آٹا آٹا کردی نی میں آپ آٹا ہوئی


یہ کہانی پچھلے سال اس وقت شروع ہوئی جب پنجاب کی ایک اہم شخصیت نے وزیراعلیٰ خیبر پختون خوا ہ محمود خان، ایف بی آر کے سینئر بورڈ ممبران اور سیکورٹی فورسز کے نمائندوں سے ملاقات کی۔ اس ملاقات میں بہت سارے معاملات طے پا گئے۔ فیصلہ ہوا کہ طور خم بارڈر سے گزرنے والوں ٹرکوں کا دورانیہ مزید دس گھنٹے بڑھا دیا جائے بلکہ اگست 2019 ء تک بارڈر کو چوبیس گھنٹے کے لیے روزانہ کی بنیاد پر کھولا جائے گا۔ بظاہر لگتا یہی ہے کہ یہ سارے انتظامات گندم برآمد کرنے کے لیے ہی کیے جا رہے تھے کیونکہ اس کے بعد معاملہ آگے بڑھا اور مذکورہ شخصیت نے پنجاب، سندھ اور کے پی سے تعلق رکھنے والے گندم کے برآمد کنندگان سے ملاقاتیں کیں جن میں ان تجاویز پر غور کیا گیا کہ پاکستان، افغانستان کی منڈی میں بیس لاکھ ٹن کا اضافہ صرف گندم کی مد میں کرے گا۔

یہ سارے معاملات اس وقت کے بعد تیزی سے آگے بڑھے جب ملک کے تمام اخبارات کی پیشانیاں اس خبر سے جگمگا رہی تھیں کہ حکومت نے زرعی معاملات کی دیکھ بھال کی ذمہ داری ایک اہم کاروباری شخصیت کے ذمے لگائی ہے۔ اس منصوبے کو حتمی شکل دینے کے لیے یہ مکھن لگایا گیا کہ پاکستان کے قریب ترین گندم کی سب سے بڑی منڈی افغانستان ہی ہے جہاں گندم برآمد کر کے نہ صرف پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ کیا جا سکتا ہے بلکہ اس کا فائدہ مقامی کسانوں کو پہنچے گا اور اس کے ساتھ ساتھ مقامی فلور ملوں کو بھی فائدہ ہو گا کیونکہ گندم کی کرشنگ کی مانگ میں بھی اضافہ ہو گا۔

ایک طرف تو یہ حسین پھندے لگائے جا رہے تھے اور دوسری طرف ایک اور گیم جاری تھی۔ اس گیم کا ایک پہلو تو یہ تھا کہ حکومت پاکستان سے یہ فیصلہ کرایا گیا کہ پاکستان اس سال افغانستان کو 4000 ٹن اضافی گندم خیر سگالی کے طور بطور تحفہ دے گا جبکہ دوسرا پہلو یہ تھا کہ گندم کی خریداری کا سرکاری ہدف مقرر نہیں ہونے دیا گیا۔ اس سے پہلے یہ ہوتا تھا کہ وفاقی ادارہ PASSCO تقریبا 1.5 ٹن جبکہ حکومت پنجاب تین سے چار لاکھ میٹرک ٹن خریدتا تھا جس کا مقصد اس بات کو یقینی بنانا ہوتا تھا کہ کوئی گندم کا مصنوعی بحران پیدا کر کے منافع خوری نہ کر سکے۔

ایک تو ہدف مقرر نہ کیا گیا۔ بعض اطلاعات کے مطابق 33 لاکھ میٹرک ٹن گندم خریدی گئی لیکن واقفان حال کا کہنا تھا کہ خریداری اس سے کہیں کم ہوئی ہے جس کی تصدیق موجودہ بحران سے ہو گئی ہے۔ ان حالات میں مقامی کسان مجبور ہوا اور اس نے اپنے خون پسینے کی کمائی سستے داموں پچھلے سال کے ریٹ پر ہی فروخت کر دی جبکہ اس عرصے میں ڈیزل پٹرول کی قیمتیں کئی گنا بڑھ چکی تھیں۔ یوں مافیا نے کسان سے سستے داموں گندم خریدکر سٹور کر لی اور مناسب وقت آنے پر فراہمی روک کر مصنوعی بحران کر دیا۔ یوں ریاست مدینہ کا نعرہ لگانے والوں کے نئے پاکستان میں کسان سے کوڑیوں کے بھاؤ خریدی گئی گندم اب من پسند منافع پر بیچی جا رہی ہے۔

کیا یہ بحران یک دم پیدا ہوا ہے؟ ایسا بالکل نہیں ہے کیونکہ جب روڈ ٹو دی پرافٹ پر یہ ٹریفک چلانے کی تیاری ہو رہی تھی تب کچھ لوگوں کو آنے والے بحران کا احساس تھا جیساکہ مئی جون 2019 ء میں (PFMA) پاکستان فلور ملز ایسوسی ایشن نے حکومت سے مطالبہ کیاکہ گندم کی برآمد پر پابندی لگائی جائے لیکن یہ مطالبہ اس بنیاد پر یہ مطالبہ مسترد کر دیا کہ پاکستان میں ضرورت کی وافر گندم میسر ہے۔ لیکن جولائی میں گندم اور آٹے کی برآمد پر پابندی لگا دی گئی جسے اسی سال اکتوبر میں ختم کر کے طور خم کے راستے گندم کی سپلائی شروع کر دی گئی۔

یوں بحران پیدا نہیں ہوا بلکہ بحران پیدا کیا گیا اور جب بحران پیدا ہو گیا تو ایک مرتبہ پھر خان اعظم نے ذمہ داری ایک کاروباری شخصیت کی ہی لگائی کہ اس بحران پر قابو پایا جائے۔ اب بتایا جا رہا ہے کہ چار الاکھ ٹن گندم (ڈیوٹی فری) درآمد کرنے کی منظوری دے دی گئی ہے۔ اس فیصلے کی آڑ میں مقامی کسا ن کو ایک بار پھر ٹیکا لگانے کا پورا پورا انتظام کر لیا گیا ہے کیونکہ یہ گندم مارچ میں پاکستان پہنچے گی۔ مارچ میں سندھ کے اور جنوبی پنجاب کے اضلاع میں گندم کی فصل تیار ہو جاتی ہے۔

یعنی جب باہر سے گندم پاکستان پہنچے گی اس وقت مقامی گندم بھی مارکیٹ میں آجائے گی۔ یوں مقامی کسان ایک بار پھر سستے داموں گندم بیچنے پر مجبور ہو گا۔ اس پورے سلسلے میں ذخیرہ اندوز وں کی تو پانچوں انگلیاں گھی میں ہوں گی لیکن مقامی کسان اور تنخواہ دار طبقہ پس کر رہ جائے گا۔ پہلے گندم سستی خرید کر پیسے کمائے گئے، پھر افغانستان برآمد کر کے مال بنایا گیا، پھر مصنوعی بحران پیدا کر کے لکشمی لائی گئی، اب باہر سے گندم خریداری کر کے منافع حاصل کیا جائے گا اور مارچ اپریل میں مقامی گندم سستے داموں خرید کرایک بار پھر تجوریاں بھری جائیں گی۔

ان حالات میں یہ کہاوت تو بہت پھیکی پڑ جاتی ہے کہ ”آموں کے آم گٹھلیوں کے دام“۔ ان حالات میں یہ سوال بہر حال باقی رہیں گے کہ گندم کی خریداری کا سرکاری ہدف کیوں مقرر نہ کیا گیا؟ اگر کیا گیا تھا تو کتنا پورا ہوا اور جوپورا نہ ہوا اس کی کیا وجہ تھی؟ زرعی معاملات کی ذمہ داری ایک ایسے شخص کو کیوں اورکن اخلاقی اور قانونی بنیادوں پر سونپی گئی جسے عدالت عالیہ تاحیات ناہل قرار دے چکی ہے؟ PFMA کے مطالبے کے باوجود گندم کی برآمدات پر پابندی کیوں نہ لگائی گئی؟ اگر ان کا مطالبہ غلط تھا تو دوماہ بعد حکومت نے خود پابندی کیوں لگائی؟

ان دو ماہ میں پس پردہ کیا ہوتا رہا؟ اگر حکومت کی اپنی لگائی گئی پابندی ٹھیک تھی تو اسی پابندی کو تقریباً دو ماہ بعد ختم کیوں کر دیا گیا؟ ان دو ماہ میں کیا ہوا؟ حکومت خود کہہ رہی ہے کہ مافیا نے مصنوعی بحران پیدا کیا ہے تو اس مافیا میں کون شامل ہے؟ کسی کو گرفتار کیاگیا ہے؟ اگر ہاں تو کس کو اور اگر نہیں تو کیوں؟ جب یہ خبریں آ رہی تھیں کہ پاکستان افغانستان میں بیس لاکھ ٹن گندم ایکسپورٹ کرنے کی کشش کر رہا ہے تو حکومت نے آنکھیں کیوں بند کی ہوئی تھیں؟

افغانستان جانے والے ٹرکوں کا دورانیہ دس گھنٹے اور پھر چوبیس گھنٹے روزانہ کیوں کیا گیا؟ جب افغانستان میں گندم سمگلنگ کرنے کی خبریں آ رہی تھیں لیکن حکومت ایک بھی اقدام کیوں نہ اٹھا پائی؟ ان سوالوں کے جواب بھی شاید وہیں گم ہو جائیں گے جہاں سانحہ ساہیوال کی تدفین کی گئی لیکن سلطنت شغلیہ میں ایک شغلیہ جواب پیش خدمت ہے ”لنگر خانوں کی کامیابی چاہیے تو معاشرے سے آٹا غائب کرنا پڑے گا“۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments