شکر ہے اللہ نے شوہر کو سجدہ کرنے کا حکم نہیں دیا


مرد کی فوقیت ثابت کرنے کے لئے اکثر یہ حوالہ دیا جاتا ہے کہ اگر اللہ نے اپنی ذات کے بعد کسی اور ہستی کو سجدہ کرنے کا حکم دیا ہوتا تو بیوی کو یہ حکم دیا جاتا کہ وہ شوہر کو سجدہ کرے۔ مولوی حضرات خاص طور پر مرد کی برتری ثابت کرنے کے لئے قرآن و حدیث کا یہی حوالہ دیتے ہیں۔ لیکن بدقسمتی سے ہمارے ہاں بلکہ تمام مذاہب اور ثقافتوں میں مرد اپنی غالب حیثیت کا نہایت ناجائز اور غلط استعمال کرتے ہیں۔

بیک وقت چار شادیوں کی اجازت بھی اس شرط کے ساتھ ہے کہ مرد چاروں یا ایک سے زائد بیویوں میں مکمل انصاف کرے اور جو انصاف نہ کرے، وہ اللہ کی نظروں میں نہایت ناپسندیدہ ہے۔ چار شادیوں کی اجازت عیاشی اور نت نئی عورتوں سے لذت حاصل کرنے کے لئے ہرگز نہیں۔

خیر، واپس اپنے موضوع کی طرف آتی ہوں کہ اللہ نے شوہر کو سجدہ کرنے کا حکم نہ دے کر عورت ذات پر کتنی بڑی مہربانی کی ہے۔ ہمارے مرد جس طرح عورت اور بیوی سے سلوک کرتے ہیں، زمانہ جانتا ہے۔ غریب سے لے کر امیر اور ایلیٹ طبقے تک بیوی کو جیسے تین الفاظ کہہ کر فارغ کر دینے کا حق مرد کے پاس ہے، عورت جس طرح معاشرے کی حمایت نہ ملنے پر مرد کی ’جوتی کی نوک‘ پر زندگی گزارتی ہے، یہ سب کسی سے پوشیدہ نہیں۔ ہمارے ہاں وہ عورت بھی مرد کے ظلم کا نشانہ بنتی ہے جو خوش شکل و خوبصورت، سلیقہ مند، سلجھی ہوئی، تعلیم یافتہ، مہذب، امورِ خانہ داری میں ماہر، اولاد پیدا کرنے اور گھر سنبھا لنے کی صلاحیت سے بہرہ مند، اور امیر گھرانے کی ہو۔ اب اُن عورتوں کی ازدواجی زندگی کا قارئین خود اندازہ لگا لیں جو مندرجہ بالا بیان کردہ صلاحیتوں سے محروم ہیں۔

اگر شوہر کو سجدہ کرنے کا حکم بیوی کے لئے جاری کر د یا جاتا تو عورت اُس مرد کو بھی سجدہ کرتی جس کا مقام جانوروں سے کم تر اور انسانیت کے لئے باعثِ شرم ہوتا۔ تب تو زانی و بدکار، شرابی، بدصورت، غریب، بانجھ پن کا شکار، ظالم و جابر، جرائم پیشہ و سزایافتہ، بدزبان، نفسیاتی مریض، جاہل و غیر تعلیم یافتہ، احساسِ کمتری میں مبتلا، محتاج و فقیر، حتیٰ کہ وہ مرد بھی خدائی کا دعویدار ہوتا جو اپنے اہلِ خانہ کی نظروں میں بھی قابلِ عزت نہ ہو۔

ہمارے اعلیٰ ظرف مرد جس طرح کھانے میں نمک مرچ کم یا زیادہ ہونے پر کھانے کی پلیٹ دیوار پر دے مارتے ہیں، تو شاید سجدے سے انکار یا کوتاہی کے نتیجے میں عورت کو زمین میں گاڑ دیتے، یا دیواروں میں چنوا دیتے۔ پھر تو اس موضوع پر ڈرامے اور فلمیں بھی خوب بنتیں۔ جس طرح عورت کی بیوفائی اور غیر مرد کے ساتھ تعلقات کی کہانی پر مبنی ایک ڈرامہ آج کل مقبولیت کے نئے ریکارڈز قائم کر رہا ہے، تو ’شوہر کو سجدہ کرنے میں کوتاہی‘ کتنا بڑا موضوع ہوتا؟

کئی ڈرامہ اور فلم رائٹرز کو اس پر ایوارڈز ملتے اور ان کا نام کہانی نویسی کی تاریخ میں ’ناقابلِ فراموش‘ ہو جا تا۔ ڈرامے میں ایسی عورت کے لئے ’دو ٹکے کی لڑکی‘ جیسا ڈائیلاگ لکھا جا تا۔ جس طرح عائزہ خان ایک بیوفا بیوی کا ذلت آمیز کردار ادا کرنے پر میگا سٹار اور صفِ اول کی اداکاراؤں میں شامل ہو چکی ہیں، تو سوچئے کہ شوہر کو سجدہ کرنے میں کوتاہی برتنے والی بیوی کے کردار پر کتنی اداکارائیں ایوارڈز اور عوام کی تعریف و تحسین کی مستحق قرار پاتیں۔ ایسا ڈرامہ (یا فلم) بھی سوشل میڈیا کا ٹاپ ٹرینڈ بنتا۔ اسے بھی سینما گھر وں کی زینت بنایا جاتا اور عوام سوشل میڈیا پر دیوانے ہوئے ہوتے۔

خیر، ڈرامہ اور فلم سے قطع نظر حقیقی زندگی میں تو شاید ایسی بیوی کو ”ابلیس اور رائندہ درگاہ“ قرار دے دیا جاتا۔ اسلام میں تو جو سزا ہوتی سو ہوتی، اس سے زیادہ سخت اور اذیت ناک سزا تو ہمارا معاشرہ عورت کو دیتا۔ اللہ کو سجدے میں کوتاہی پر تو قضا نماز کی سہولت موجود ہے لیکن شوہر کو سجدے میں کوتاہی پر کیا یہ معاشرہ بیوی کو قضا کی سہولت دیتا؟ اس سوال کا جواب ہاں میں دینا قریباً ناممکن ہے۔

پھر یقینا یہ مقامِ ہزار شکر ہے کہ عورت کو شوہر کو سجدہ کرنے کا حکم نہ دیا گیا۔ تو کیا اس عظیم مہربانی پر خدائے بزرگ و برتر کے حضور ایک سجدہ شکر ہم مسلم خواتین پر واجب نہیں؟ اگر ہاں، تو آئیے اپنے حصے کا سجدہ شکر بجا لائیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments