب کر موت اور حیاتی کے بیچ اٹکے ہوئے تھے۔ اُن غریب روحوں کو مارٹن لوتھر اور چرچ کی طرح اس بات سے غرض کم تھی کہ آیا یسوع کی آخری روٹی اور وائن ان کے جسم کا حصہ بنی تھی کہ نہیں اور اس بات سے زیادہ کہ کیا ان کی زندگی کا روگ بنے لامحالہ محصولات کے طوق سے ان کی جان چھوٹ سکے گے۔

انڈلجنسز بیچنے والے اور کومیونین پہ لڑنے والے جانے جو ان کی لڑائی ہے عام آدمی تو صرف نجات مانگتا ہے۔ ایک سوال یہ بھی بنتا ہے کہ کیا پاپائیت کو انڈلجنسز بیچنے سے روکنے کے لیے ضروری تھا کہ اتنے بڑے پیمانے پر انسانوں کو گاجر مولی کی طرح کاٹا جاتا؟ شاید کچھ لوگ یہ سوال بھی کرے کہ اسی تناظر میں قومیت کے نام پہ دو عظیم جنگیں لڑنا کہاں کی دانشمندی ہے تو عرض یہ ہے کہ یورپ نے پروٹسٹنٹٹ ریفارمیشن اور اس کے بعد کی دین کے نام پہ لڑی جانے والی جنگوں سے اپنا سبق سیکھ لیا۔

اس کے بعد جو جنگیں ہوئی مذہں ب کی بنیاد پہ نہیں ہوئی بلکہ قومیت کے نام پہ ہوئی۔ اب قومیت جیسے کھوکھلے نعرہ سے کیا نکلا وہ بحث پھر سہی۔ آج اگر کسی کو سیکھنے کی ضرورت ہے تو وہ ہمیں ہیں۔ تنقید برداشت کرنے اور تنقیدی شعور پیدا کرنے کی ضرورت ہیں۔ ایک غیر مسلم یا دوسرے قرقے کے شخص جو بھی آپ کہنا چاہے کے حکومت کا حصہ بننے پر ملک میں فتنہ انگیزی کا بازار کیونکر گرم کیا جائے؟ یہ بات بھی تاریخ سکھاتی ہے کہ رومن کیتھولک چرچ افہام و تفہیم سے یہ پاپائیت کی غلط حرکات کا تدارک کر سکتا تھا اس کے لیے اسپین سے پولینڈ تک جنگ لڑنا ضروری تو نہیں تھا۔

Edict of Nantes جیسی چند مزید گزارشات ہی کی تو ضرورت تھی۔ یعنی کہ فیض آباد بند کرنے اور ملک میں خوف و ہراس پھیلانے کی کیا ضرورت؟ مگر شاید انسانوں میں دوراندیشی کا مادہ کم ہے اور جنونیت کا زیادہ۔ سنسر بورڈ نے جب ایک فلم کو کلیئر کرکے سرٹیفیکیٹ جاری کردیا تو پھر گھمسان کا رن ڈالنے کی کیا ضرورت؟ اور پھر یہ بھی کہ فساد ہی کیوں بپا کیا جائے۔ مفاہمت لفظ صرف سیاسی جماعتوں کی بے سر و پا سیاست کے لیے تو موقوف نہیں۔

ایک حقیقت یہ بھی ہے کہ کبھی بھی آپ اس برادری سے اپنی کالی بھیڑوں کے بارے میں کچھ نہیں سنیں گے۔ مطلب جس مجلس کو یہ صاحب بدھ کے روز مبینہ فلم کے خلاف احتجاج کی کال دے رہے تھے اسی مجلس کو یہ بھی بتا دیتے مانسہرہ میں کچھ مولوی صاحبان نے ایک 10 سالہ بچے کا ریپ کیا۔ زندگی تماشا کے ٹریلر میں جانے ایسا کیا تھا۔ آرٹسٹ وہی لکھتا دکھاتا ہے جو معاشرہ اس کے سامنے پرفارم کر رہا ہوتا ہے۔ اب زندگی تماشا پرائڈ پر تو نہیں بنی جو یہاں کے مولوی کرتے ہیں اسی کا عکس ہے۔

بدنما ہے تو ضروری تو نہیں ہر چیز سیٹائر (satire) میں لپیٹ کے دی جائے۔ یہ بھی یاد رکھیں کہ اس زمانے میں پابندیاں کسی چیز کو روک نہیں سکتی ہیں۔ اگر ایسا ہوتا تو Satanic Verses ہر جگہ دستیاب نہ ہوتی آج اور نہ ہی انٹرنیٹ پہ ملتی اور اب تو ڈاوکنز کی ’فریبِ خدائی‘ بھی اردو میں پی ڈی ایف میں مل جاتی ہے۔ ضرورت ایک ریفارمیشن کی ہے۔ ایک اچھے ریفارمیشن کی مگر پہلے اس بات کو تو مان لیں کہ ہم اجتماعی طور پہ بیمار ہیں شاید کچھ لوگ مان بھی چکے مگر بیماری طویل کرنے، مرنے یا جینے کا فیصلہ ان کا ہے جو نہیں مان رہے اور یہ وہی لوگ ہیں جو زندگی تماشا کو چلنے نہیں دے رہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments