فقیر حکمران اورنگ زیب کیسے گزارا کرتا تھا؟


کپتان پہلا درویش حکمران نہیں ہے جو فقر میں بادشاہی کرتا ہے۔ اس سے پہلے اورنگ زیب عالمگیر نے بھی کشورِ ہندوستان کا تخت سنبھالا اور تاج سر پر رکھا تو فقر اختیار کر لیا، اور ایسے بادشاہت کی کہ اس کے مخالف بھی اس کی تعریف کرنے پر مجبور ہوئے۔ خیر ہمارے خونی لبرل تو دیسی مورخین کی بات نہیں مانیں گے، انہیں مشہور برطانوی مورخ مورخ سٹینلے لین پول کی کتاب ”اورنگ زیب اور مغل سلطنت کا گلاؤ سڑاؤ“ سے اورنگ زیب کی عظمت کا حال بتاتے ہیں۔

اس کتاب کو پڑھ کر ہمیں علم ہوا کہ اورنگ زیب ایسا خدا خوفی کا جذبہ رکھتا تھا کہ جب 1665 میں ہندوستان کے آسمان پر چار ہفتوں کے لئے ایک شہاب ثاقب نمودار ہوا تو اورنگ زیب کی خوراک باجرے کی چھوٹی سی روٹی اور معمولی سے پانی پر محدود ہو گئی۔ وہ ننگی زمین پر سوتا تھا اور صرف شیر کی کھال اوپر اوڑھتا تھا۔ اس کے بعد سے اس کی صحت کبھی اچھی نہیں رہی۔

چالیس کروڑ اشرفیوں کی سالانہ آمدنی والی کشور ہندوستان کا مطلق العنان شہنشاہ بنتے ہی اس نے درویشی اور فقر اختیار کیا اور اپنی بیشتر جاگیروں کی آمدنی خیرات کر دی اور چند دیہات اور نمک کے چند پیداواری قطعات کی آمدن پر گزارا کرنا شروع کر دیا۔

ظاہر ہے کہ نمک بیچ کر آدمی کتنا کما سکتا ہے جبکہ اس کا زیادہ وقت گھر سے دور سفر میں ہی گزرتا ہو۔ اورنگ زیب کو بھی پریشانی ہوئی کہ کم آمدنی میں کیسے گزارا کرے۔ اس نے فارغ وقت میں ٹوپیاں بننی شروع کر دیں جو اتنی اچھی تھیں کہ سلطنت دہلی کے امیر کبیر اور فیشن کانشئیس درباری بھی ان کے مداح بن گئے۔

لین پول نے تو نہیں لکھا مگر روایت ہے کہ جیسے ہی شہنشاہ ٹوپی بن کر فارغ ہوتا تھا تو جس درباری وزیر کے نصیب جاگتے تھے، اس کی محل سرا میں ٹوپی بھیج دیتا تھا۔ اب درباری اتنی بہترین کوالٹی کا مال دیکھ کر بے چین ہو جاتا تھا کہ کہیں اسے کوئی دوسرا وزیر نہ خرید لے اور شہنشاہ کے دل میں خیال آئے کہ وہ بد ذوق ہے اور اسے اچھی ٹوپی کی پہچان نہیں ہے۔ وہ اپنی استطاعت سے بڑھ چڑھ کر شہنشاہ کے خادم کو ٹوپی کی قیمت ادا کرتا تھا اور اپنا دیوالیہ نکلنے کی بھی پروا نہیں کرتا تھا۔ یوں اس وقت تک اورنگ زیب کی دال روٹی چل جاتی تھی جب تک وہ کسی دوسرے وزیر کو اگلی ٹوپی پہنانے کی تیاری نہیں کر لیتا تھا۔

آج کل کپتان بھی پریشان ہے کہ تنخواہ میں اس کا گزارا نہیں ہوتا۔ اگر وہ اورنگ زیب عالمگیر کے نقش قدم پر چلے تو ہمیں یقین ہے کہ ملک کے بڑے بڑے امرا و رؤسا اس کی تیار کردہ ٹوپی پہننا اپنے لئے عزت کا باعث گردانیں گے۔ بلکہ ہمیں یقین ہے کہ کپتان کی یہ ٹوپیاں اس کی کابینہ ہی خرید لے گی۔ اگر کپتان کا محض نام استعمال کرتے ہوئے کپتان چپل، کپتان چورن اور کپتان نسوار بنا کر لوگ اتنے پیسے کما رہے ہیں تو اوریجنل کپتان ٹوپی کی ڈیمانڈ اور قیمت کا اندازہ آپ خود لگا سکتے ہیں۔

فری مارکیٹ کا اصول ہے کہ جو چیز جتنی کمیاب ہو، اتنی زیادہ مہنگی بکتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ لیونارڈو ڈاونچی کی مونا لیزا کروڑوں ڈالر کی بکتی ہے جبکہ ہمارا اس سے بہتر رنگوں اور کینوس سے بنایا ہوا پورٹریٹ چند سو روپے کی قیمت بھی نہیں پاتا ہے۔ کپتان ظاہر ہے کہ دو چار ہفتے میں ہی ایک ٹوپی تیار کر سکے گا، اس لئے اس کمیاب جنس کی قیمت کروڑوں میں ہو گی۔

کپتان بھی درویش حکمران ہے اور اورنگ زیب کی درویشی بھی ضرب المثل ہے۔ دونوں میں بعض دیگر چیزیں بھی مشترک ہیں۔ مثلاً ممتاز مورخ ابن انشا تاریخ ہند بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ اورنگ زیب نے کبھی کوئی نماز قضا نہ کی۔ کپتان بھی نماز کا پابند ہے۔ ابن انشا نے آگے جو لکھا ہے وہ بھی دونوں میں مشترک دکھائی دیتا ہے۔ بہتر ہے کہ کپتان بھی گزارے کے لئے اورنگ زیب کے نقش قدم پر چلے۔

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments