ان ہاﺅس تبدیلی کی افواہیں: عمران خان کے پاس کیا آئینی راستے موجود ہیں؟


پی ٹی آئی کی حکومت کی کارکردگی اور دیگر معاملات کے تناظر میں وفاق اور پنجاب میں تبدیلی کی باتیں زور پکڑ رہی ہیں۔ حکومت کے اتحادی آنکھیں دکھا رہے ہیں۔ پنجاب میں پی ٹی آئی کا فاروڈ بلاک بن گیا ہے۔ سیاسی پنڈت عمران خان کی حکومت کے جانے کی تاریخیں دے رہے ہیں۔ باخبر ہونے کے دعویدار بعض صحافیوں کا کہنا ہے کہ وزیراعظم عمران خان کو اپنی حکومت کے جانے کا یقین ہو گیا تو وہ خود ہی قومی اسمبلی توڑ دیں گے۔

ایک اینکر پرسن نے کہا ہے کہ اگر وزیراعظم اسمبلی توڑنے کی ایڈوائس دیں گے تو صدر اسے منظور نہیں کریں گے۔ اس پر سوال اٹھایا گیا ہے کہ کیا اسمبلی کی تحلیل کے لئے صدر مملکت کی منظوری ضروری ہے؟ کیا وزیراعظم کو اسمبلی کی تحلیل سے روکنے کا کوئی آئینی راستہ موجود ہے؟ کیا18ویں آئینی ترمیم کے بعد بھی صدر کو قومی اسمبلی تحلیل کرنے کا صوابدیدی اختیار حاصل ہے؟

آئین کے تحت وزیراعظم کو یہ اختیار ہے کہ وہ کسی بھی وقت کوئی وجہ بتائے بغیر قومی اسمبلی کی تحلیل کی ایڈوائس صدر مملکت کو بھیج سکتے ہیں۔ دستور کے آرٹیکل58 کے مطابق وزیراعظم کی ایڈوائس کے بعد صدر مملکت قومی اسمبلی توڑنے کا حکم نامہ جاری کریں گے۔ اگر صدر مملکت 48 گھنٹے کے اندر ایسا حکم نامہ جاری نہیں کرتے تو 48 گھنٹوں کے اختتام پر اسمبلی تحلیل ہو جائے گی اور اس بابت کسی صدارتی فرمان کی ضرورت نہیں ہو گی۔ چنانچہ آئینی طور پر صدر پاکستان کے پاس ایسا کوئی اختیار نہیں کہ وہ وزیراعظم کی اسمبلی تحلیل کرنے کی بابت ایڈوائس کو روک سکیں۔

دوسری طرف، اگر وزیراعظم اسمبلی توڑنے کا ارادہ کر لیں تو انہیں اس اقدام سے کیسے روکا جا سکتا ہے؟ آئین کے آرٹیکل 58 ہی کے مطابق قومی اسمبلی میں عدم اعتماد کی قرارداد کے لئے نوٹس دیے جانے کے بعد وزیراعظم اسمبلی تحلیل نہیں کر سکتا۔ دوسرے لفظوں میں اگر وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی قرارداد پیش ہو جائے تو وہ اسمبلی توڑنے کا اختیار کھو دیتا ہے۔ وزیراعظم کے خلاف قومی اسمبلی کی کل نشستوں میں سے کم ازکم 20 فیصد ارکان عدم اعتماد کی تحریک پیش کرسکتے ہیں۔ قومی اسمبلی کی کل نشستیں 342 ہیں۔ آئین کے آرٹیکل 95 کے تحت 69 ارکان اسمبلی وزیراعظم کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک پیش کر سکتے ہیں۔

اس وقت قومی اسمبلی میں پی ٹی آئی کی 156 جبکہ اس کی اتحادی جماعتوں کے ارکان کی تعداد 21 ہے۔ اس کے علاوہ وزیراعظم کو سات دیگر ارکان کی حمایت بھی حاصل ہے جبکہ قومی اسمبلی میں حزب اختلاف میں شامل سیاسی جماعتوں کے ارکان کی مجموعی تعداد 158 ہے۔ واضح رہے کہ آئین کا آرٹیکل 58 (2) بی ختم ہو چکا ہے جس کے تحت صدر کو بھی اسمبلی توڑنے کا اختیار حاصل تھا،

18ویں آئینی ترمیم کے ذریعے آرٹیکل 58 (2) بی کے خاتمہ کے بعد بھی صدر کے پاس خاص حالات میں اسمبلی توڑنے کا صوابدیدی اختیار موجود ہے۔ آئین کے آرٹیکل 58 (1) کی وضاحتی شق 2 میں کہا گیا ہے کہ اگر وزیراعظم کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک منظور ہو جاتی ہے اور اس کے بعد قومی اسمبلی کا کوئی رکن مطلوبہ اکثریت حاصل نہیں کر پاتا تو صدر کو اختیار حاصل ہے کہ وہ اسمبلی تحلیل کر سکتا ہے۔

وزیراعظم کے انتخاب کے لئے ضروری ہے کہ اسے 172 ارکان اسمبلی کی حمایت حاصل ہو۔ تحریک عدم اعتماد منظور ہونے کے بعد اگر نئے وزیراعظم کے انتخاب کے لئے منعقد کئے گئے قومی اسمبلی کے اجلاس میں وزارت عظمیٰ کا کوئی امیدوار 172 ارکان کی حمایت حاصل نہیں کر پاتا تو صدر مملکت کو اختیار ہوگا کہ وہ اسمبلی تحلیل کر کے نئے الیکشن کا اعلان کر دیں۔

آئین کے آرٹیکل 48 کے تحت صدر مملکت اپنے فرائض کی انجام دہی کے لئے کابینہ یا وزیراعظم کے مشورہ کے پابند ہیں لیکن اسمبلی کی تحلیل کے مذکورہ آئینی طریقہ کار کے تحت انہیں کسی کے مشورہ کی ضرورت نہیں ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments