ڈاکٹر شکیل آفریدی اور پولیو کے سہولت کار


بے بسی اور بے حسی کا ایک صحن میں بسیراشاذ ہی دیکھا گیا تھا مگر یہ ایک زمانہ پہلے کی بات ہے، اب ان ”سوغاتوں“ کا معاملہ، ایک ڈھونڈو ہزار ملتی ہیں، والا ہے منیر نے کہا تھا۔

چار چیزیں چپ ہیں، بحروبر، فلک اورکوہسار
دل دہل جاتا ہے، ان خالی جگہوں کے سامنے

آبادی بم کے باعث یوں تو تل دھرنے کی جگہ نہیں مگر منیر نیازی والی ”خالی جگہیں“ جابجا ہیں، خالی جگہوں پر آنے سے پہلے ایک بات یہ کہ درست جگہوں پر درست چیزوں کا موجود نہ ہونا بھی المیہ ہے۔ ”رائیٹ پرسن فار رائیٹ پلیس“ والے انگریزی مقولے کو ہم نے کوئی زیادہ اہمیت نہیں دی، اس کے استعمال کو خاطر میں لاناہماری ترجیحات کا کبھی حصہ نہیں رہا اس انگریزی مقولے سے ہم کہیں زیادہ دانشور و عقلمند ثابت ہوئے ہیں ”جس طرف چل پڑے، رستہ ہو جائے“۔

ایسی بے جا خوش گمانیوں میں مبتلا یہ معاشرہ۔ ہم اپنی برقی دانائی کی سہولت سے باقی دنیا کے باسیوں پر طنز بھی کر لیتے ہیں کہ یہ کیسے لوگ ہیں جو تالے کو اس کی مخصوص چابی کے گھمانے تک محدود کرلیتے ہیں۔ اور ہم لوگ اس تالے کو درست سمت میں کھولنے کی بجائے اسے شکست و ریخت کے عمل سے دوچار کرنے کے لیے مشغول رہتے ہیں۔

ایک عام فہم سی بات ہے جو جگہ خالی ہے اس کو پر ہونا ہی ہونا ہے جلد یا بدیر، Empty Spaces، Never Remain Vacant، forever ہمارے یہاں اس کے پر ہونے کا نداز اکثر وبیشترسہولت کاری کے لفظ سے مشروط رہا ہے جس کے لیے انگریزی کا آسان سا لفظ facilitation استعمال کیا جا سکتا ہے۔

سہولت کار کا لفظ پچھلی ایک آدھ دہائی کا سب سے زیادہ توجہ کا مرکز رہنے والا لفظ ہے، اس لفظ کو بادی النظر میں چند مخصوص الفاظ تک محدود کر دیا گیا ہے مثلا دہشت گردی، فرقہ واریت، امن کو متاثر کرنے والی کوششوں سے، حالانکہ ایسا ہرگز نہیں، اس لفظ کو ایک پرامید لفظ کے طور پر بھی استعمال کیا جا سکتا ہے، الفاظ کے استعمال کامعاملہ بھی بڑا عجیب ہے اور کسی حد تک غریب بھی کہ ان کا استعمال معاشرتی برائیوں سے نتھی ہو کر ان کے حسن کو متاثر کر ڈالتا ہے۔

ایک لفظ وسیلہ بننا ہوتا ہے اور ایک لفظ سہولت کا ری ہے۔ ان کی بے شک آپس میں کوئی رشتہ داری بھی ثابت ہوجائے مگر ہمارے ذہن میں کسی برقی رو کی مانند جو سہولت کاری کا تاثر ابھرتا ہے وہ وسیلہ سازی ایسے لطیف لفظ کی چھاپ اورکاٹ نہیں ہو سکتی، ذرا سا غور کریں تو چڑیوں کے ڈار کے لیے ایک گھنے درخت سے بڑی سہولت کاری کیا ہوگی جس کا وجود بیک وقت ان کے لیے باعث ڈیرہ بھی ہے اور باعث بسیرا، بھی راحت کاسامان بھی اورنعمت کا فیضان بھی۔

خالی جگہیں ایک حقیقت ہیں ان کی موجودگی سے انکار ممکن نہیں، ہمارا معاشرہ ایسی ہی جگہوں کے بسیرے کی پناہ میں ہے ان جگہوں کو ہمیشہ ناقابل قبول طریقوں سے استعمال میں لانے کی سعی کی گئی ہے جو عوام و جمہوریت کے حسن کو گہنا کر دے، اس کی پکار گلی گلی، محلہ محلہ، چوک چوک، شہر شہر ہے، اسی حیران کن شاعری کے بادشاہ نے کہا تھا۔

اپنے سارے عمل کا حساب کیا دیتے
سوال سارے غلط تھے، جواب کیا دیتے

ایک معاملہ کچھ سال پہلے سامنے آیا تھا جسے شکیل آفریدی کے واقعہ سے یاد کیا جاتا ہے، اس واقعہ سے جڑے کرداروں کی سہولت کاری نے ہماری نسلوں کے مستقبل کو نقصان پہنچایا ہے۔ والدین کے اعتماد کو متاثر کرنے میں اس شخص کو شاید ہی تاریخ معاف کرپائے۔ پولیوٹیم سے وابستہ ہوکر کچھ ایسے معاملات پائے گئے جنہوں نے والدین کے اذہان میں پولیو کے قطروں سے متعلق سوالات کو جنم دیا، پولیو کے قطرے ہر بچے کی صحت کے لیے لازم وملزوم ہیں۔

ایسے واقعات کا بروقت تدارک کیا جاسکتا تھا کہ کچھ موبائل ٹیمیں تشکیل دے کر لوگوں کا اعتماد بھی بحال کیا جاتا اور ان کے خدشات کو بھی رفو لگایا جاتا۔ اس افسوسناک واقعہ کے بعد پولیو ورکرز پر حملے شروع ہوگے اور سینکڑوں ورکرز زخمی بھی ہوئے اور شہید بھی، یہ وہی ماضی کی چنگاری تھی جس سے شعلے نمو پارہے تھے، اور رہی سہی کسر پھر مقدس مقامات پر ہونے والے اعلانات نے کردی۔ 2019 میں 135 پولیو سے متاثرہ کیس رپورٹ ہوئے ہیں درایں حالانکہ پچھلے سال ان کی تعداد ایک درجن بھر سے زائد نہ تھی، افسوسناک یہ کہ اب یہ سلسلہ پورے ملک میں پھیل چکا ہے۔ چاروں صوبوں سے بچوں کے متاثر ہونے کی تصدیق ہوئی ہے۔

WHO پہلے ہی ہم پر بین الاقوامی سفر پر پابندیوں کا اعلان کر چکا ہے۔ بین الا اقوامی سفر کے لیے ہر کسی کو پولیو کے قطرے پینے کے ساتھ ساتھ اس کا سرٹیفیکیٹ ساتھ رکھنا ضروری ہے۔ اس کے بغیر سفر کرنے کی اجازت نہیں، پاکستان کے ساتھ اب تک ایک ہی ملک پولیو کے وائرس کا خاتمہ نہیں کر سکا وہ ہمارا تاریخی ہمسایہ ملک افغانستان ہے۔ باقی ساری دنیا کے ممالک اس سے نجات پاچکے ہیں۔ ہماری آگاہی مہمات صرف لاکھوں کے اشتہارات چھاپنے تک ہی محدود ہیں۔

یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ پولیو وائرس یا ڈینگی وائرس کے خاتمے کے لیے کوئی توپ وگولہ سے لیس آپریشن کرنے کی ضرورت ہر گز نہیں، ضرورت ایک پالیسی اور اس پر عمل کی ہے جن علاقوں میں لوگ بچوں کو پولیوکے قطرے پلانے سے انکار کر دیتے ہیں۔ وہاں اس علاقے کے باسی، سیاسی خدمتگار وں کو اس سلسلے میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینا چایئے اور ورکرز کے ساتھ پر تشددواقعات کی روک تھام کے لیے ضلعی انتظامیہ کو ذمہ داری لینی چاہیے۔ اس کے لئے قانون سازی کی ضرور ت ہے۔

الفاظ برے نہیں ہوتے ان کے ساتھ جڑے ہوئیے غیر ضروری جذبات، احساسات، خواہشات اور عوام کی سہولیات سے متصادم پالیسیاں ہوتی ہیں جو ان کی مٹھاس میں زہر گھول دیتی ہیں۔

ڈاکٹر عثمان غنی، میرپور
Latest posts by ڈاکٹر عثمان غنی، میرپور (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments