اوپرا ونفرے کی زندگی کے چند واقعات


ننھی اوپرا کیلے کی چھال سے بنی بوری کے کپڑے پہنے اپنی غریب نانی کو گندے کپڑے پانی میں ابالتے ہوے دیکھتی اس لیے کہ غربت کی مہربانی سے ان کے ہاں کپڑے دھونے کا کوئی انتظام نہ تھا۔ چناچہ کپڑے پانی میں ابال کر صاف کیے جاتے۔ اس تکلیف سے ناخوش اس کا دل کہیں لاشعور کی تہوں سے گواہی دیتا :

”میرا مقدر ایسا نہیں ہو گا! “

ساٹھ کی دہائی میں افریقی لوگوں کے امریکی علاقوں میں تقریبا ہر کالا بچہ غربت اور تنگدستی کا شکار، ناجائز اور جنسی زیادتی سے متاثرتھا۔ ان بچوں کے کالے والدین غربت کے ہاتھوں تنگ ”عظیم ہجرت“ کے دور میں ملازمت کے لئے مختلف علاقوں کا سفر کر گیے اور اپنی جائز اور ناجائز اولادیں پلنے کے لئے نانیوں اور دادیوں کے پاس چھوڑ گئے۔

اوپرا کی کہانی بھی کچھ اس سے مختلف نہ تھی۔ سماجی اور معاشی حالات کے مطابق یہ کوئی حیرتناک صورتحال نہ تھی۔ حیرت کی بات تو یہ ٹھہری کہ غلامانہ دور میں تنگدستی اور جنسی زیادتیوں کی شکار لڑکی اوپرا بن گئی۔ ذلت اور پستیوں کی گہراییوں سے اتنی اونچائی تک کہ اس کی آنکھ کا اشارہ بڑے فنکاروں ’برانڈز اور کتابوں کے عروج اور زوال کا سبب بن جاے، اس کے بولے الفاظ سے لوگوں کی تقدیر بدلنے لگے اور نام اے ٹی ایم کی طرح استعمال ہونے لگے جس سے جب چاہے کوئی ذرا سی معلومات دے کر جتنے چاہے پیسے نکلوا لے۔

اوپرا جو بیسویں صدی کی سب سے زیادہ مالدار افریقی امریکی، امریکہ کی تاریخ کی عظیم ترین کالی انسان دوست اور شمالی امریکہ کی پہلی اور واحد ملٹی ملینیر کالی عورت ہے۔ تاریخ کا اپنی قسم کا سب سے مشہور شو اوپرا ونفرے شو کرنے والی اوپرا 2006 میں امریکہ کی تاریخ میں سب سے زیادہ معاوضہ وصول کرنے والی ٹی وی ہستی تھی۔ میڈیا کی اس ملکہ کی سالانہ آمدنی 75 ملین یو ایس ڈالر کے قریب تھی۔

اوپرا کی زندگی کا آغاز امریکہ کے ایک غریب افریقی لوگوں کے علاقے۔ Mississippi کے پسماندہ گھر میں دوسرے بہت سے کالے بچوں کی طرح نانا نانی کی سرپرستی میں ہوا۔ گہرے کالے رنگ کی بدصورت اور موٹے جھاڑ جیسے بالوں والی اوپرا کی زندگی کے دامن میں آنکھوں کے چمکتے ستاروں اور دل میں امید نامی تسلی کے سوا کچھ نہ تھا۔ ماں باپ کی شفقت اور توجہ، خوبصورتی کے جادو اور پیسے کی کرامات سے اس کی جھولی کسی بیچارے فقیر کے کشکول کی طرح خالی تھی۔

بازار سے خریدا کوی جوڑا، جوتا یا کھیلنے کے لئے کوئی کھلونا اوپرا کے بچپن کی یاد کا حصہ نہ بن سکا۔ پالتو جانور کا شوق ایک شیشے کی بند بوتل میں قید دو کاکروچ پورا کرتے۔ سخت گیر نانی امریکہ کے پسماندہ غلام طبقے کی طرح اوپرا کو بات بات پر پیٹنے پر تیار نظر آتی۔ گورے بچوں کو تعلیم یافتہ، مہذب والدین کے ہاتھوں محبت اور شفقت سے پلتا دیکھتی تو اوپرا خود بھی گوری بن جانے کی خواہش میں مبتلا رہتی تاکہ نانی کے تھپڑوں اور جوتوں اور نانا کے گریز سے بچ کرو ہ بھی پیار کی حقدار بن سکے۔

ایک ناجائز اولاد اوپرا جس کے حقیقی باپ کا نام بھی ایک عرصے تک گمشدہ اور نامعلوم رہا اور جب باپ اپنے نام اور سب حوالوں کے ساتھ منظر عام پر آیا تو مقدر کی سختیوں سے تن تنہا نبرد آزما ہو کر اوپرا کامیابی اور شہرت کے اس زینہ پر کھڑی تھی جہاں اس کے باپ کو اوپرا نامی اے ٹی ایم سے پیسہ تو مل سکتا تھا قبولیت نہیں۔

تمام تر غربت اور سختی کے باوجود پہلے چھ سالوں میں نانی کی کی گئی تربیت اور تعلیم کی بدولت اوپرا مضبوط آواز اور پر اعتماد لہجے کے ساتھ بہت کم عمری میں ہی چرچ میں بائبل کی حمدیں گانے اور تبلیغ کرنے لگی تھی۔ چھ سال کی عمر میں اوپرا کو اس کی پچیس سالہ ماں ورنیٹا کے پاس منتقل کر دیا گیا جس کی غربت اور مصروفیت نانی سے کیئی گنا زیادہ تھی۔ گھر گھر نوکریاں کرنے والی ورنیٹا دوسری بیٹی پیٹریسیا کو جنم دے کر ایک رشتہ دار کے گھر میں کرایے کے ایک کمرے میں مقیم تھی۔

معاشی مسائل، دوہری نوکری اور چھوٹے بچوں کے ساتھ نے اس کی کمر توڑ رکھی تھی۔ نانی کے گھر مکمل توجہ سے پلی اکلوتی اوپرا کو دینے کے لئے ماں کے پاس توجہ کے نام پر کچھ نہیں تھا۔ کم سن اوپرا ماں کی مجبوریوں ’معاشی مشکلات اور ذمہ داریوں کو سمجھنے سے قاصر تھی۔ اور ماں کی ساری نظر اندازی اور عدم توجہ کا سبب اپنا گہرا کالا رنگ اور بدصورت ہونا تصور کرتی۔ ماں کی نظر انداز ی نے اوپرا میں شدید احساس کمتری کو جنم دیا جس نے آنے والے دنوں میں اس کے لیے بدترین مشکلات پیدا کئیں۔

چھوٹی بیٹی کو ماں کے ساتھ سلانے کی مجبوری میں چھ سالہ اوپرا کا بستر پورچ میں ایک بڑے انیس سالہ رشتے کے بھائی کے ساتھ لگا دیا گیا۔ رشتے کا یہی بھائی کمسن اوپرا کے لئے زہر قاتل ثابت ہوا اور نو سال کی عمر میں اوپرا کو چڑیا گھر اور آئسکریم کا لالی پاپ دے کر جنسی زیادتی کا نشانہ بنانے لگا۔ ماحول اور زندگی کی غربت اور پسماندگی، ماں کی عدم توجہ اور اوپرا کا بڑھتا ہوا احساس کمتری رشتے کے بھای کے لئے سازگار ثابت ہوا اور ذرا سے استحصال اور معمولی سی رقم کے بدلے نو سالہ اوپرا بکنے اور استعمال ہونے لگی یہاں تک کہ اسے لگا زندگی تو شاید صرف ایسی ہی ہوتی ہے۔ ۔

کانگریس میں ”غربت کے خلاف جنگ“ کے طور پر پاس ہونے والے ایک بل کی بدولت اوپرا کا کچھ زہین اور غریب طلبا کے ساتھ ایک مہنگے اور اچھے تعلیمی ادارے میں تبادلہ کیا گیا۔ پسماندہ غریب طبقے کے سکول سے ایک دم امیرانہ اور استحقاق رکھنے والے سکول کے سفر نے اوپرا کو جہاں مزید نمایاں اور پراعتماد ہونے کا موقع دیا وییں اپنی بدصورتیوں کے بارے میں بھی اسے حوصلہ شکن ادراک دیا۔ بہت سے گورے اور امیر بچوں کے بیچ کالی غریب برادری سے آنے والی وہ تنہا تھی۔

کلاس کے امیر گورے بچے روزانہ نیا سویٹر پہن کر اور ہاتھوں میں چھٹی کے بعد پیزا اور ملک شیک پر خرچ کرنے کے لیے رقم لاتے تو اوپرا کو اپنی غربت کی انتہاؤں کا اندازہ ہوتا۔ اوپرا کی بڑھتی ہوی خواہشوں کو پورا کرنا دو نوکریاں کرنے والی ورنیٹا کے بس کی بات نہ تھی چناچہ گھر سے بڑی بڑی رقمیں چرانا اوپرا کی عادت بننے لگا۔ جسمانی آوارگی نے پیسہ حاصل کرنے کے لئے نیے راستے کھولے اور وہ ماں کی غیر موجودگی میں بڑے لڑکوں کو گھر لانے لگی۔ تنہا رہنے والی ماں کے طریقے اور اس کے بواے فرینڈز کا آنا جانا بھی اوپرا کے بگاڑ کی ایک بڑی وجہ بنا۔

” بچہ جو سمجھتا ہے وہ اس سے بہت مختلف ہوتا ہے جو ماں سمجھاتی ہے۔ میرے ساتھ بھی ایسا ہوا! جب میں بچی تھی۔ (ماں اولاد کو سمجھانا چاہتی ہے کہ) ’جیسا میں نے کہا ویسا کرو نہ کہ جیسا میں کرتی ہوں۔ ’ ”

رشتہ دار اور دوست احباب کے جنسی استحصال کا شکار ہو کر اوپرا کا مزاج اور عادتیں تباہ کن حد تک گرواہٹ کا شکار ہو چکییں تھیں۔ یہاں تک کہ گلی میں لڑکوں کے ساتھ پھرنا اور شامیں گزارنا، جنس کا تماشا اور سودا کرنا، جھوٹ بولنا، چوری کرنا اوپرا کی ہستی کا اک واضح عنصر بن گیا۔ معاشی مشکلات کی شکار ورنیٹا اوپرا کی حرکتوں کوسنبھال نہ پائی جس کا گمراہ کن نتیجہ ایک دن اوپرا کے گھر سے بھاگ جانے کی صورت نکلا۔ چودہ سالہ اوپرا گھر سے کس طرح اور کیوں بھاگی اور کس طرح سے واپس آی یہ ایک طویل کہانی ہے مگر بری طرح شخصی بگاڑ کی شکار اوپرا کو سنبھالنا اب ورنیٹا کے اختیار سے باہر ہو چکا تھا۔ منہ بولے باپ ونفرے جو ایک معمولی حجام تھا، کی منت سماجت کرکے ورنیٹا نے اسے باپ کے پاس نیش ولا روانہ کر دیا۔

ماں کے گھر گزرے دس سالوں نے اوپرا کی شخصیت کو توڑ پھوڑ کر بدنام زمانہ اور تباہ کن بنا دیا تھا۔ ایسی صورت حال میں ونفرے یہ جاننے کے باوجود کہ اوپرا اس کی اپنی اولاد نہیں ایک ذمہ دار باپ ثابت ہوا جس نے اوپرا جیسے اڑیل گھوڑے کو لگام ڈالنے کی ہمت باندھی۔ نظم و ضبط کی سختی، کڑے پہروں اور مکمل توجہ کے ساتھ اس معرکہ کو نہ صرف جنتنے کی کوشش کی بلکہ اوپرا میں اچھائی اور برائی کا احساس بھی بیدار کیا۔ گلی میں لڑکوں کے ساتھ نکلنے کی مکمل ممانعت، مکمل اور مہذب لباس پہننے کی پابندی اور پڑھائی پر مکمل توجہ ونفرے کی سب سے پہلی شرائط تھیں۔

”میں اس شرط پر تمھیں اپنے پاس رکھوں گا کہ تمھاری وجہ سے مجھے کسی ذلت کا سامنانہ کرنا پڑے۔ ” ونفرے نے اوپرا پر پہلے دن سے یہ واضح کر دیا تھا۔

باپ کی انتھک کوششوں کے باوجود اوپرا کا سدھرنا کچھ آسان نہ تھا اور سنبلتے سنبھلتے اوپرا جب چودہ سال کی عمر میں ایک دم اورکوٹ اور کھلے گرم کپڑے اوڑھنے لگی اور اس کے ہاتھ پاؤں سوجنے لگے تو ونفرے پر اوپرا کے بن بیاہی ماں بننے کا راز آشکار ہوا۔ اخلاقی اسباق پڑھتی اوپرا باپ سے نظر ملانے کے قابل نہ رہی تھی اور اس کا بڑھتا ہوا شعور اور اچھے برے کی تمیز میں دریا میں ڈوب کر مر جانے کی خواہش کرنے لگی۔ ونفرے نے بیٹی کو دوسرا موقع دیا اور مشکل وقت میں بیٹی کے ساتھ کھڑا ہوا۔ خوش قسمتی یا بدقسمتی سے تقدیر ہی کے ہاتھوں یہ بچہ پیچیدگی کا شکار ہو کر دم توڑ گیا۔

زندگی کے دیے اس دوسرے موقع سے اوپرا نے فایدہ اٹھانے کی کوشش کی اور اس بچے کی کہانی کو ایک راز کی طرح دفن کر دیا گیا۔ اوپرا نے کالج دوبارہ سے شروع کیا تو وہ بڑے اورکوٹ میں پیچھے چھپ کے بیٹھے والی لڑکی کی بجائے چمکتی آنکھوں اور خود اعتمادی سے بھرپور گھٹنوں سے اوپر تک تنگ قمیض پہننے والی مضبوط لڑکی تھی جسے نظر انداز کرنا مشکل تھا۔ خود کومنوانے کی کوشش میں اوپرا نے اپنی مضبوط سخت آواز اور دو ٹوک انداز میں ڈرامہ اور چرچ کی سروسز میں دوبارہ حصہ لینا شروع کیا۔ چرچ کی سروسز کی بدولت ہی اسے تبلیغی جماعت کے ساتھ لاس اینجلس جانے کا موقع ملا جہاں پر شہرت کے قدم۔ Walk of fame۔ پر جھک کر اوپرا نے ستاروں پہ کھدے بڑے بڑے ناموں پر ہاتھ پھیرا اور دل میں عزم کیا کہ ایک دن اس کا نام بھی انہی ستاروں پر لکھا جاے گا۔ ونفرے نے جب یہ عزم سنا تو کہا:

” اس سے مجھے اشارہ ملا کہ وہ ایک دن مشہور ہو گی۔ “

مشہور ہونے اور بلند مقام تک پہنچنے کا جذبہ اوپرا کے لیے کوئی راز نہ تھا۔ سکول میں جب ایک موقع پر اسے ایک کارڈ ”بیس سالوں بعد ہم کیا ہوں گے؟ “ بھرنا پڑا تو اوپرا کا جواب تھا۔ ”مشہور“

سکول میں ڈراموں میں شمولیت نے اوپرا کو سکول کی مقبول اداکارہ بنا دیا اور سکولوں کے مابین ڈرامیٹک مقابلوں میں اسے بھیجا جانے لگا۔

1971 میں جب سارے امریکہ میں مساوات اور انسانیت کی تحریکیں زوروں پر تھیں اور ملکی سطح پر تمام انسانوں اور نسلوں کو ایک سے مواقع دینے کی بات کی گئی تو پورے نیش ولا میں جو کالا نام چرچ اور طلبا تنظیموں میں جانا جاتا تھا وہ اوپرا ونفری کا تھا۔ چناچہ جب کالوں کی نمائندگی کا سوال آتا تو سب سے پہلے اوپرا کا خیال آتا۔ یہی وجہ تھی کہ وایٹ ہاؤس میں ہونے والی نوجوانوں کی کانفرنس میں پورے ملک کے مقبول نوجوانوں کے ساتھ اوپرا کو بھی بلایا گیا۔

یہ کانفرنس اوپرا کو کسی سیاسی عمل کی طرف متوجہ کرنے میں تو ناکام رہی مگر میڈیا میں اپنا حصہ ڈالنے میں کامیاب رہی۔ اوپرا کی بھاری مضبوط آواز اور اعتماد نے ریڈیو کے دروازے اس پر کھول دیے اور وہ پارٹ ٹآیم ریڈیو کا حصہ بن گئی۔ اوپرا کا اعتماد اور بے باک انداز شخصیت اسے مس فائر پریونشن کا ٹایٹل دلوانے میں کامیاب رہا۔ miss fire prevention ایک اعزازی ٹایٹل تھا جو سکولوں اور کالجوں میں آگاہی مہم کے لئے استعمال کا جاتا۔ اس کے باوجود کہ یہ ملکہ حسن کا مقابلہ نہ تھابلکہ مضبوط اعصاب، مکمل شخصیت، بولنے کا اعتماد اور عوام کو سہنے کا حوصلہ دیکھنے کا پلیٹ فارم تھا مگر 1971 سے پہلے اس خطاب کے لئے لال بالوں والی خوبصورت گوری لڑکیاں ہی چنی جاتیں۔ اوپرا وہ پہلی کالی لڑکی تھی جسے یہ اعزاز دیا گیا۔

اوپرا ونفریے کی کی پہلی دھماکہ دار انٹری دنیا کے منظر نامے پر شگاکو شہر کے ایک چھوٹے سے تیسرے درجے کے آدھ گھنٹے کے مارننگ شو سے ہوئی جہاں وہ غرور اور تمکنت سے چلتی ہوئی فر کوٹ پہنے کسی ملکہ کی طرح لوگوں کو ہاتھ ہلاتی پردہ سکرین پر ظاہر ہوئی اور کسی قلوپطرہ کی طرح سر اٹھا کر اس نے اپنی آمد کا اعلان کیا۔

” میں ہوں اوپرا ونفری! A۔ M۔ Chicago۔ کی نئی میزبان“

امریکہ کے سب سے زیادہ نسل پرست شہر شگاکو میں جہاں کالے اور گورے کا فرق دن اور رات کی مانند واضح تھا وہاں صبح کے اوقات میں گھروں میں بیٹھی امیر گوریوں کی دلچسپی کی خاطر پہلی بار ایک کالی عورت کو میزبانی کرتے دیکھ کر لوگوں نے ٹی وی چینل والوں کی ذہنی صحت پرشکوک کا اظہار کیا۔ پہلی ہی ہفتے میں اوپرا نے نقادوں کو چپ کروایا اور وہاں کے مقبول علاقائی مارننگ شو کو پیچھے چھوڑ دیا اور سال بھر میں۔ Phil Donahue۔ جو کہ وہاں مارننگ شو کا بے تاج بادشاہ تھا، کو بوریا بستر سمیت نیویارک روانہ کر دیا۔ پہلے ہی سال شو کا نام اوپرا کی محنت اور مقبولیت کے پیش نظر اس کے نام کے ساتھ بدل کر اوپرا ونفری شو کر دیا گیا۔

ماں کے گھر پر ہونے والے معصومیت کے استحصال اور تباہی نے اوپرا کے پروگرامز اور موضوعات کو ایک مختلف جہت اور جرات دی۔ ۔ بچپن کی بربادی سے جو زلت اوپرا نے اٹھای، طاقت آنے کے بعد اوپرا دوسری بچیوں اور عورتوں کو اس ظلم کے ہاتھوں بربادی سے بچانے میں مصروف ہو گئی۔ اسی 80 کی دہائی میں جب امریکہ میں ہر پانچ میں سے تین عورتیں یا بچیاں قریبی عزیزوں دوستوں بھائیوں یا باپوں کے ہاتھوں جنسی زیادتی کا شکار تھیں۔ اوپرا نے بچوں سے زیادتی کے مجرموں کی گرفتاری کے لئے ایک ادارہ بنایا اور دسمبر 2005 تک ان میں دس ملزمان کے نام شامل ہوے۔

ان مجرموں کی گرفتاری کے لئے معلومات اور مدد فراہم کرنے والوں کے لئے 10000 ڈالر انعام مقرر کیا۔ ستمبر 2008 تک ان میں سے نو لوگوں کو گرفتار کیا گیا۔ اس تمام مہم میں اوپرا نے ذاتی حیثیت سے ڈالر 100، 000 مدد فراہم کرنے والوں کو ادا کیے۔ بچوں اور عورتوں سے زیادتی پر پے در پے کیے جانے والے شو نہ صرف اوپرا کی مقبولیت کے گراف کو بڑھانے لگے بلکہ عورتوں میں اس کی مقبولیت اور محبت اس کے مقابلے میں شریک سب میزبانوں کو پیچھے چھوڑ گئی۔

امریکہ کے آزادمعاشرے میں زیادتیوں کی شکار عورتیں اوپرا میں ایک ہمدرد اور مسیحا نما ہستی دیکھنے لگیں۔ بچپن میں انہیں زیادتیوں کی شکار اوپرا ان مسائل اور مشکلات کو زیادہ بہتر سمجھنے اور ان کے خلاف کھڑی ہونے کی قابل ہوتی چلے گئی۔ اوپراسمجھتی تھی کہ کم عمری کی جنسی زیادتی کے شکار بچے جرم کا خاتمہ ہو جانے کے باوجود بھی ایک عرصے تک اپنے ذہن اس اندوہناک واقع کے تابکاری اثرات سے بچا نہیں پاتے۔ بچووں کی معصومیت اور ان کے جسم قصوروار نہ ہوتے ہوئے بھی اپنی زندگی کا بڑا حصہ وہ احساس جرم نما شرمندگی کے نفسیاتی جالوں میں جکڑے رہتے ہیں۔ اسی لیے اوپرا نے اس ظلم کے خلاف ہر کوشش میں عملی طور پر حصہ لیا، جنسی زیادتی کے شکاربچوں کے لیے چندہ جمع کیا اور اسی کی کوششوں سے کانگریس میں اس جرم کے خلاف بل منظور کیا گیا۔

غربت اور پسمانگی سے زندگی کا آغاز کرنے والی اوپرا کے بھائی اور بہن ہزاروں دوسرے غریب پسماندہ کالے لوگوں کی طرح منشیات کی نذر ہو گیے مگر اوپرا نے اپنے شو کے ساتھ برسوں دنیا پر حکمرانی کی۔ اوپرا کے بک کلب میں لیے جانے والی کتاب دنوں میں بیسٹ سیلر بن جاتی۔ باراک اوبامہ کی صدارت میں کامیابی کے پیچھے اوپرا کے کم سے کم دس لاکھ ووٹ شامل تھے۔ بچپن میں آئسکریم کی خاطر بک جانے والی اوپرا کوآج دنیا کی طاقتور ترین ہستیوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ اوپرا کی زندگی یہ بتانے میں کامیاب رہی کہ پستی کتنی ہی گہری اور زلت آمیز کیوں نہ ہو اونچائی اور اچھائی کی گنجائش ہمیشہ رہتی ہے۔

صوفیہ کاشف کی کتاب ”گہر ہونے تک“ سے ایک مضمون۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments