ہمیں عالمی نہیں، پاکستانی مکالمے کی ضرورت ہے


محترم وجاہت مسعود صاحب لکھتے ہیں :

”ہمیں ایک عالمی جمہوری مکالمے کی ضرورت ہے جس میں سیاست، فلسفے، معیشت، سائنس، قانون، تاریخ اور فنون عالیہ کے چنیدہ نمائندے مل بیٹھیں۔ اسے Human Riposte Commission کا نام بھی دیا جا سکتا ہے۔ “

فدوی وجاہت مسعود صاحب سے بالکل متفق ہے لیکن کیا ہمیں اس ”عالمی جمہوری مکالمے“ سے پہلے ”ملکی انسانی مکالمے“ کی ضرورت نہیں؟ عالم کی بات تو تب ہو جب اپنے گھر میں اس کی کوئی مثال موجود ہو۔ اگر ہم اپنے گھر یعنی پاکستان میں جھانک کر دیکھیں تو معلوم ہو کہ ہم یہ مکالمہ اپنے ملک میں نہیں کروا سکتے چہ جائیکہ عالمی مکالمہ جات کی بات ہو۔ ہر روز دن ڈھلتے ہی درجنوں پاکستانی چینلوں پر ٹاک شوز پر مکالے کی بیٹھک سجتی ہے۔

اس کا حال اگر دیکھ لیا جائے تو شرمندگی سے سر اُٹھانے کی گنجائش باقی نہ رہے۔ دوسرے کو زچ کرنے کی جدو جہد میں مبتلا ہر شریک مکالمہ میں وہ وہ ہتھکنڈے استعمال کرتا ہے جو شریف انسان سوچتا بھی نہیں۔ جھوٹ، فریب، ہرزہ سرائی، مداہنت، خوشامد تو معمولی باتیں ہیں۔ یہاں تو عزتیں اچھالی جاتی ہیں۔ ننگی گالیاں دی جاتی ہیں بلکہ بعض دفعہ تو نوبت گریبان پکڑنے تک آ جاتی ہے۔ تو ہم کیسے ”عالمی جمہوری مکالمے“ کی بات کرتے ہیں؟

اگر محترم وجاہت مسعود صاحب کی مراد یہ ہے کہ پاکستان کے پڑھے لکھے فلسفی، معیشت دان، سائنس دان، تاریخ دان وغیرہ اس کا حصہ بنیں تو بھی اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ کیونکہ یہ لوگ بھی ”صادق و امین“ والی شق پر پورا نہیں اتر پاتے۔ جس بچی کو دنیا میں تعلیم اور حقوق نسواں کا علمبردار قرار دیا گیا۔ اور کم عمر ترین نوبل انعام یافتہ ہونے کا اعزاز ملا اس کو تو ہم پاکستانی مانتے ہی نہیں۔ بلکہ پاکستان میں اس کے لئے رہنے کی جگہ تک نہیں۔

وہ کیسے پاکستان کی نمائندگی کرے گی؟ جس معیشت دان عاطف میاں کا لوہا ساری دنیا میں مانا جاتا ہے اس کو تو ہم پاکستانی advisory committee کا رکن بنانے پر سیخ پا ہو جاتے ہیں وہ کیسے پاکستان کی نمائندگی کرے گا؟ سائنس میں ایک ہی سپوت پاکستان کا نام روشن کر سکا پراس کے ”کافر اور غدار“ ہونے کا سرٹیفکیٹ پاکستانی کی ہر گلی میں تقسیم ہوا۔ اس کے بعد سے کسی میں اس میدان میں آنے کی جرأت نہ ہوئی۔ ہیومن رائٹس کی کوئی بات کرے تو اس پر ”یہودی ایجنٹ“ ہونے کا لیبل لگا دیا جاتا ہے۔

تاریخ کو جس طرح ہم نے مسخ کیا اس کا بھی حال سب جانتے ہیں۔ بلکہ یہاں تو افسانہ نگار اور ناول، ڈرامے لکھنے والوں کو بھی اپنے دامن بچانے کی فکر لاحق ہے۔ خلیل الرحمن قمر اور سرمد کھوسٹ کی مثال بالکل تازہ ہے۔ گویا اختلاف قابل قبول نہیں۔ دلائل دینا تو دور کی بات ہے۔ اختلاف رائے برداشت کرنے کی کسی بھی شعبہ میں گنجائش نہیں۔ تو مکالمہ کیسا؟

عالمی مکالمے سے پہلے ہمیں ملکی مکالمہ کروانا چاہیے۔ جس کا ایک ہی نکتہ ہو۔ اور وہ ہو انسانیت۔ پاکستان میں کون انسان کہلانے کے لائق ہے اور کون نہیں۔ پاکستان میں کس کو فکری آزادی ہے اور کس کو نہیں۔ پاکستان میں آزادی ضمیر کس حد تک ہے۔ پاکستان میں مذہبی آزادی کس کو حاصل ہے۔ یہاں تو جو انسان اپنے حق کی بات کرے وہ بھی غدار ہے اور جو دوسروں کے لئے جدو جہد کرے وہ بھی ”کافر“۔

ستر سال سے داخلی انتشار کے شکار ملک کو ایک ملکی مکالمے کی ضرورت ہے۔ اس ملکی مکالمے میں ہر طبقے کے لوگ شامل ہوں۔ اس ملکی مکالمے میں زندگی کے ہر شعبہ کے لوگ شامل ہوں۔ اس ملکی مکالمے میں ہر مذہب اور فرقہ کے لوگ شامل ہوں۔ اگر یہ مکالمہ کامیاب ہو گیا تو پھر ہم عالمی مکالمے کا رخ کر سکتے ہیں۔ اگر یہ مکالمہ ناکام ہوا (جس کی ناکامی یقینی ہے کیونکہ ہم ایسی قوم ہیں جو جہالت کی گہرائیوں میں ڈوبی ہوئی ہے اور اس سے نکلنے کے لئے کسی مسیحا کا انتظار کر رہی ہے خود اپنے آپ کو نکالنے کے لئے ہر گز تیار نہیں ) تو پھر عالمی مکالمے کا موضوع ہی زیر بحث نہیں آئے گا۔

وجاہت مسعود صاحب کی یہ بات تو بالکل درست ہے کہ

” اس مجلس میں کم از کم ایک تہائی شرکا کی عمر تیس برس سے کم ہو کیونکہ آج دنیا کی اوسط عمر تیس برس سے کم ہے۔ “

آج کل کی نوجوان نسل میں شعور بیدار ہو رہا ہے۔ سوشل میڈیا نے اس میں بہت اہم کردار ادا کیا ہے۔ اگر ہم وہ کام کرنا چاہتے ہیں جو پچھلے ستر برس میں نہیں کر سکے تو اس نسل کے ذریعہ کر سکتے ہیں۔ یہ نسل اگر ملکی مکالمہ کرنے میں کامیاب ہو گئی تو پھر ہم عالمی مکالمے کی زحمت گوارا کر سکتے ہیں۔ لیکن پھر بات وہی ہے کہ اس نسل میں بھی وہ پاکستانی جن میں شعور اور بیداری پیدا ہو گئی ہے اور جو اس ملک کا نام روشن کر سکتے ہیں ان میں سے ایک بڑی تعداد پاکستان سے باہر زندگی گزار رہی ہے۔ اگر ان کو بھی اس مکالمے میں شرکت کرنے پر آمادہ کر لیا جائے تو شاید ہمارے ملک سے نفرت اور کوتاہ نظری کا وہ گھنا درخت جڑ سے اکھاڑ دیا جائے جس نے اس ملک کی بربادی میں اہم کردار ادا کیا۔

اس مکالمے کی کامیابی کی بنیاد صرف اس پر ہو سکتی ہے اگر اس میں شریک ہر فرد کو انسان کی نظر سے دیکھا جائے۔ کسی پر مرد و عورت، مسلم و کافر، عالم و جاہل، حسب و نسب کا ٹیگ نہ لگایا جائے۔ اگر یہ ہوجائے کہ پاکستان میں ایک انسان کو صرف انسان ہونے کی حیثیت سے دیکھا جائے تو ہمارے قدم تعمیر و ترقی کی طرف ہوں گے نہیں تو اسی اندھیری رات میں چلتے جائیں گے جس میں ابھی چل رہے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments