پاکستان ٹیلی وژن کے پہلے فیملی کامیڈی اداکار، گلوکار اور موسیقار خالد نظامی


پاکستان ٹیلی وژن کراچی مرکز کا میں ہمیشہ مشکور رہوں گا کہ یہاں شعبہ پروگرام میں کام کرنے کے دوران بہت سے فنکاروں سے ملاقات رہی اور کئی ایک کے ساتھ کام کرنے کے مواقع بھی آئے۔ اِن میں ایک بڑا نام خالد نظامی کا ہے۔ میرا ان سے 80 کی دہائی میں بہت زیادہ ملنا جلنا تھا۔ ٹیلی وژن ڈراموں میں ان کا نام منجھے ہوئے کامیڈین میں آتا تھا۔ کراچی اسٹیج میں یہ بہت مقبول تھا۔ اپنے کردار کو حقیقت کا روپ دینے کے لئے وہ سب کچھ کر گزرتا تھا۔

ڈرامہ پروڈیوسر قیصر فاروق اورشاہد اقبال پاشا صاحبان کے ساتھ ڈرامہ پروڈیوس کرتے ہوئے اُس کی ذہانت کا میں خود گواہ ہوں۔ ایک ڈرامے میں پھیری والے کا مزاحیہ کردار تھا جس کو ادا کرنا کوئی ایسا مشکل کام نہیں تھا۔ ریہرسل کے دوران اُس نے کہا کہ مجھے گھنٹہ بھر کی رخصت دو میں ذرا صدر اور پییر الٰہی بخش کالونی کا چکر لگا آؤں۔ پوچھا خیریت؟ جواب ملا۔ : ”ذرا پھیری والوں کی صداؤں اور ان کی جسمانی حرکات کا جائزہ لے آؤں“۔ ایسی کئی ایک مثالیں ہیں۔ میں نے خالد نظامی کو ہر لحاظ سے مکمل فنکار پایا۔

اِن سے کل ایک تفصیلی نشست رہی۔ ٹیلی وژن، اسٹیج، فلم اور موسیقی سے متعلق کئی سوال جواب ہوئے۔ کامیڈی اور اسٹیج پر آنے کے بارے میں کہا : ”یہ 1970 کا زمانہ تھا۔ جب میں نے ون مین شو / اسٹینڈ اپ کامیڈی سے آغاز کیا۔ ڈانس ڈائریکٹر اور کامیڈین ماسٹر یعقوب سے میں نے ردہم سیکھا۔ یہیں سے اسٹیج ڈرامہ ’بُدھو کہیں کا‘ میں کام کر نے کا موقع ملا۔ میرے ساتھ جمشید انصاری بھی تھا۔ اُس وقت مجھے معلوم نہیں تھا کہ وہ ٹیلی وژن پر اداکار ی کرتا ہے۔ شاید میری کارکردگی اسے پسند آ گئی“۔

پاکستان سے امریکہ جانا اور پھر اپنی واپسی کے بارے میں انہوں نے بتلایا: ”1986 میں امریکہ نقلِ مکانی کر گیا۔ نیو یارک، ڈی سی (واشنگٹن) بالٹی مور (ریاست میری لینڈ) میں اسٹیج اور فنکشن کرتا ہوں۔ میرا ایک اسٹوڈیو اور ایک بینڈ ہے۔ میرے تمام میوزیشن جنوبی ہند کے ہیں اور مرکزی گلوکارہ نازنین ہے۔ اس کا تعلق راجھستان سے ہے۔ میں دوبارہ 2013 میں پاکستان آیا لیکن یہاں آنے کے بعد مجھے علم ہوا کہ صرف پاکستان میں رہ کر دال روٹی چلانا مشکل ہے اِ س لئے آنا جانا لگا رہتا ہے“۔

فلم انڈسٹری میں اپنی دوبارہ آمد کے بارے میں بتایا: ”یاسر نواز اور حسن ضیاء کی فلم ’مہر النساء وی لب یو‘ میں میرا کردار جاندار تھا۔ کہانی کا ڈرامائی موڑ میرے کردار سے ہی ہو تا تھا“۔

اپنے ڈراموں کے بارے میں کہا: ”ہم ٹی وی کے لئے روبینہ اشرف کے ڈرامے ’میں ماں نہیں بننا چاہتی‘ میں میرا جعلی پیر کامنفی کردار تھا۔ ہم ٹی وی سے ہی مہرین جبار کی ایک ٹیلی فلم ’ہم آ گئے‘ میں میرے ساتھ مرینہ خان اور حنا دلپذیر تھیں“۔

موسیقی، خاص طو ر ”تُم سنگ نیناں لاگے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ’‘ کے بارے میں پوچھے گئے سوال کے جواب میں کہا:“ عارفین سے پرانی دوستی تھی۔ میں اکثر دھنیں بناتا رہتا تھا اور اُس کو بھی سناتا تھا۔ جب وہ ٹی وی پروڈیوسر بنا تو اُس نے مجھے بلوایا کہ کوئی اچھی دھن بناؤ، ریکارڈ کرواتے ہیں۔ میری دھنوں کی تمام استھایاں / مکھڑے میرے لکھے ہوئے ہوتے ہیں۔ ایسا ہی ایک مکھڑا اُسے پسند تھا :

’ تم سنگ نیناں لاگے لاگے ناہی جیا را، پیا پیا بولے پیا من کا پپیہا را‘

اِس گیت کی استھائی بھی میری لکھی ہوئی ہے۔ انترے لکھنے کے لئے عارفین نے اسد محمد خان صاحب کو بلوایا۔ میں نے مکھڑا گا کر سنایا۔ کہنے لگے کہ بھئی ’لاگے‘ یہاں دو مرتبہ مہمل ہے، دوسرے لاگے کی جگہ ’مانے‘ کر دیا جس سے بول کے تسلسل اور گیت کے بہاؤ کا مزہ جاتا رہا۔ بہر حال اسد صاحب نے اُدہر انترے لکھے اِدہر میں نے اُن کی دھن بنائی۔ عارفین اور اسد صاحبان نے او کے کر دیا۔ اس کے بعد میں ریڈیو پاکستان کراچی گیا او ر سینئر میوزیشن محبوب اور اشرف صاحبان کو کہا کہ فلاں فلاں میوزیشن کو لے کر فلاں دن میری ریکارڈنگ کے لئے آ جائیں۔

وہ سب لوگ میری بات کو سنجیدہ نہیں سمجھ رہے تھے۔ شاید سوچ رہے تھے کہ کہیں شوق میں ایک دھن بنا لی ہے۔ کہنے لگے کہ ”فکر نہیں کرو، اِس دھن کی تہذیب ہم لوگ کر لیں گے“، پھر میں نے ریہرسل کے دوران اُنہیں بتایا کہ اِس گیت کا ارینجر اور کمپوزر میں ہی ہوں۔ یہ گیت درباری میں E۔ Minor سے ہے۔ ردھم کی چال سنگل قہروا ہے۔ پھر خود ہارمونیم بجا کر میوزیشنز کو ریہرسل کروائی تو وہ سب حیران رہ گئے۔ ستار گٹارکے پیس، اور وائلن والوں کو اُن کے پیس اور کاؤنٹر خود یاد کروائے۔

عارفین نے یہ گیت ’فیلر‘ کے طور پر بہت چلوایا۔ یوں یہ پورے ملک میں مشہور ہو گیا۔ اِس کی کمپوزیشن پر بعض احباب نے اعتراض کیا کہ پی ٹی وی میں بھارتی فلم ”جب جب پھول کھلے“ ( 1965 ) میں موسیقار بھائیوں کلیان جی آنند جی کی موسیقی میں لتا کی آواز میں گیت نگار آنند بخشی کے اس گیت ”یہ سماں، سماں ہے یہ پیار کا، کسی کے انتظار کا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ “ کی نقل کی گئی ہے۔ حالاں کہ دونوں گیتوں میں محض ’‘ اسکیل ’‘ اور راگ کی مماثلت ہے۔ اِس طرح تو پھر میں بھی کہہ سکتا ہوں کہ مالا کی آواز میں سہیل رعنا کی موسیقی میں مسرورؔ انور کا لکھا فلم ”دوراہا“ ( 1967 ) کا گیت ”کوئی میرے دِل میں دھیرے دھیرے آ کے نندیا چرائے“ کا اسکیل بھارتی گیت ”جیا، لے گیو جی مورا سانوریا“ سے مماثل ہے ”۔

یہاں میں خاکسار ایک مِثال دیتا ہوں۔ فلم ”سنگدل“ ( 1952 ) میں دلیپ کمار پر فلمایا ہو ا طلعت محمود کی آواز میں راجندر کرشن کا لکھا گیت ”یہ ہو ا یہ رات یہ چاندنی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ “ موسیقا ر سجاد حسین نے کمپوز کیا۔ اسی میٹر میں موسیقار مدن موہن نے فلم ”آخری داؤ“ ( 1958 ) میں محمد رفیع کی آواز میں مجروحؔ سلطان پوری کاگیت : ”تجھے کیا سناؤں میں د لربا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ “ کمپوز کیا۔ لہٰذا میری رائے کے مطابق خالد نظامی ہوں، سہیل رعنا ہوں، سجاد حسین یا مدن موہن، جب بھی راگ کو بنیاد بنا کر کمپوزیشن کی جائے گی تو اُس میں یا اسکیل میں مماثلت ہوجاتی ہے۔

پی ٹی وی میں شعبہ پروگرام میں آنے سے پہلے ہی مجھے اس بات کا علم تھا کہ روبینہ بدر ( م ) کی آواز میں اسد محمد خان کا لکھا گیت ”تم سنگ نیناں لاگے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ “ کا موسیقار خالد نظامی ہے۔ اسی پس منظر میں ایک دِن ٹی وی کی کینٹین میں اسے پکڑ لیا اور اپنے موسیقی کے پروگرام ”آواز و انداز“ کے لئے نغمات کمپوز کرانے کا اقرار بھی کروا لیا۔ اُنہیں بتایا کہ گلوکار خالد وحید کو سامنے رکھ کر کام شروع کریں۔ خالد نظامی کے پاس کئی ایک دھنیں استھائی /مکھڑے کی صورت ا کثر تیار رہتی تھیں۔

پہلے گیت کا مکھڑا یہ تھا : ”تیرا میرا کیا بندھن ہے، راہی تو اکیلا ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ “۔ اسی طرح کے چار گیت منتخب ہوئے۔ اُسی وقت محمد ناصر ؔ بھی پروڈیوسرسلطانہ صدیقی کے کمرے میں آ موجود ہوئے لہٰذا طے پایا کہ ”ابھی نہیں تو کبھی نہیں“ اور محمد ناصر ؔ کو چاروں مکھڑوں پر انترے لکھنے پر متعین کر دیا۔ یوں چاروں گیت ریکارڈ وقت میں موزوں ہو گئے۔

پروگرام ’آواز و انداز‘ کی آ ڈیو ریکارڈنگ کے لئے میرے کہنے پرپہلا گیت ’تیرا میرا کیا بندھن ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘

ریکارڈنگ کے لئے تیار ہوا۔ میں نے پہلی دفعہ وائلن کے کاؤنٹر سے گیت شروع ہوتے ہوئے دیکھا۔ کیا عجب کمپوزیشن تھی۔ جو مجھے آج بھی ازبر ہے۔ اتفاق سے احمد رشدی بھی وہاں آ موجود ہوئے۔ خالد نظامی کے لئے یہ بیشک ایک بڑا اعزاز ہے کہ احمد بھائی نے اُس کے کمپوز کیے ہوئے گیت کو پسند کیا اور گانے کی خواہش کی۔

صد افسوس کہ ناگزیر وجوہات کی بنا پر وہ گیت صدابند نہ ہو سکے۔ ا لبتہ ’تیرا میرا کیا بندھن ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘ آج تک میرے دل پر نقش ہے۔

خالد نظامی کے بارے میں یہ تنقید کی جاتی ہے کہ اگر وہ واقعی موسیقار ہوتے تو ان کے اور گیت بھی منظرِ عام پر آتے۔ اُنہوں

نے مزید گیت کیوں ریکارڈ نہیں کروائے؟ میں نے جب یہ سوال کیا تو اُ س نے کہا :

” 1977 میں ای ایم آئی، گراموفون کمپنی آف پاکستان، لاہور اسٹوڈیو میں، میں نے گلوکار اے نیر کی آواز میں تین گیت ریکارڈ کروائے۔ ٹیلی وژن پروڈیوسر سا حرہ کاظمی کو نئے گانوں کی تلاش تھی وہ یہاں کے چیف ساؤنڈ ریکارڈسٹ آصف صاحب کے پاس نئے گیتوں کی تلاش میں آئیں۔ مختلف موسیقاروں کے گیت سن کر جب اے نیر کے گیت سُنے تو وہ پسند آئے۔ پوچھا کہ کون موسیقار ہے؟ میرا نام سن کر حیران ہوئیں اورتینوں گیت لے گیئں اور نیر کو بلوا کر وی ٹی آر کروا لیا۔ اُن میں سے ایک گیت : ’میں ہوں انجانا راہی پیار کا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘ کو سال کے بہترین گیت کا ایوارڈ اور گلوکار کو 15,000 ہزار روپے نقد انعام مِلا“۔

میں نے پوچھا ”اور تُم کو کیا ملا؟ “

” تم بہت ہنساتے ہو۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ، ہی ہی ہی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اپنی مخصوص ہنسی ہنس کر کہا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کچھ نہیں! “ ۔

خالد نظامی نے اپنی موسیقی کے بارے میں مزید بتایا : ”میں نے لاہور میں 30 کے قریب گیت کمپوز اور ا رینج کیے۔ لیکن جیسی مقبولیت میرے پہلے گیت ’تم سنگ نیناں لاگے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘ ۔ کو حاصل ہوئی ویسی کسی گیت کونہ مل سکی۔ اصل میں میرے یہ گیت ’فیلر‘ نہیں تھے نا! “۔

اُنہوں نے اپنی فیملی کے بارے میں بتایا: ”میری والدہ، رشیدہ نظامی رائٹر ہیں۔ اُنہوں نے 14 کتابیں لکھیں۔ 50 کی دہائی میں روزنامہ جنگ میں ان کی تحریریں شائع ہوئیں۔ اُن کی چند کتابیں : ’چوبارے‘ ، ’چہرہ مہرہ‘ اور ’کمندیں‘ خاصی مشہور ہیں۔ والد، رشید نظامی 1933 میں بمبئی میں بننے والی فلم ’چندر ریکھا‘ میں ہیروآئے۔ میرا بڑا بیٹاشاہد نظامی فری لانس رائٹر، ایکٹر اور ڈی او پی ہے۔ اُس نے انجلینا ملک کا ڈرامہ ’کتنی گرہیں باقی ہیں‘ اور اُنہی کی ’کورٹ روم‘ سیریز کی ہے۔

دوسرا بیٹا راحیل نظامی ساؤنڈ انجینئیر ہے اور اس کا اپنا اسٹوڈیو ہے اور اُس نے موسیقی کا گروپ ’ڈومینیٹر‘ بھی قائم کر رکھا ہے۔ یہ بھی ایکٹر، رائٹر اور ڈائریکٹر ہے۔ خرم نظامی چھوٹابیٹا ہے۔ یہ ڈائریکٹر، ساکت عکاس اور رائٹر ہے۔ 14 اگست سے متعلق اس نے ٹیلی فلم ’جھنڈے والا چوک‘ لکھی جس کو بڑے بیٹے شاہد نظامی نے ڈائریکٹ کیا۔ ایک ٹیلی فلم ’سانس‘ بھی کی جس میں اداکار شفیع محمدنے اپنی زندگی کا آخری کام کیا۔ اِس میں پروین اکبر بھی تھی۔ میری بیگم نسرین نظامی ر ائٹر ہیں جن کے ’جیو‘ سے ڈرامہ سیریل، ’گندی گلی‘ اور ’منجدھار‘ نشر ہو چکے ہیں۔ ڈرامہ۔ ’کرن‘ کو خرم نظامی اور میری بیگم نسرین نظامی نے مل کر

لکھا۔ جیو کہانی ہی میں ’ستم‘ بھی آن ائر ہوا جسے نسرین نظامی نے لکھا۔ میری بیٹی سطوت نظامی ایک پروڈکشن ہاؤس میں رائٹر پروڈیوسر ہے۔ پروڈکشن کے دوران یہ سیٹ ڈیزائنر کا بھی کام کر لیتی ہے۔ پاکستان ٹیلی وژن کے ایک پرانے منجھے ہوئے سیٹ ڈیزائنر قیصر عباس نے اِس کے کام کی تعریف کی ہے ”۔

جب میں نے خالد نظامی سے پوچھا کہ اس سب کہانی میں آخر ریڈیو کا ذکر کیوں نہیں آیا؟

جواب میں ہنستے ہوئے کہا : ”ٹی و ی میں کام کرنے کے بعد ریڈیو پاکستان کراچی کے ایک نا مور ڈرامہ پروڈیوسر نے مجھے ریڈیائی ڈرامے میں ایک کردارکے لئے بلوایا۔ میں نے ریکارڈنگ میں حصہ بھی لیا لیکن مجھے جلد ہی پتا چل گیا کہ میں یہاں نہیں چل سکتا

لہٰذا وہاں سے بھاگ کھڑا ہوا۔ میرے نزدیک دنیا کا سب سے مشکل ترین کام ریڈیو پر صدا کاری ہے ”۔

” کراچی میں کمرشل ڈرامہ کیوں نہیں ہو رہا؟ “

اُس نے جواب میں کہا:۔ ”کمرشل ڈرامے میں رات کی بہت اہمیت ہے۔ اس لئے کہ یہ رات کو شروع ہو کر آدھی رات کو ختم ہوتا تھا۔ جب تماشائی تو کیا خود فنکاروں کا تحفظ خطرے میں ہو تو کیسا ڈرامہ کون سی تفریح؟ پھر ایک اور بڑی وجہ یہ ہے کہ اسٹیج ڈرامہ انتہائی۔ ’کمرشل‘ ہو گیا ہے۔ غیر پیشہ ورانہ لوگ بحیثیت پروڈیوسر پیسہ لگانے لگے جنہوں نے معیار کو نہیں بلکہ آ مدنی کو ترجیح دی۔ مکالموں کی جگہ جگت بازی نے لے لی۔ کہانی کی جگہ ڈانس نے لے لی۔ پیسے نے تمام اصول وضوابط کو پس ِ پشت ڈلوا دیا۔ یہی حال لاہور فلم انڈسٹری کا ہوا تھا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ “

” آج کل تمہارے کون سے ڈرامے ٹی وی پہ چل رہے ہیں؟ “۔

” دو پروگرام آن ائیر ہیں : ایک ہم ٹی وی سے ’محبوب آپ کے قدموں میں‘ اور دوسرا اے پلس پر

’ مالا میر‘ ۔ مالا ہروئین اور میر ہیرو کا نام ہے۔ دو ڈرامے ابھی سیٹ پر ہیں۔ ایک کا کام شروع ہو چکاہے۔ اُس کا ڈائریکٹر حمیر ہے۔ پہلے وہ ا سو سیٹ ڈائریکٹر تھا اب وہ ڈائرکشن بھی کر رہا ہے۔ حمیر ذہین بچہ ہے۔ اُس کے ساتھ یہ میرا چوتھا کام ہے۔ ایک

ڈرامے کی شوٹنگ ہونے والی ہے۔ ایک سیریل ویب چینل کے لئے ہے ”۔

” تم پر پِیر کے کردار کی چھاپ کیوں لگ گئی؟ “

” پیر کی چھاپ نہیں لگی بلکہ یہ محض اتفاق ہے۔ ہم ٹی وی کے ڈرامے ’میں ماں نہیں بننا چاہتی‘ میں، میں نے ایک جعلی پیر کا کردار ادا کیا تھا۔ اُس کے ڈائریکٹر فُرقان تھے۔ اب یہ اتفاق ہے کہ ہم ٹی وی سے پھر فرقان کے ڈرامے میں پیر کا کردار نکلا تو انہوں نے کہا کہ خالد نظامی نے پہلے بھی پیر کا کردار اچھا کیا تھا لہٰذا اس میں بھی مجھے ہی بلوایا گیا۔ مجھے داڑھی لگانے کو کہا گیا۔ میں نے کہا کہ نقلی تو میں لگاؤں گا نہیں مزا نہیں آ ئے گا۔

کہنے لگے پھر؟ میں نے کہا داڑھی بڑھانے کے لئے ایک مہینہ د و۔ اس سے کردار میں جان پڑ جائے گی۔ اس دوران آپ دوسرے مناظر کر لیں۔ اس لئے یہ سیریل ایک مہینے لیٹ ہو گیا۔ پھر اس کے بعد ان کی اپنی کاسٹ میں کوئی مسئلہ ہو گیا۔ یوں مزید دیر ہو گئی۔ یہ ڈرامہ میں نے جولائی میں سائن کیا تھا۔ اب کہیں جا کے اکتوبر میں اس کی شوٹ ہوئی ہے۔ اس دوران مجھے ’مالا میر‘ مل گیا۔ انہوں نے بھی یہی کہا کہ یہ پیر کا کردار ہے۔ میں نے اس پر بیساختہ کہا :

” آپ لوگوں کو میری اصلیت پتہ کیسے لگی؟ کہ میں ایکٹروں ( فنکاروں ) کا جعلی پیر ہوں“۔

” چلیں! کچھ موسیقی پر بات ہو جائے! “

” میں موسیقی کا کوئی پروگرام نہیں کر رہا“۔

” موسیقی کے پروگرام نہ کرنے کی کوئی خاص وجہ؟ “

” وجہ یہ ہے کہ 22 سال کے بعد آیا حالات ہی بدلے ہوئے تھے۔ پھر چلا گیا۔ پھر میرا آنا جانا لگا رہا۔ مجھے نہیں پتہ نہیں کون میوزشن ہیں، کہاں ریکارڈنگ کر رہے ہیں کون سنگر ہیں۔ میرا اپنا بیٹا، راحیل نظامی میوزک کمپوزیشنز کر رہا ہے“۔

” میرے تینوں بیٹے ٹی وی پروڈکشن کی دنیا میں ہیں : سب سے بڑا ڈائریکٹر پروڈیوسر ہے، دوسرا رائٹر ہے، شاہد نظامی۔ اس کی مشہور سیریل : ’کتنی گرہیں باقی ہیں‘ کی ہر ایک قسط میں بڑے بڑے آرٹسٹ تھے۔ ماریہ واسطی و الا ’کوٹ روم‘ بھی عوام میں مقبول ہوا تھا۔ اس کے لکھے ہوئے ڈرامے ’ستم‘ ، ’خلش‘ مشہور ہوئے۔ میری بیگم نسرین نظامی بھی ڈرامے لکھتی ہیں“۔

” میوزک کسی چینل میں بشمول پی ٹی وی نظر ہی نہیں آ رہا۔ آپ سے کہا جائے کہ ’تم سنگ نیناں لاگے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘ قسم کی کوئی چیز بنائیں تو۔ ۔ ۔ ۔ ۔ “

میری بات کاٹتے ہوئے فوراً جواب دیا: ”بالکل بناؤں گا۔ میرے پاس ایسی بہت سی چیزیں ہیں۔ مجھے پوچھیں تو سہی! آپ کو بھی پتہ ہو گامجھے کوئی بلاتا ہے تو میں شوق سے جاتا ہوں۔ پی ٹی وی والوں نے بھی بلایا تھا تو میں گیا تھا“۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا: ”میرے پی ٹی وی میں آنے کی کہانی یہ ہے : محسن علی بھائی نے جمشید انصاری کو کہا جاپانی پلے سے اخذ ایک ڈرامہ کرنا ہے ’آج کا انتخاب‘ ۔ اس سلسلے میں عالمی ادب سے کوئی کہانی منتخب کر کے اردو میں لکھ کر ڈرامائی شکل دی جاتی تھی۔ پہلی ایک جاپانی کہانی تھی جس میں دو جڑواں مالک اور دو جڑواں نوکر ہوتے ہیں۔ مالک بھی ایک شرارتی اور ایک شریف اور نوکر کے بھی یہ ہی ایک شرارتی اور ایک شریف کا ڈبل رول تھا۔

مالک کا کردار جمشید انصاری کر رہے تھے۔ محسن بھائی نے کہا کہ کوئی ایسا آرٹسٹ ڈھونڈو جو اس کردار میں چلے۔ اُس زمانے میں نواب کیفی کا اسٹیج پلے ’بدھو کہیں کا‘ میں جمشید کے ساتھ کر رہا تھا۔ محسن بھائی وہ دیکھنے آئے۔ دیکھنے کے بعد کہا کہ آپ ٹی وی نہیں آتے؟ میں نے کہا آپ بلاتے ہی نہیں۔ ہنسنے لگے اور کہنے لگے آپ کل آ جائیے۔ بس دماغ میں ایک بات بیٹھی ہوئی تھی کہ جب تک بلائیں گے نہیں ہم جائیں گے نہیں۔ تو ’آج کا انتخاب‘ میں پہلا پلے ’غلط در غلط‘ کیا۔

ٹی وی پر آمد ایک مشکل ڈبل رول سے ہوئی۔ مجھے ٹی وی پر لانے کا سہرا جمشید انصاری کے سر ہے۔ اِس سیریل میں، میں وا حد اداکار تھا جِس نے پانچ اقساط میں کام کیا۔ پھر اس کے بعد ’شہزوری‘ کیا جو میرا اور حسینہ معین دونوں کا پہلاسلسلہ وار ڈرامہ تھا۔ پھر اِس کے بعد سلسلہ چل نکلا۔ 1971 میں بچوں کے لئے ڈرامہ ’کھیل کھیل میں‘ اداکاری کی۔ ’ساتھی‘ قاسم جلالی کا بچوں کے لئے ایک سلسلہ تھا۔ پھر ’سائبان‘ جِس میں طلعت اقبال اور سنبل ہیرو ہیروئن تھے۔ اِس کے بعد مشہورِ زمانہ

’ انکل عرفی‘ کیا۔ اِس میں میرے ساتھ جمشید انصاری کا بھی کامیڈی کردار تھا۔ عوام میں یہ کردار بہت مقبول ہوا۔ میں نے سوچامیرا رشید بھائی کاکردار اتنا زیادہ مقبول نہیں جا رہا لہٰذا خود ہی کہانی سے نکل گیا تا کہ جمشید انصاری کو کھل کر کام کرنے کا موقع ملے ”۔

” پھر اس طرح میری گاڑی چل پڑی۔ شکیل صاحب، نیلو فر علیم، میں ( خالد نظامی ) ، محمد یوسف، محمود علی، قاضی واجد، جمشید انصاری وغیرہ کی یہ پوری ٹیم پاکستان ٹیلی وژن کے خوش قسمت تاریخ ساز لوگ ہیں۔ ہم سب ا ور حسینہ معین کا یہ پہلا ڈرامہ تھا جو ملکی تاریخ کا پہلا فیملی کامیڈی پلے ہے۔ میرا کردار آفاق بھائی کا تھا۔ مجھے اس کردار سے بے حد پبلسٹی / مشہوری نصیب ہوئی۔ آج کل جو لوگ کام کر رہے ہیں یہ دور اُنہیں کہاں نصیب! “۔

” میں اُس کھیپ کا سینیئر فنکار ہوں۔ معین اختر کو میرے پاس پاکستان میوزک ہاؤس والے محمد یوسف لے کر آئے تھے۔ میں نے معین کو اسٹیج پر متعارف کروایا۔ پھرپی ٹی وی میں پروگرام ’سنڈے کے سنڈے‘ میں لایا۔ میں نے ہی اسی پروگرام میں عالمگیر کو متعارف کروایا۔ پروگرام ’سنڈے کے سنڈے‘ ( 1972 ) میرا لکھا ہوا اور میرا شو تھا“۔

” مجھے کمپوزیشن کا شروع سے شوق تھا۔ مدن موہن، سلیل چوہدری، ایس ڈی برمن، آر ڈی برمن، رَو ی، او پی نیر وغیرہ کو سن کر ہی میں نے سیکھا۔ لہٰذا مجھ میں وہی رنگ آ گیا۔ ’تم سنگ نینا لاگے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘ یہاں کا پاکستانی اسٹائل نہیں تھا۔ یہ گیت اب پھر ریکارڈ ہوا ہے۔ شبنم مجید نے گایا ہے۔ ان لوگوں کو شرم نہیں آتی کہ تکلفاً ہی سہی، کم از کم آدمی پوچھ ہی لیتا ہے۔ یا پھر نام ہی لے لیتا ہے کہ یہ خالد نظامی کی کمپوزیشن ہے۔ یہ گھٹیا حرکت ہے“۔

خالد نظامی کا اشارہ اُن کے اسی گیت کا فلم ’8969‘ میں راحیل فیاض کی آواز میں گانا اور دوسری گلوکارہ شبنم مجید کی آواز میں 57 / B Studio کی طرف سے جاری کردہ ہے۔ یہ یو ٹیب پر دیکھے جا سکتے ہیں۔

خالد نظامی کا کہنا تھا : ”ہاں! تقریباً دس سال پہلے صدف منیر نے مجھ سے پوچھا تھا کہ روبن جون کی موسیقی میں یہ ری ریکارڈ ہوا ہے۔ مجھے علم بعد میں ہوا کہ یہ آپ کی کمپوزیشن ہے۔ اب ’تم سنگ نیناں لاگے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘ کا انگریزی اسٹائل کر کے بیڑا ہی غرق کرکے فلم میں بھی ڈال دیا گیا ہے۔ یہ تو ہماری ثقافت کے اسٹائل کا گیت تھا۔ اس کا یہ حشر! “۔

” اس کی استھائی میری لکھی ہوئی تھی۔ اسد محمد خان نے انترے لکھے تھے۔ انہوں نے بھی اپنی کتاب میں لکھ دیا کہ گیت ’تم سنگ نیناں لاگے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘ کے موسیقار عارفین ہیں۔ اُس فلر میں عارفین نے میرا موسیقار میں نام ہی نہیں دیا تھا۔ محض گنتی کے لوگ ہی جانتے تھے کہ یہ گیت خالد نظامی کی کمپوزیشن ہے۔ لوگوں کو بہت بعد میں علم ہوا کہ اصل کمپوزر کون ہے۔ بعد میں، میں نے اپنے انٹرویوز میں بھی بتایا“۔

” اس وقت بھی میرے پاس اپنی 18 سے زیادہ کمپوزیشنز بنی ہوئی ہیں۔ میرے گانے تھیم سونگ میں بھی فٹ ہوتے ہیں اور وہ پورے پورے گانے بھی ہیں۔ ان کے علاوہ بہت سے ایسے گانے بھی ہیں جو پی ٹی وی لاہور سے ایک ایک بار چلے۔ انہیں اے نیر، شمسہ کنول، مجیب عالم اور غلام علی، مہناز وغیرہ کی آوازوں میں ریکارڈ کیا گیا۔ میں سیچو ایشن پر بھی نیا گانا بنا سکتا ہوں“۔

” کوئی ٹی وی چینل سنجیدہ ہو، معقول بجٹ ہو تو غزل گیت کے پروگرام کو اسپانسر شپ ملنا کوئی مشکل نہیں ہے“۔ ہ کہتے ہوئے خالد نظامی نے گٹار اٹھایا ور پروین شاکر کا یہ گیت سنایا:

سندر کومل سپنوں کی بارات گزر گئی جاناں

دھوپ آنکھوں تک آ پہنچی ہے رات گزر گئی جاناں

” میں نے یہ گیت مجیب عالم سے گوایا تھا۔ اس کا پس منظر یہ ہے کہ معین اختر مجیب عالم اور میں شو کرنے ملتان گئے۔ میرا، مجیب عالم اور معین اختر کا چوبیس گھنٹوں کا ساتھ تھا۔ وہاں علم ہوا کہ ریڈیو پاکستان کراچی کے عقیل اشرف صاحب یہاں کے ریجنل ڈائریکٹر لگے ہوئے ہیں۔ کیا کمال آدمی تھے۔ اب وہ ہیوسٹن میں ہیں۔ بہر حال وہ بہت خوش ہو ئے۔ مجیب سے کہا کہ یہاں کچھ گانے ریکارڈ کروا دو۔ مجھے کہا ایک گانا تم بناؤ ایک دو یہاں کے کمپوزر سے بنواتا ہوں وہ بھی خوش ہو جائیں گے کہ اتنے بڑے گلوکار کو گوایا۔ میں

نے اُن کی ٹیبل پر پروین شاکر کا کلام پڑا ہوا دیکھا۔ اُس کو کھولا تو جو صفحہ سامنے آیا اُس پر یہ گیت لکھا ہوا تھا: ’سندر کومل سپنوں کی بارات گزر گئی جاناں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘ ۔ میں نے وہیں بیٹھ کر گانا بنایا وہیں مجیب نے یاد کیا۔ وہیں اندر جا کر ریکارڈ ہوا۔ ریڈیو پاکستان ملتان کے میوزیشن یہ گانا کر کے اتنا خوش ہوئے۔ کہنے لگے یہ اسٹائل ہم نے آج تک نہیں سنا ”۔

” کچھ اخلاق احمد کے بارے میں بھی گفتگو ہو جائے؟ “۔ میں نے سوال کیا۔

” اخلاق بھی میرا پرانا ساتھی تھا۔ اُس زمانے میں آرٹ سرکل ہوا کرتے تھے۔ جیسے۔ ’جوبلی آرٹ سرکل‘ ، ’نغمہ آرٹ سرکل‘ ، ’رم جھم آرٹ سرکل‘ وغیرہ۔ ایک ’بزمِ سنگیت‘ بھی تھی۔ اس میں استاد حبیب خان المعروف بیبے خان گا رڈن والے تھے۔ جمال اکبر بھی یہاں گایا کرتا تھا۔ میں جمال کے ساتھ وہاں چلا گیا۔ اُس وقت ٹی وی نہیں تھا۔ اخلاق یہاں بینجو بجاتا تھا“۔

” کیا شوقیہ؟ “۔ میں نے پوچھا۔

” نہیں! یہ وہاں با قاعدہ اُس گروپ میں بینجو نواز تھا۔ پہلے وہ سب کے ساتھ بینجو بجاتا تھا پھر اُس کے آگے مائک لگا دیا جاتا اور وہ محمد رفیع کے گانے بینجو بجا کر گاتا تھا۔ وہاں پر اور باہر کے ورائٹی پروگراموں میں چھ سات میوزشن ہوتے تھے۔ ہم نے ایک دو پروگرام ساتھ کیے تو میں نے اس سے کہا کہ تم اچھے خاصے خوش شکل آدمی ہو اور گاتے بھی اچھا ہو۔ بینجو کو چھوڑو اور کھڑے ہو کر سنگروں کی طرح گانا گایا کرو۔ ورنہ بینجو کے ساتھ گا کر بھی تم بینجو والے ہی ہو۔ بینجو بجانا ہے تو بجاؤ لیکن گانا گاتے ہوئے اس کو چھوڑ کر کھڑے ہو کر گاؤ۔ اس کو میں نے کھڑا کروایا۔ جیسے ہی بینجو چھوڑا یہ فنکشنوں میں ہِٹ ہو گیا“۔

” دو چیزیں اہم ہیں۔ ایک آپ کی محنت دوسرے آپ کا نصیب۔ میں نے گوروں سے ایک بات سیکھی کہ نصیب آدمی خود بناتا ہے۔ اخلاق نے بھاگ دوڑ کی۔ کہیں ایسی جگہ گا دیا جہاں کوئی خاص اثر و رسوخ والے لوگ بیٹھے ہوئے تھے۔ یوں اسے اچھے مواقع مل گئے۔ پھر قسمت اسے روبن گھوش کے پاس لے گئی۔ فلم ’چاہت‘ ( 1974 ) میں اختر یوسف کے گیت ’ساون آئے ساون جائے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘ نے اخلاق کو سپر ہٹ کرا دیا۔ پھر وہ بڑا سنگر بن گیا“۔

” میں نے ریڈیو پاکستان لاہور میں بھی کمپوزیشنز کی ہیں۔ اے نیر نے مجھے کہا کہ ایک پروگرام آیا ہے۔ ریڈیو کے لئے کام کرو۔ اُس پروگرام میں، میں نے مہدی حسن، پرویز مہدی، فرید ہ خانم، مہناز اور بہت سے دوسرے سنگروں کو گوایا“۔

خالد نظامی کے فلموں میں جانے کی کہانی یوں ہے :

” میرا ٹی وی پر میمن کا کردار ہٹ ہو گیا۔ ڈرامہ“ ممی ”میں میمن میوزک ڈائریکٹر بنا تھا۔ اسی ڈرامہ میں غلام محی الدین پہلی مرتبہ ہیرو آیا تھا۔ یہ منٹو رامہ کا پلے تھا۔ اس کو دیکھ کر ڈائیریکٹر منور رشید نے مجھے پکڑ لیا کہ فلم کرو لاہور چل کے۔ میری پہلی فلم تھی

’ پیار کا موسم‘ ۔ میرا اصول تھا کہ جو بلائے گا اُسی کا کام کروں گا۔ یہ آج تک قائم ہے۔ مجھے دو سال گھر بیٹھنا قبول ہے لیکن اس

اصول کو چھوڑ نا قبول نہیں۔ میرے بچوں کو کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ ان کا باپ تو ہمارے پاس کام کے لئے بیٹھا رہتا تھا۔ یہ میں نے قربانی دی ہے۔ خیر! یہ کامیڈی فلم تھی۔ میرا پہلا فلمی شا ٹ عظیم کامیڈین منور ظریف صاحب کے ساتھ ہو ا۔ اُنہوں نے میری بہت حوصلہ افزائی کی۔ اِس فلم میں لہری اور ننھا بھی تھے۔ میرا کردار میمن سیٹھ کا تھا ”۔

” اِس کے بعد پرویز ملک صاحب نے مجھ سے فلم ’پہچان‘ میں کام لیا۔ یہ فلم سُپر ہٹ گئی۔ اِس فلم کی شوٹنگ کے دوران مجھے ندیم صاحب نے کہا کہ نذر الاسلام سے کیوں نہیں ملتے؟ وہ خود مجھے نذر الاسلام صاحب کے پاس لے کر گئے۔ انہوں نے مجھے اپنی فلم ’حقیقت‘ میں کردار دیا۔ اِس کے علاوہ ’کوشش‘ ، ’خوش نصیب‘ ، ’بیوی ہو تو ایسی‘ میں بھی اداکاری کی۔ پھر لاہور کی فلمی دنیا میں غیر پیشہ ور لوگ آ گئے اور معیاری فلمیں بننا کم ہو گئیں لہٰذا میں بھی کراچی آ گیا“۔

خالد نظامی کی ٹیلی وژن اور کراچی میں دوبارہ آمد خوشگوار ثابت ہوئی:

” یہاں میں نے ’‘ ان کہی ’‘ میں کام کیا۔ اِسی زمانے میں معین اختر آدم جی ہال میں تھیٹر کر رہا تھا۔ رزاق راجو اُن کی ٹیم کا ایک ذہین ڈائریکٹر اور کامیڈین تھا۔ ایک ڈرامے کی ریہرسل ہورہی تھی جِس میں عمر شریف نے بھی اداکاری کرنا تھی۔ کسی وجہ سے وہ پہلے روز نہ آ سکا۔ مجھے رزاق راجو نے کہا کہ عمر شریف کے مکالمے بول لو تا کہ ریہرسل ٹھیک ہو۔ دوسرے روز پھر یہی کہانی ہوئی اور عمر شریف نہیں آیا۔ تیسرے روز بھی جب عمر شریف نہیں آیا تو میں نے اُس کے مکالمے باقاعد ہ ادا کاری کے ساتھ ادا کیے۔

اِس طرح سات ریہرسلوں میں عمر شریف نہیں آیا۔ میں نے اُس کے مکالمے بول کر باقی اداکاروں کی ریہرسل کروائی۔ شو سے ایک رات قبل رزاق راجو میرے گھر آیا اور کہا کہ عمر شریف نے آنے سے قطعی معذرت کر لی ہے لہٰذا اب تم نے اُس کا کردار ادا کرنا ہے۔ ڈرامے کا نام تھا ’یا شیخ ویزہ بھیج‘ ۔ اُس دور میں ڈرامہ ٹیم میں لاہور سے ایک بڑا اداکار لازم ہواکرتا تھا۔ ہمارے شو میں اورنگ زیب لغاری تھے۔ پہلا ہی شو ہاؤس پیک رہا۔ ہم نے 15 شو کیے۔ تمام ہاؤس پیک۔ ہمارے ڈرامے کے فوراً بعد ڈرامہ ’فرق صاف ظاہر ہے‘ اسی ہال میں پیش کیا گیا۔ اِس ڈرامے میں لاہور کے ادا کار شجاعت ہاشمی تھے۔ بعض لوگوں کا خیال تھا کہ یہ ڈرامہ ہمارے ڈرامے سے کہیں زیادہ

کامیاب ہو گا اور ’فرق صاف ظاہر ہو جائے گا‘ ۔ مگر۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جسے اللہ رکھے اُسے کون چکھے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ان کی ٹیم کا پہلا ہی شو فلاپ گیا۔ اپنے باقی کے دِن یعنی اپنے باقی کے 14 شو ہم کو دے دیے۔ یوں پھر سے ’یا شیخ ویزہ بھیج‘ پیش کیاگیا۔ اورنگ زیب لغاری کی جگہ وہ کردار شجاعت ہاشمی نے ادا کیا۔ اِس ڈرامے کے تمام 29 شو ہاؤس پیک گئے ”۔

” کراچی میں جو فلمیں بن رہی ہیں کیا وہ فلمیں کہلائی جا سکتی ہیں یا طویل دورانیے کے ٹی وی ڈرامے؟ “۔

” ا س سوال کے جواب میں خالد نظامی نے کہا :“ ہمارا ٹی وی ڈرامہ اچھا ہے اور بھارت کی فلمیں۔ لوگ ٹکٹ خرید کر فلم دیکھتے ہیں۔ ٹی وی گھر بیٹھے دیکھا جاتا ہے۔ فلم پاورفل ہو تب ہی کوئی جیب سے پیسہ بھی نکالے۔ یہ بات صحیح ہے کہ کراچی کی زیادہ فلمیں ٹی وی لانگ پلے ڈراموں کی طرح ہی بنائی جا رہی ہیں۔ ’مہر النسا وی لب یو‘ ڈرامے کی طرح لائٹ کامیڈی فلم تھی۔ اس میں فلم والی کوئی اتنی زیادہ بات نہیں تھی ”۔

” آپ 70 کی دہائی میں فلموں میں گئے اور 80 کی دہائی تک کام کیا۔ فلم کا تجربہ کیسا لگا؟ “

” فلم کا تجربہ بہت اچھا لگا۔ اُس وقت بہت کام ہو رہا تھا۔ میں 1974 میں فلموں میں گیا تھا۔ منور رشید کے بعد دوسروں نے بھی کاسٹ کیا۔ پرویز ملک اور ایم اے رشید نے بھی کاسٹ کیا۔ نذر الاسلام کی فلم“ حقیقت ’‘ میں، میں وحید مراد کے ساتھ تھا۔ فلم ’‘ درد ”میں اقبال اختر نے کاسٹ کیا۔ پھر“ کوشش ”، “ شرمیلی ”، “ ملن ”، “ اچھے میاں ”وغیرہ۔ پھر تو فلموں کی لائن لگ گئی۔ میرا کام بہت پسند کیا گیا۔ میری وہاں آخری فلم“ زنجیر ”تھی۔ “۔

” لاہور میں تین چار ڈائریکٹر ایسے تھے جن کو معلوم تھا کہ فلم کیسے بنتی ہے۔ وہ پرویز ملک، نذر الاسلام اور منور رشید ( فلم

’ نئی لیلیٰ نیا مجنوں‘ والے ) تھے ”۔

” منور ظریف کے ساتھ سین فلم بند کرنے کے بعد اُن کا کیا رد عمل آیا؟ “۔

” گرم جوشی سے گلے لگایا۔ اب اُس جیسے فنکار پیدا نہیں ہو سکتے۔ مجھے دیکھ کر کہنے لگے کہ میں کراچی کے کامیڈی ڈراموں میں، میں تم ہی کو پسند کرتا ہوں۔ باقی کراچی کے تمام آرٹسٹ بہت اچھے ہیں۔ منور ظریف فی البدی، برمحل اور برجستہ جملے بولنے میں اپنا ثانی نہیں رکھتے تھے۔ اُن کے ساتھ میں نے بھی فی البدی بولا۔ سین کے بعد وہ بہت خوش ہوئے اور کہا مز ہ آیا“۔

” جس ایکٹر کو میوزک کی سمجھ نہیں وہ ادھورا ہے۔ اس وقت ہمارے ہاں جتنے ایکٹر کام کر رہے ہیں سب ’بے تالے‘ ہیں۔ ردھم کے اندر تالی نہیں دے سکتے۔ ردھم میں یہ لوگ ناچ نہیں سکتے۔ چل نہیں سکتے۔ بھارتی ایکٹروں کے اندر میوزک بھرا ہوا ہے۔ جس کو میوزک کی الف ب معلوم ہے وہی سمجھ دار ہے۔ منور ظریف تو گانے بجانے کی غضب کی سمجھ رکھتے تھے۔ ان کے بڑے بھائی ظریف نے تو پنجابی فلموں میں گانے بھی گائے ہیں“۔

” لاہور سے واپس کراچی آ کر بھی میں نے یہاں کی فلموں میں کام کیا۔ کیوں کہ میں فلموں کی ضرورت بنا ہوا تھا“۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا : ”پروگرام ’ففٹی ففٹی‘ میرا آئڈیا تھا۔ میں اسے لکھ کر لاہور چلا گیا تھا۔ محسن بھائی نے مجھے فون کیا کہ یہ پروگرام منظور ہو گیا ہے۔ اب میں کیا کروں؟ میں نے کہا کہ میں تو فلمیں کر رہا ہوں۔ میرا آئڈیا یہ تھا کہ کراچی اسٹیج کے جتنے کامیڈین ہیں اُن کو ٹی وی پر لا کر کام کرایا جائے۔ ان کو تو کبھی بھی موقع نہیں ملا تھا۔ لیکن کامیڈین نہیں بلکہ ادھر اُدھر سے لوگ اکٹھے کر لئے گئے۔ جن کو کام نہیں آتا تھا۔ لیکن جو بھی آئے ان کے نصیب جاگ گئے۔ معین اختر تو با قاعدہ میرا شاگرد تھا۔ اُس نے میمن اور پنجابی لہجہ مجھ سے سیکھا۔ چوبیس گھنٹے میرے ساتھ ہوتا تھا۔ جب تک میں کراچی میں تھا وہ مارکیٹ میں نہیں آیا۔ کیوں؟ اس لئے کہ لوگ مجھے لے رہے تھے“۔

” فلم ’بیوی ہو تو ایسی‘ ( 1982 ) کی شوٹنگ ہو رہی تھی۔ اس فلم کے ہدایتکار زاہد شاہ تھے جو پرویز ملک کے چیف اسسٹنٹ تھے۔ ایک جملہ میں نے بولا تو لہری صاحب مجھ سے کہنے لگے : یار یہ جملہ مت بولو۔ میں نے کہا کیوں؟ کہنے لگے بس مت بولو۔ میں نے کہا لہری صاحب ساری زندگی ہو گئی آپ کو یہ کرتے ہوئے۔ منور یہ جملہ نہ بولو، ننھا یہ جملہ نہ بولو۔ ۔ ۔ ۔ ۔ سنیما بین کو نہیں پتہ کہ آپ نے سامنے والے اداکار کو بولنے ہی نہیں دیا۔

آپ یہی چاہتے تھے کہ لوگ یہ ہی کہتے رہیں کہ لہری صاحب کی کیا بات ہے! جب کوئی اچھا جملہ آپ کے سامنے کسی نے بولا آپ نے منع کر دیا۔ آپ کی عزت کی وجہ سے لوگ خاموشی سے سر جھکائے آپ کی بات مانتے رہے۔ میں نے کہا کہ میں کسی کی کاپی نہیں ہوں۔ منور ظریف، ظریف کی کاپی تھا۔ ننھا بھارتی کامیڈین گوپ کی کاپی تھا۔ آپ (لہری) یعقوب کو نقل کرتے ہیں۔ معین اختر مجھے کاپی کرتا ہے۔ میں کسی کا شاگرد نہیں نہ کسی کو کاپی کرتا ہوں۔

میرا اپنا اسٹائل ہے۔ میں خالد نظامی ہوں۔ مجھے نہ کہیے کہ یہ نہ بولو وہ نہ بولو۔ میں تویہ جملہ بولوں گا۔ وہ جملہ میں نے بولا اور یہ اس فلم کا سب سے ہٹ جملہ تھا۔ ایسے اس فلم میں دو تین جملے تھے۔ فلم ’پہچان‘ میں بھی میرے لگائے ہوئے جملے سپر ہٹ ہوئے تھے۔ میں نے تو آج تک کسی کو نہیں کہا کہ یہ نہ بولو وہ نہ بولو۔ منور ظریف کے سامنے بھی ایسا ہی ہوا۔ انہوں نے تو نہیں کہا کہ یہ جملہ نہ بولو۔ بلکہ الٹا حوصلہ افزائی کی۔ یہ جملوں کی امپرووائزیشن یعنی جملوں کو مزید بہتر کرنا کہلاتا ہے۔ جیسے منور ظریف 8 لائنوں کے سین کو مزید بہتر کر کے بعض اوقات 16 لائنوں کا کر د یتے تھے۔ ہمیں فلموں میں لیا ہی اس لئے جاتا تھا کہ جملوں کو بہتر کر کے کردار میں جان ڈالیں اور فلم بینوں کو ہنسنے پر مجبور کریں ”۔

” ایک مثال دیتا ہوں۔ اسی سین کے مکالمے :

” سیٹھ تم شیو نہیں کرتے؟ “

سیٹھ کو کنجوس دکھایا گیا ہے۔ ”میں تو کھانا بھی کم کھاتا ہوں“۔

” اس جملے پر منور ظریف ہنس ہنس کے پاگل ہو گیا۔ میں سیٹھ کے ہاں سیکریٹری ہوتا ہوں۔ تمنا بیگم فلم کی ہیروئن شبنم کے خلاف ہے۔ میں میمنی میں کہتا ہوں :

” میں بتاتا ہوں کیا کرنے کا ہے۔ تُسی اکبر بادشاہ نوں جانتے ہو؟ “

جواب آتا ہے : ”ہاں جاننی آں“

” تو اس نے جو کام کیا تھا تسی او ہی کر دو“

تمنا کہتی ہے : ”تو پنجابی کیوں بول رہا ہے؟ “

” اس لئے کہ ذرا ہمت آوے“۔

” اب لہری صاحب کہنے لگے یہ جملہ نہ بولو“۔

” میں ٹائپ اداکار نہیں۔ میں تو لہجے لے کر آیا۔ اداکار قوی خان نے اس سلسلے میں میری تعریف اور ہمت افزائی کی“۔

ایک سوال کے جواب میں خالد نظامی نے کہا: ”معین کو جگہ بنانا آتی تھی اور وہ سب کے ساتھ چلتا تھا۔ فقیر، امیر، سرمایہ دار، وزیر سب سے بنا لیتا تھا۔ بے شک یہ اس کا وصف تھا“۔

ایک اہم بات کی جانب اشارہ دیتے ہوئے انہوں نے بتایا: ”لوگ کہہ رہے ہیں ٹی وی پر پہلے جیسا کام نہیں ہو تا۔ کام اب بھی ہو رہا ہے۔ پچھلے دور میں لوگ پہلی قسط سے ڈرامہ دیکھتے تھے۔ سمجھ میں آتا تھا کہ کیا ہو رہا ہے۔ اچھا بھی لگتا تھا۔ پی ٹی وی کے زمانے میں لوگ پہلی قسط سے دیکھتے تھے۔ اُس وقت کہنے کو ایک پی ٹی وی چینل تھا لیکن اصل میں وہ پانچ چینل تھے۔ کراچی، لاہور، کوئٹہ، اسلام آباد اور پشاور۔ اگر 10 ڈرامے آن ائر ہوتے تو ان میں سے صرف 3 ہی ہٹ ہوتے تھے۔ 7 اچھے نہیں مانے جاتے تھے۔ اب 100 ڈرامے ہوتے ہیں ان میں سے 30 اچھے اور 70 کم اچھے ہوتے ہیں۔ تناسب وہی پراناہے“۔

خالد نظامی کی بیٹھک میں بہت سی تصاویر دیوار پر آویزاں تھیں۔ ان میں، میں بھارتی کامیڈین جونی لیور کے ساتھ ان کی ایکشن کی تصویر سے متعلق پوچھا تو انہوں نے بتایا: ”جونی لیور اور جتنے بھارتی اداکار امریکہ میں ملے انہوں نے میری بڑی عزت کی۔ جونی ایک جگہ میرے ساتھ کاسٹ بھی ہوئے۔ پروجیکٹ فی الحال ملتوی ہے۔ میں نے ریاست ہائے متحدہ امریکہ میں قادر خان ( م ) کے چار شو کیے۔ بہت مزہ آیا“۔

” ایکٹنگ اور پروڈکشن سکھانے کے لئے پونا فلم اکیڈمی میں پی ٹی وی کے ڈرامے رکھے ہوئے ہیں۔ باقی ایکٹروں کے ایک ایک د و دو اور میرے چار ڈرامے ہیں۔ انکل عرفی، ان کہی، شہز وری اور سائبان۔ ان کو دیکھ کر وہاں کے طلباء سیکھتے ہیں۔ میوزک میں ایسا نہیں۔ ا حمد رشدی اور سلیم رضا فلم کے اچھے گلو کار تھے لیکن ا ن کو صحیح کمپوزر نہیں ملے۔ کمپوزیشن ہِٹ ہوتی ہے سنگر ہٹ نہیں ہوتا۔ میں نے ملی نغمہ بھی کمپوز کیا: ’یہ وطن میرا وطن ایمان والوں کا وطن۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘ اسے محمد افراہیم نے گایا تھا“۔

” کشور اور رفیع اچھے گلوکار تو تھے ہی لیکن ان کو کمپوزر بھی اچھے ملے۔ مدن موہن، سلیل چوہدری، ایس ڈی برمن، روی، آر ڈی برمن، کلیان جی آنند جی، لکشمی کانت پیارے لال، شنکر جے کشن۔ ۔ ۔ ۔ ۔ لتا کے کئی ایسے گانے ہیں جو ڈبوں میں چلے گئے۔ کشور اور رفیع کے بھی کئی گانے اسی حال کو پہنچے۔ اِن گلوکاروں کی جو کمپوزیشنز اچھی تھیں وہی چلیں۔ اچھا کمپوزر ہو تو کمزور سنگر بھی ہٹ ہو جاتا ہے۔ کریم شہاب الدین اور روبن گھوش اچھے کمپوزر اور میوزک ڈائریکٹر تھے“۔

” کراچی اسٹیج کی کمپئیرنگ بھی میں نے بدلی۔ پہلے ’آج کی رات۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘ سے شروعات ہوتی تھیں۔ میں نے کامیڈی اور بات چیت شروع کی۔ پھر ایک سنگر کو بلا لیا۔ اس نے تین چار گانے گائے پھر میں نے دو ایک لطیفے سنائے۔ ہلا گلا کیا پھر ایک سنگر کو بلا لیا۔ یہ اسٹائل میں نے دیا۔ باقیوں نے مجھ سے سیکھا۔ معین کو میوزک کی سمجھ تھی اس لئے اچھا آرٹسٹ تھا۔ امریکہ میں پروموٹر کَنّو بھائی چَو وَان نے راحت فتح علی خان کے پروگرام کی کمپیرنگ مجھ سے کروائی۔

یہ شو نیو یارک میں ہوا۔ تین ہزار افراد کا ہال تھا۔ جب تک بڑے آرٹسٹ نہ ہوں امریکہ میں پانچ سو آدمی اکٹھے کرنا بھی آسان نہیں ہوتا۔ اُس پروگرام میں بارہ سو آدمی واپس ہو ئے۔ کیسے علم ہوا؟ فائر ڈ پارٹمنٹ والوں نے بتایا۔ وہاں گنجائش سے زیادہ ایک فالتو آدمی اندر نہیں جا سکتا۔ پروگرام کے بعد ایک اور پروموٹر شرما جی بھی آ گئے۔ باتوں باتوں میں، میں نے کہا کہ آپ کے شو میں اگر پاکستانی نہ آئیں تو شو فلاپ ہو جائے۔ وہ سب کہنے لگے خالد نظامی صحیح کہہ رہا ہے۔ بھارتی شو میں ہزار میں سے چھ سو پاکستانی ہوتے ہیں۔ لیکن پاکستانی شو آپ لوگ دیکھنے نہیں آتے۔ کہنے لگے ہم مہدی حسن غلام علی کے علاوہ کسی پاکستانی فنکار کوجانتے ہی نہیں۔ صرف ان ہی کو دیکھنے آتے ہیں۔ بلکہ ان کے شو میں اکثریت بھارتیوں کی آتی ہے ”۔

” اس وقت فلم، ٹی وی، میوزک کس طرف جا رہا ہے؟ “

” یہ بہتری کی طرف جا رہا ہے۔ پہلے فلمی دنیا میں پڑھے لکھے لوگ نہیں تھے۔ اس وقت 100 فی صد ہیں۔ کیمرہ مین، ڈائریکٹر، اسو سیٹ ڈائریکٹر، تکنیکی ماہرین، اداکار، سپورٹنگ ایکٹر وغیرہ سب پڑھے لکھے ہیں۔ اب یہ انڈسٹری بہتری کی جانب جا رہی ہے۔ رہا میوزک! توہمارے ہاں میوزک کو شروع سے دبا دیا گیا ہے“۔

خالد نظامی بیک وقت اچھا کمپئر، سنجیدہ اور مزاحیہ اداکار، کمپوزر ارینجر، میوزشن اور گلو کار ہے۔ یہ خاکسار اپنے اس دوست کے جس ہنر کو سب سے مقدم مانتا ہے وہ اُس کا کمپوزر اور ارینجر ہونا ہے۔ آج سے 50 سال پہلے انہوں نے جو گانا کمپوز اور ارینج کیا۔ صرف وہ ہی اِن کو عظیم تر بنانے کو کافی ہے۔ دعا ہے کہ خالد نظامی کو صحت اور عافیت والی زندگی عطا ہو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments