اردو زبان ہمارا اثاثہ ھے


اخبار، کُتب بینی سے الگ طرز کا مطالعہ ہے جو کے ٹیکنیکی صلاحیتیوں کا حامل ہوتا ہے۔ اخبار تقریباً ہر وہ بندہ پڑھ سکتا جس کو اردو پڑھنا آتا۔ آج کل اس شوشل میڈیا اور ٹیکنالوجی کے عہد میں زیادہ تعداد ان افراد کی ہے جو عمر رسیدہ اور پرانے وقتوں کے تعلیم یافتہ ہیں۔ نئی نسل اخبار سے کیا نصاب کے مطالعہ کی عادت بھی نہی رکھتی اور سافٹ فارم میں نصاب کو موبائل میں امتحان سے ایک دن پہلے پڑھنے کی عادی ہے۔ آج کل تعلیمی نظام انشائیہ کم اور معروضی زیادہ ہے۔ مطلب نمبروں کے لئے الفاظ اور مضمون کو تہہ تک جانے کی بجائے سرسری سا مطالعہ کروانا مقصود ہوتا ہے جو نسل کی وکیبلری میں اضافہ کی بجائے کمی کا باعث بنتا ہے۔

گزارش ہے کہ موصوف سرکاری سکول میں معلم کے فرائض سر انجام دے رہے ہیں۔ سکول کا عملہ 21 افراد پر مشتمل ہے جس میں میٹرک سے لے کر ایم فل تک تعلیم تافتہ معلم تعلیمی فرائض ذمہ داری سے نبھا رہے ہیں۔ اور ایک ورسٹائل خیالات اور قابلیت کا گڑھ بنا ہوا سکول ہے۔ اُردو ہماری قومی زبان ہے اور ایک وسیع الطرز، پچیدہ، اور سُہ معنی زبان ہے۔ اردو میں مہارت حاصل کرنا ایسا ہی ہے جیسے الجبرا کے مسائل۔ اور ہمیں کتنی اردو آتی ہے اس بات کا اندازہ ان دو آپبیتی مثالوں سے بخوبی ہو گا۔

”ایک دن اردو کے استاد چہارم کلاس کے بچوں کو اردو پڑھا رہے تھے سبق مں لفظ“ کتابچہ ”آیا۔ استاد نے اس کو“ کُتا۔ بچہ ”پڑھایا۔ ایک دن اردو میں لفظ“ پھپوندی ”کو اسی استاد نے“ پُھپو۔ ندی ”پڑھایا۔ انگریز فلاسفر کا قول ہے“ قوموں کی پہچان اُ ن کی مقامی زبان سے محبت پر مبنی ہوتی ہے۔ میرے مطابق زبان انسان کی عکاسی کرتی ے کہ وہ اپنے ملک اور قوم سے اور زبان سے کتنی الفت کرتا ہے۔

واپس عنوان پر آتے ہیں۔ سکول میں اخبار روزانہ کی بنیاد پر میسر ہوتا ہے۔ موٹی سُرخیوں کے بعد اخباری مطالعہ کالمز تک جاتا ہے۔ اخبار میں چند کالم نگار وکیبلری کا خاص خیال رکھتے ہیں اور آسان الفاظ کا چناؤ کرتے ہیں اور ان کی بات پڑھنے والے کو سمجھ بھی آتی ہے۔ اور وہ شوق سے اس کالم نگار کا کالم پڑھنا پسند کرتے ہیں۔

میں شعبہ سیاسیات کا طالب علم ہوں تو کالم شوق سے پڑھتا۔ باقی استاد پوچھتے کہ کون سا پڑھنے کے قابل کون سا نہی۔ وجہ الفاظ کا چناؤ کہ بات سمجھ بھی آئے نہی تو کہتا ”آج ایویں ای صفحے کالے کیتے نے ایناں“۔ حالانکہ میرا اپنا ہاتھ اردو میں تنگ ہے۔ مگر بتاتا اس لئے کہ سر پکڑ کر نہ بیٹھ جائے۔

مورخہ 22 جنوری کو جناب حسن نثار صاحب کا کالم جنگ اردو اخبار میں کرپشن کیا ہے بتانے کے لئے لکھا گیا۔ محترم حسن نثارکا کتابی مطالعہ میں ثانی نہی۔ معذرت سے انہوں نے کرپشن کی تعریف (ڈیفینیشن) اردو کی بجائے انگلش کے الفاظ میں کی۔ اُن کے کالمز کا زیادہ تر حصہ انگلش کی لائنز پر مشتمل ہوتا۔ جو کہ ایک میڑک پاس یا جس کا انگلش میں ہاتھ تنگ ہے کو ککھ سمجھ نہی آتا آُلٹا غصہ کا اظہار کرتا۔ مجھے لگتا وہ صرف پڑھے لکھے طبقے اور اشرافیہ کو اپنا محور مانتے ہوئے لکھتے۔

متوسط طبقہ یا کم پڑھے لوگوں کے لئے اتنا کتابی انسان کیوں نہی لکھتا؟ میری حسن بثار صاحب سے گزارش ہے کہ اخبار زیادہ تر وہ لوگ پڑھتے جو ٹیلی ویڏن سے پرہیز کرتے اور کم مضموں پر عبور رکھتے۔ مہربانی کرے اور کالم کو ان لوگوں کے لیے بھی لکھے جو زیادہ تعلیم یافتہ نہی ہیں۔ ویسے بھی میرے تجزیے کے مطابق اخباری مطالعہ سے پڑھے لکھا طبقہ گریز کرتا۔ اگر آپ اردو میں کرپشن کو ڈفائن کرتے تو جہاں پچاس لوگوں کو سمجھ آئی وہاں سو سے زائد لوگوں کو آتی۔ اگر تو آپ کی آڈییانس زیادہ پڑھا لکھا طبقہ اور حکومتی نمائندے ہیں نہ کہ عام آدمی پھر آپ کا طریقِکار بالکل درست سمت ہے۔

دوسری طرف محترم وجاہت مسعود صاحب بہت بہترین لکھتے ہہیں۔ ان کے کالم کے بارے میرے جاننے والے یہ رائے دیتے کے ”یار ایہہ بندہ فارسی کے الفاظ اپنے کالم کے لئے منتخب کرتا۔ “ ان کا کالم اردو میں ہوتا اور انتہا کی پچیدہ اردو مطلب مجھے الفاظ سمجھنے کے لئے اردو گرائمر خریدنی پڑ گئی۔ سر گزارش ہے کہ اگر مشکل الفاظ کو استعمال کرے تو ان کا مطلب بھی لکھا کرے تاکہ آپ کا پیغام لوگوں تک پہنچ سکے۔ میں صرف ردخواست گزار ہوں میری جسارت تو نہی مگر پھر بھی درحواست گو ہوں محترم حسن نثار اور وجاہت مسعود صاحب سے۔ دوسری طرف محترم عطا الحق قاسمی صاحب، حامد میر صاحب، یاسر پیرزادہ اور امر جلیل، ڈاکٹر صفدر اور ایاز میر صاحب کو لوگ شوق سے پڑھتے ان کے آسان الفاظ کے چناؤ کی وجہ سے۔

اردو میں نالائقی کا رونا صرف ناقص تعلیمی نظام کی پیداوار ہے۔ اردو کو صرف مضمون کے طور پر پڑھایا جاتا ہے نہ کے زبان کے حوالے سے۔ آج کل تو نصاب میں گرائمر بھی مختصر کر دی گئی ہے اور اردو کو صرف ایک مضمون بنا دیا گیا ہے۔ گزارش ہے کہ اردو کے فروغ کے لئے چھوٹے چھوٹے سیمنار منعقد کروائے جائے۔ اور اس کی تعلیم پر خاص توجہ دی جائے کیونکہ یہ اردو ہمارا اثاثہ ہے۔

مگر انگریزی نظام تعلیم نے اردو کا بیڑاغرق کر دیا ہے اس کو پچھے ڈھکیل دیا ہے۔ اور لوگو جدیدیت پسندی کو بطور فیشن اپناتے ہوئے اپنے کلچر روایات اور زبان کا استعمال باعث شرمندگی سمجھتے۔ انگریز جب بھی بات کرتے تو وہ ملکوں کے کلچر اور زبان سے خود میں فرق محسوس کرتے جبکہ ہم نقل کر کے خود کو تیس مار خان سمجھتے۔ اس نسل کو کون سمجھائے کہ اپنا کلچر اور زبان ہماری نمائندگی کرتے ہوئے ہمیں دوسری قوموں اور ملکوں سے علیحدہ کرتے۔

اردو ہمارا اثاثہ ہے۔ اس سے کسی کی زہانت کا اندازہ نہی لگا سکتے اور نہ ہی نالائقی کا۔ بات وہ ہوتی جو سمجھ آئے نہ کہ جو ایک کان سے سنے دوسرے سے نکال دے۔ گزارش ہے کہ اردو کو فروغ دینے کے لئے اقدام بروقت کیا جائے۔ اوراردوکو مضمون سے نکال کر ایک زبان کی طرف فروغ دیا جائے۔ یہ نہ ہو کل کو ہمارے بچے بھی ”کتابچہ کو کُتا۔ بچہ پڑھے۔ اور تحمّل کو تُحمل“۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments