میرا دماغ، میری مرضی


ہمارے دماغ کے دو حصے ہیں، ایک خود کار اور دوسرا سوچنے سمجھنے والا، یہ حصے دو مختلف طریقوں سے کام کرتے ہیں، دماغ کا خودکار نظام الہامی انداز میں چلتا ہے، یعنی جونہی آپ کو کوئی معاملہ پیش آتا ہے یہ نظام از خود نوٹس لے کر اُس معاملے کی پڑتال کرتاہے اور پھرآناً فاناً کوئی حل تجویز کر دیتا ہے۔ دماغ کا دوسرا حصہ سوچ بچار کا کام کرتا ہے یعنی جب کوئی گمبھیر مسئلہ پیدا ہوتا ہے تو اسے سلجھانے کے لیے یہ دوسرا نظام بیدار ہو جاتا ہے اور مسئلے کی ہر ممکنہ زاویے سے کھوج لگانے کے بعد دانشمندانہ حل ڈھونڈ نکالتا ہے۔

دماغ کا خود کار نظام فوری ردعمل کے تحت کام کرتا ہے، مثلا اگر آپ ٹرین میں سفر کر رہے ہوں اور ٹرین اچانک خوفناک آواز کے ساتھ رُک جائے تو لا محالہ آپ کی تمام تر توجہ اُس طرف مبذول ہو جائے گی اور نا چاہتے ہوئے بھی آپ کا دماغ یہ سوچنے لگے گا کہ ایسا کیا ہوا کہ ٹرین رُک گئی جبکہ دماغ کے دوسرے حصے پر ہمارے شعور کا اختیار ہوتاہے اوریہ حصہ مسئلے کی چھان بین کے بعد ہمیں کسی فیصلے پر پہنچنے میں مدد کرتا ہے۔

دماغ کے یہ دونوں سسٹم بہت دلچسپ طریقے سے کام کرتے ہیں، مثلا ً اگر آپ سے پوچھا جائے کہ ایک بلے اور گیند کی کُل قیمت ایک ڈالر دس سینٹ ہے اور بلّے کی قیمت گیند سے ایک ڈالر زیادہ ہے تو گیند کی قیمت کیا ہوگی؟ فوری طور پر آپ کے ذہن کا خود کار نظام چالو ہو جائے گا اورجواب دے گا، دس سینٹ۔ یہ غلط جواب ہوگا۔ اگر آپ تسلی سے دوبارہ سوچیں گے تو آپ کے ذہن کا دوسرا حصہ جاگ جائے گا اور آپ کو درست جواب بتائے گا جو پانچ سینٹ ہے۔ ہوتا یہ ہے کہ اِس قسم کے سوال کے جواب میں ہمارا ذہن فوری طور پر آٹومیٹک نظام کے تحت چل پڑتا ہے اور کھٹ سے جواب نکال کرسامنے رکھ دیتا ہے کیونکہ ہمیں لگتا ہے کہ سوال بہت ساد ہ ہے لہذا دماغ کے دوسرے نظام کو کھپانے کی کوئی ضرورت نہیں اوریہی ہماری غلط فہمی ہے، زندگی میں بہت سے فیصلے ہم اسی غلط فہمی کے تحت کرتے ہیں اور نقصان اٹھاتے ہیں۔

کسی مسئلے کے بارے میں ہمیں لگتا ہے کہ بہت سیدھا ہے چنانچہ لا شعوری طور پرہم دماغ کے خود کار نظام کے تحت اسے ڈیل کرتے ہیں جبکہ ضرورت اِس بات کی ہوتی ہے کہ پہلے یہ جان لیں کہ آیا یہ مسئلہ خود کار نظام کے تحت حل ہونے والا ہے یا سوچ بچار کے بعد نتیجہ نکالنے والا! انسانی دماغ کی اِن چالوں کو بے نقاب کرنے کا سہرا نوبل انعام یافتہ ماہر معاشیات ڈینئل کاہنمین کے سر جاتا ہے جنہوں نے یہ دلچسپ تھیوری اپنی کتاب Thinking Fast and Slow میں بیان کی ہے۔

یہ کتاب ڈینئل کاہنمین کی کئی دہائیوں پر محیط تحقیق کا نچوڑ ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ انسان کیسے سوچتے ہیں، سوچنے میں کیا غلطی کرتے ہیں اور اِن غلطیوں سے بچ کر زندگی میں درست فیصلے کیسے کیے جا سکتے ہیں۔ جولوگ یہ راز جاننا چاہتے ہیں اُنہیں یہ کتاب سرہانے رکھ کر سونا چاہیے۔ بلکہ بہتر ہے کہ سونے سے پہلے وہ اس کا کوئی حصہ پڑھ لیا کریں تاکہ فائدہ بھی ہو سکے۔

ڈینئل کاہنمین کہتا ہے کہ لوگ سوچنے میں عموماً جلد بازی کرتے ہیں، دماغ سے زیادہ کام نہیں لیتے اور حقائق کی تفصیل جاننے کی بجائے چیزوں کو عمومی انداز میں پرکھ کر فیصلے کرتے ہیں جو درست طریقہ نہیں، مثلاً اگر ہم کسی اجنبی سے ملیں اور وہ نہایت گرم جوشی سے مصافحہ کرے، ہمارا حال احوال پوچھے اور دو چار منٹ کی گفتگو کے دوران اخلاق سے پیش آئے تو ہم اپنے ذہن میں اُس کا ایک خاکہ سا بنا لیں گے اور اگر کچھ دن بعد کوئی تیسرا شخص ہم سے اُس اجنبی کے بارے میں پوچھے کہ کیا وہ کسی خیراتی کام کے لیے مدد کر سکے گا تو شاید ہمارا جواب ہاں میں ہوگا حالانکہ اس کی کوئی ٹھوس وجہ نہیں ہوگی۔

دراصل ہمارے دماغ میں وہ باتیں راسخ ہو جاتی ہیں جن کے بارے میں ہم زیادہ سنتے اور دیکھتے ہیں اور پھر کسی معاملے پر فیصلہ کرتے ہوئے وہی باتیں ”حقائق“ بن کر ہمارے سامنے آ جاتی ہیں اور ہم سمجھتے ہیں کہ حقائق کی بنیاد پر فیصلہ کر رہے ہیں حالانکہ ایسا نہیں ہوتا۔ مثلاً کار حادثے میں ہلاک ہونے والے لوگوں کی تعداد اُن سے کم ہے جو فالج سے مرتے ہیں لیکن ایک تحقیق کے مطابق اسّی فیصد لوگ اِس کے بر عکس سمجھتے ہیں کیونکہ اُن کے ذہنوں میں کسی حادثے کی خوفناک تصویر زیادہ راسخ ہوتی ہے اور حادثات کی خبریں میڈیا پر ہیجان انگیز انداز میں نشر کی جاتی ہیں۔

ڈینئل کاہنمین کے مطابق لوگ حقائق کی پڑتال کرتے ہوئے بھی غلطی کرتے ہیں، وہ ایک مثال دیتا ہے کہ اگر کسی کمپنی کی اسّی فیصد ٹیکسیاں سرخ رنگ کی ہوں اور بیس فیصد سفید رنگ کی تو یہ ”base rate“ ہوگا، اسے کبھی نہیں بھولنا چاہیے مگر لوگ عموماً بھول جاتے ہیں مثلاً اگر کوئی شخص سڑک پر کھڑا ہو کر اِس کمپنی کی ٹیکسی کا انتظار کرنا شروع کرے اور پہلی تین یا چار ٹیکسیاں سرخ رنگ کی دیکھے تو لا محالہ اس کے ذہن میں آئے گا کہ اگلی ٹیکسی سفید رنگ کی ہوگی اور یہ نتیجہ اخذ کرتے ہوئے وہ base rate فراموش کر دے گا۔

اپنی زندگیوں میں بھی ہم یہی غلطی کرتے ہیں اور کسی واقعے کی پیشن گوئی کرتے وقت base rate بھول جاتے ہیں۔ اسی طرح کسی معاملے پرایک ہی قسم کے حقائق کو اگر مختلف انداز میں پیش کیا جائے تو ہمارا فیصلہ بھی مختلف ہوگا، مثلاً اگر ایک دوا کی ڈبیاپر لکھا ہو کہ یہ دوائی بچوں کو فلاں بیماری سے بچاتی ہے مگر اِس کا 0.001 فیصد امکان ہے کہ اِس سے مستقل معذوری بھی ہو سکتی ہے بمقابلہ یہ دوا بچوں کو فلاں بیماری سے بچاتی ہے مگر اسے کھانے والوں میں ایک لاکھ میں سے ایک بچہ مستقل معذور ہو سکتاہے تو یہ دوسری والی تنبیہ پڑھ کر ہمارے ذہن میں ایک معذور بچے کا خاکہ بن جائے گا اور ہم شاید یہ دوا استعمال نہ کریں، حالانکہ دونوں جگہوں پربات ایک ہی کہی گئی ہے۔

ڈینئل کاہنمین نے بہت دلچسپ انداز میں بتایا ہے کہ کیوں ہم لوگ اپنے فیصلوں میں جذبات سے کام لیتے ہیں اور عقل سے کم، مثلاً وہ کہتا ہے کہ دو افراد کا تصور کریں جن کے پاس پانچ ملین ڈالر ہیں، اگر اُن کی باقی زندگی میں کوئی خاص فرق نہیں تو دولت کے اعتبار سے انہیں یکساں طور پر مطمئن ہونا چاہیے مگر ایسا نہیں ہوتا، ایک منٹ کے لیے اِن افراد کا نام زید اور بکر فرض کر لیں، زید کے پاس ایک ملین ڈالر تھا اور بکر کے پاس نو ملین، دونوں لاس ویگاس کے جوئے خانے میں گئے اور ایک رات کے بعد جب واپس آئے تو زید کے ایک ملین ڈالرپانچ ملین بن چکے تھے جبکہ بکر چار ملین ہار کر پانچ ملین ڈالر پر آ چکا تھا، اب دونوں کے پاس برابر پانچ ملین ڈالر ہیں مگر دونوں کے جذبات یکسر مختلف ہیں اور خوشی برابر نہیں کیونکہ دونوں انسان ہیں، روبوٹ نہیں، کاہنمین نے پھر مزید تفصیل سے یہ بات سمجھائی ہے کہ چونکہ انسان روبوٹ نہیں اسی لیے بعض اوقات جذبات سے مغلوب ہو کر فیصلے کرتا ہے اور عقل کو پس پشت ڈال دیتا ہے۔

ہم لوگ آئے دن اپنی زندگیوں میں اہم فیصلے کرتے ہیں او ر اپنے تئیں بہت سوچ بچار کے بعد کرتے ہیں مگر ڈینئل کاہنمین کی کتاب پڑھنے کے بعد پتا چلا کہ سوچ بچار اصل میں کیسے کی جاتی ہے، ہم سے کہاں غلطی ہوتی ہے اور اِس غلطی سے کیسے بچا جا سکتا ہے، ایک طریقہ تو یہ ہے کہ آپ کوئی بھی اہم فیصلہ اُس وقت کریں جب آپ مکمل طور سے شانت ہوں، باقی طریقے جاننے کے لیے مکمل کتاب پڑھیں، یہ کالم کافی نہیں۔
”ہم سب“ کے لئے خصوصی طور پر ارسال کردہ تحریر۔

یاسر پیرزادہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

یاسر پیرزادہ

Yasir Pirzada's columns are published at Daily Jang and HumSub Twitter: @YasirPirzada

yasir-pirzada has 487 posts and counting.See all posts by yasir-pirzada

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments