یہ فیصلہ عمران خان ہی کر لیں


تو کیا ہم عمران خان کی بے سروپا تقریریں سنتے اور سر دھنتے رہیں یا اپنے گردو پیش کے حقائق کو مد نظر رکھنا پڑے گا۔ اور حقائق یہ ہیں کہ کیا ملک تاریخ کی بد ترین مہنگائی کی لپیٹ میں نہیں؟ اور کیوں نہ ہو جب آٹا اور چینی جیسی بنیادی ضرورتوں کے بحران کا عذاب عوام کے سروں پر اُترے لیکن وزیراعظم کے چرب زبان رفقاء اسی بحران کے عقب میں اپنی دنیا سنوارتے جائیں۔

بات ”رفقاء“ کی ہی چلی ہے تو
” لذیذ بود حکایت دراز تر گفتم“

سنتے جائیں اور کڑھتے جائیں، آٹے اور چینی کے بحران پر وزیراعظم صاحب نے جو کمیٹی بنائی ہے اس کی باگ ڈور جہانگیر ترین اور خسرو بختیار کے ہاتھ میں ہے۔ ایک کو سپریم کورٹ نا اھل کر چکا ہے اور دوسرے کے خلاف نیب کیسز چل رہے ہیں۔ یعنی جس کے سبب بیمار ہوئے تو وزیراعظم صاحب عین اسی عطار کے لونڈے کے دکان پر ہی بھیج چکے ہیں۔

ذرا لمحہ بھر کو تصور کریں کہ جب جہانگیر ترین اور خسرو بختیار جیسے گھاک لوگ اپنے سروں کو ہتیلیوں میں تھام کر بھیٹیں گے تو موضوع سخن میرا اور آپ کا دکھ ہوگا؟ یا ”مشترکہ مفادات“ اور نئے مواقع کی تلاش لیکن چور اور ڈاکو کی گردان بد ستور جاری رہے گی اور ایک مجنوں نما حماقت اس پر برابر جھومتی بھی رہے گی۔

ایک اور منظر ملاحظہ ہو۔

اگلے دن ڈیووس میں وزیراعظم عمران خان، ڈونلڈ ٹرمپ سے مذاکرات کرتے رہے۔ ٹیلی وژن کیمرہ وزیراعظم کے رفقاء کی جانب گھوما تو مجھے حیرانی سے زیادہ غصے نے آلیا کہ خارجہ معاملات کن کوڑھ مغز ہاتھوں میں آگئے ہیں نہ پروٹوکول سے شناسائی، نہ سفارتی آداب کا سلیقہ۔ وفد میں زلفی بخاری بھی جدید تراش خراش کا سوٹ پہنے برا جمان تھے موصوف کے خلاف نیب کرپشن کی انکوائری کر رہا تھا کہ وزیراعظم عمران خان کے ایک انتہائی متنازعہ حکم پر انکوائری اچانک ختم کردی گئی جس پر اپوزیشن جماعتوں اور میڈیا نے شور مچا کر زمین آسمان ایک کر دیے لیکن عین اسی وقت وزیراعظم زلفی بخاری کو لے کر امریکی صدر سے ملنے پہنچے۔

کیا کرپشن کے حوالے سے حد درجہ متنازعہ شخص کو صدر امریکہ کے سامنے بٹھانا پروٹوکول اور سفارتی آداب کی خلاف ورزی نہیں؟

لیکن فورًا یاد آیا کہ زلفی بخاری کی اہمیت اس سے بھی کہیں بڑھ کر ہے جب کچھ عرصہ پہلے سعودی شہزادے سے ملاقات کی خاطر وزیراعظم جہاز پر چڑھ گئے تو زلفی بخاری کا پوچھا کسی نے بتایا کہ ان کا نام ای سی ایل پر ہے اور وہ قانونی طور پر ملک سے باھر نہیں جا سکتے، یہ سننا تھا کہ وزیراعظم نے حکم جاری کیا کہ جہاز اس وقت تک نہیں اُڑے گا جب تک زلفی بخاری کو جانے کی اجازت نہ دی جائے سو اس ملک میں مختلف اوقات میں لاڈلوں کی جو ناز برداریاں اُٹھانے کی روایت چلی آرہی ہے اسی روایت کو یہاں بھی نبھایا گیا اور ای سی ایل میں نام ہونے کے باوجود بھی زلفی بخاری چند لمحوں بعد وزیراعظم عمران خان کے ہمراہ شہزادے سے ملنے کے لئے محو پرواز تھا۔

لیکن چلیں ہم ان باتوں کو پس پشت ڈال کر تنقید اور اعتراض کی بجائے مروت اور اُمید کا دامن تھام لیتے ہیں۔ ہم علیمہ خان کا ذکر بھی بھول جاتے ہیں۔ بابر اعوان کے تیس ارب کا قضیہ بھی نہیں لے بیٹھتے۔ پشاور کی تباہ کن بی آر ٹی اور ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں حکومت کی اپیل سے بھی صرف نظر کرتے ہیں۔ مالم جبہ اور بلین ٹری منصوبوں کو بھی زیر بحث نہیں لاتے۔ کشمیر اور کرتار پور کا سوال بھی نہیں اُٹھاتے ایک کروڑ نوکریوں اور پچاس لاکھ گھروں کا وعدہ بھی یاد نہیں دلاتے۔ فارن فنڈنگ کیس میں الیکشن کمیشن کی حیثیت کو سپریم کورٹ میں چیلنج کرنے کے مسئلے پر بھی بحث نہیں کرتے۔ انیل مسرت کے کردار کو بھی نہیں ٹٹولتے، معاشی تباہی کو بھی سہہ لیتے ہیں۔

فردوس اعوان سے فیاض چوھان تک کو بھی برداشت کر لیتے ہیں۔ شیخ رشید کو دانشور اور فیصل واوڈا کو مدبر بھی مان لیتے ہیں۔ فواد چودھری کو مہاتما اور مراد سعید کو مسیحا ماننے پر بھی راضی ہیں۔ کنٹینر سے پھوٹتی تعفن آمیز تہذیبی بربادی کو بھی بھول جاتے ہیں۔ اپوزیشن کی قید وبند کا بھی بُرا نہیں مانتے اور خان صاحب کی مشہور زمانہ زبان کی پھسلن اور گالم گلوچ کا تذکرہ بھی نہیں کرتے لیکن ایک شرط پرصرف ایک شرط پر!

اگر عمران خان اس پر راضی ہوں کہ اب کے بار اپنی انّا کے بُت پر وار کر لوں گا تو چودھری شجاعت کے سیاسی فلسفے ”مٹی پاؤ“ کو ہم بھی بروئے کار لے آئیں گے تاکہ آگے بڑھا جائے۔

عمران خان فقط اتنا کر لیں کہ کھلے دل کے ساتھ کسی دن ٹی وی کیمرے کے سامنے بیٹھ جائیں اور بتا دیں کہ میں اپنے ہر وعدے کی تکمیل میں مکمل طور پر ناکام ہو چکا ہوں مجھے افسوس ہے کہ مجھ سے وابستہ توقعات پوری نہ ہوسکیں۔ میں اپنی نا تجربہ کاری کے باعث سیاسی قوتوں سے مسلسل اُلجھتا اور جمہوریت کو کمزور کرتا رہا جس کا نتیجہ بد ترین معاشی صورتحال اور عالمی تنہائی کی شکل میں نکلا جس کا خمیازہ اب پوری قوم بھگت رہا ہے اس لئے میں آج سے تمام سیاسی قوتوں اور پارلیمان کو لے کر آگے کی طرف بڑھنا چاہتا ہوں۔

میڈیا کی آزادی اور اپنی زبان بندی الگ سے میرے رضاکارانہ فیصلے ہیں۔ میرے رفقاء کے کردار کا تعین میری انا پرستی اور تقاریر سے نہیں بلکہ حزب اختلاف اور میڈیا کی چیک اینڈ بیلنس کے ذریعے ہوگی اور اسی کے ذریعے میرے سیاسی رفقاء کا تعین ہوگا۔ معاشی اور سیاسی صورتحال کی بہتری کے لئے باھمی مشاورت ہوگی۔

میں آج سے گزرے ہوئے دنوں کو الوداعی ہاتھ ہلاتا ہوں اور ملک اور بے بس عوام کی خاطر ایک خلوص اور استقامت کے ساتھ زمینی حقائق کے سفر کا آغاز کرتا ہوں۔

لیکن اگر خدانخواستہ عمران خان اپنی انا کے سر بفلک بت سے اُترنے پر راضی نہ ہوں تو پھر وہ بے شک وہیں کھڑے رہیں جہاں وہ کھڑے ہیں اور ہم حرف و قلم سمیت وھاں دکھائی دیں گے جہاں قصیدہ خوانوں کے پر جلتے ہیں اور اس کا فیصلہ اپنے اپنے حوصلے سمیت وقت اور حالات پر چھوڑ دیتے ہیں کہ قلم کے تلوار کی دھار کند پڑ جاتی ہے یا مصنوعیت کا بُت پاش پاش ہو جاتا ہے۔

حماد حسن
Latest posts by حماد حسن (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments