بھیرو کا استھان


بھیرو کا استھان اچھرہ میں واقع ہے۔ یہ لاہور میں موجود ہندو دھرم کے چند بڑے منادر میں سے ایک ہے۔

بھیرو کے استھان کی قدامت کے متعلق ہندو دوست مختلف دعویٰ کرتے ہیں۔ لاہور گزیٹییئر 1893 ء کے مرتبین کے مطابق ”ماضی میں اچھرہ کو اچھرہ لاہور کہا جاتا تھا اور لاہوری دروازہ بھی اچھرے کے رخ پر ہے۔ اس لیے اچھرہ کو اصل قدیم لاہور بتایا جاتا ہے۔ “ اور کہا جاتا ہے کہ بھیرو کا استھان بہت قدیم ہندو عہد کی عمارت ہے۔ مگر ان روایات کا اگر تجزیہ کیا جائے تو یہ درست معلوم نہیں ہوتیں۔

بھیرو کے استھان کے متعلق نور احمد چشتی لکھتے ہیں ”ایک شخص مسمی بدری ناتھ نے (مُجھ سے ) بیان کیا کہ میرا پڑدادا گودر شاہ بنارس میں ملازم دارا شکوہ بعہد شاہجہانی تھا۔ کسی معاملہ میں اس کے ذمہ مبلغات شاہی برآمد ہوئے۔ دارا شکوہ نے بہ نسبت اس کے حکم پھانسی کا دیا۔ اتفاقاً وہ پجاری بھیرو جی کا تھا۔ جس روز کہ صبح کو اس نے پھانسی پانی تھی اسی رات بھیرو شکل انسانی ایک اونٹنی لے کر اس کے پاس آ پہنچی اور اس کو مجس (زنداں ) سے نکال کر اپنے ہم ردیف اونٹنی پر بیٹھا باہر لے نکلی اور کہا: کہ اپنی آنکھیں بند کر۔

اس نے بند کر لیں۔ جب صبح ہوئی تو انہوں نے کہا: کہ اب آنکھیں کھول۔ اس دن اتوار کا دن تھا۔ جب اس نے آنکھیں کھولیں تو دیکھا کہ اونٹنی والا کہتا ہے کہ میں بھیرو ہوں۔ پھر وہ اس جگہ میں کہ جہاں اب استھان ہے چھپ گئے۔ (اس نے ) یاداشت کے واسطے اس جگہ مڑھی خام بطور نشان بنا دی۔ ”کہنیالال لکھتے ہیں“ جب (گودر شاہ) مر گیا تو اس کا بیٹا وستی رام خدمت کرنے لگا۔ اس نے اس جگہ خشتی چبوترہ بنوایا چاہ کھود کر صورت مکان کی بنائی۔

اس کے بعد جوالا ناتھ ہوا۔ جوالاناتھ نے موراں طوائف معشوقہ مہاراجہ رنجیت سنگھ کی والدہ کا آسیب دور کیا تو موراں نے سو گاڑی اینٹوں کی اس کو دی اور زر نقد بھی دیا۔ اس نے بہت سے مکانات اس جگہ بنائے۔ من بعد لالہ رام چندر برادر زادہ ساون مل ناظم ملتان نے پختہ مندر موجودہ بھیرو جی کا بنوایا اور ڈیوڑھی کلاں راجہ لال سنگھ نے مع اور عمارات موجودہ کے تعمیر کی۔ ”سید محمد لطیف مندر میں موجود عمارات کے متعلق کہتے ہیں“ یہ بہت بڑی عبادت گاہ ہے۔

لوگ ہجوم کی شکل میں ہر اتوار کو وہاں جاتے ہیں۔ یہ جگہ دلکش عمارتوں سے بھرپور ہے۔ یہاں پر لنگر خانہ، پجاریوں کے کمرے، فقیروں کے لئے حجرے، مہنتوں کے مکانات، مکئی پیسنے کے مکانات اور دیگر متفرق عمارات ہیں۔ بھیرو جی کے مندر میں ایک چراغ دن رات چلتا رہتا ہے اور چھت پر باہر کی طرف تانبے کی گھنٹی لٹکی ہوئی ہے۔ شیو جی کا بت جو ایک چبوترے پر رکھا گیا ہے اس کی بھی پوجا کی جاتی ہے۔ بھادوں کے مہینہ میں اس جگہ ایک بہت بڑا میلہ منعقد ہوتا ہے۔ مندر کے باہر ملتان کے ناظم مولراج کا تعمیر کردہ تالاب ہے۔ ایک سیڑھی کے ذریعے اس کی تہہ تک پہنچا جا سکتا ہے۔ ”

اوپر درج بیانات سے یہ واضح ہے کہ اس وقت جس عمارت کے آثار موجود ہیں وہ زیادہ قدیم نہیں جیسا کہ مفتی غلام سرور لکھتے ہیں ”ایک جوگی دھنی ناتھ نے امرائے دربار لاہور سے تعارف کر، کر یہ عمارت موجودہ بنوائی۔ “ یعنی موجودہ عمارت سکھ دور کی ہے اور زیادہ سے زیادہ اس مندر کی عمارت عہد شاہجہانی کی ہوسکتی ہے۔ یعنی کے یہ مندر کوئی ہزاروں سے قدیم نہیں جیسا کہ بعض لکھاری کہتے ہیں۔

1962 ء کے نقوش لاہور نمبر میں بھی مندر کے ساتھ موجود عمارات کا تذکرہ ہے۔ مگر آہستہ آہستہ ان پر قبضہ ہوتا گیا۔ کچھ برس قبل تک اس مندر کی ماضی میں موجود عمارات میں سے کافی کے آثار موجود تھے۔ مگر اب وہ ختم ہو جارہے ہیں۔ راؤ جاوید اقبال صاحب کے مطابق مندر کی 110 کنال زمین تھی جس میں سے 10 کنال زمیں بچی ہے باقی زمین پر قبضہ کرلیا گیا اور مندر کے جس وسیع تالاب کا ذکر کیا جاتا ہے آج کل اس پر میٹرو کا شمع اسٹیشن ہے۔ اسی طرح مندر کی زمین پر 20 سے زائد دکانیں بھی ہیں۔ 1992 ء کے سانحہ بابری مسجد کے مشتعل ردعمل میں ملک بھر کی ہندو عبادت گاہوں کو نقصان پہنچایا گیا اور بھیرو کے استھان میں بھی تباہی کی گئی۔

بھیرو کا استھان دیکھنے گیا تو کافی تلاش کرنا پڑا۔ مقامی لوگوں سے جب رہنمائی کے لیے پوچھا تو اول تو لوگ لاعلمی کا اظہار کرتے یا کہتے کہ اب یہاں کوئی مندر نہیں ہے وہ ختم ہوگیا ہے۔ لیکن پھرتے پھرتے ایک گلی میں مندر کا گنبد نظر آگیا۔ اور آخر کار مندر کی جگہ بھی مل گئی۔ ایک صاحب جو کہ کچھ پڑھے لکھے لگ رہے تھے ان سے معلومات حاصل کرنے کی کوشش کی تو انہوں نے کسی منیر صاحب کا پتہ تھما دیا اور ساتھ اپنا فون نمبر اور کہا کہ آپ ان سے جا کر مل لیں پھر مجھے فون کیجیے گا۔ منیر صاحب کو تلاش کیا۔ وہ ایک سبزی کی دکان کی پہلی منزل پر ملے۔ مگر اوپر تک جانا خاصا مشکل تھا۔ دکان پر کیمرے لگے ہوے تھے۔ آخر منیر صاحب نے کیمرے میں ہماری معصوم شکل دیکھ کر نیچے والوں کو کہا کہ انہیں آنے دو۔ بعد میں منیر صاحب سے گفتگو میں معلوم ہوا کہ یہ سب کچھ اتنا پرسرار کیوں ہے۔

مندر کی زمین آج کل کافی متنازع ہے۔ مندر کی 213 مرلے میں 118 مرلے زمین کا تنازع ہے۔ مندر کی زمین 1960 ء میں ہندو وقف بورڈ (ETPB) کے حوالے ہوئی۔ سن 2007 ء میں پرویز الہی صاحب نے کفالت پروگرام شروع کیا جس میں اس مندر کی زمین کو کچی آبادی بنا دیا گیا۔ سن 2010 ء میں اسوقت کے ایم این اے سردار ایاز صادق اور ایم پی اے میاں نعمان نے ایک جلسے میں مندر کی زمین کو 24 خاندانوں کو گھر بنانے کے لیے دینے کا اعلان کیا۔

اس وقت کے ہندو وقف بورڈ کے چیرمین سید آصف ہاشمی نے اس جگہ کو کچی آبادی ظاہر کیا جس پر انہی کے ادارے کے اسٹنٹ ڈائریکٹر نے اپیل کی یہ جگہ محکمے کی ہے جسے کچی آبادی کہا جارہا ہے، مگر ہاشمی صاحب نے حکم صادر کردیا کہ یہ جگہ مندر کی نہیں ہے۔ اس پر بعد میں منیر صاحب نے بھی کیس کیا جس پر عدالت نے تعمیرات رُکوا دیں۔ منیر صاحب ایک سبزی فروش ہیں مگر وہ کہتے ہیں کہ مندر ہو یا مسجد یا گُردوارہ سب قدیم عمارتیں ہمارا اثاثہ ہیں اور ہندو کیا سوچیں گئے کہ ہم نے ان کی مذہبی عبادت گاہ پر قبضہ کرلیا۔ اہل علاقہ انہیں خیالات کے باعث منیر صاحب کے دشمن ہیں حتیٰ کہ ان کے بقول ان کو کافی مرتبہ دھمکایا بھی گیا ہے اور ان پر پرچے بھی درج کرواے گئے ہیں۔ منیر صاحب نے مندر کے حوالے سے کیے گئے کیس اور مندر کی زمین کے متعلق دیگر کاغذات بھی دیے۔

مندر کی زمین کے ریکارڈ سے معلوم ہوتا ہے کہ مندر کی زمین ودیاناتھ چیلہ باوا برستی (یا پرستی) ناتھ کے نام پر تھی اور سن 1925 ء سرکار بندوبست کے حکم سے مندر کی زمین کو ہر طرح کے ٹیکس سے مستثنٰی قرار دیا گیا۔ ودیاناتھ کے بعد مندر بھرم ناتھ چیلہ کا زیر انتظام رہا۔

جن صاحب نے منیر صاحب کا پتہ دیا ان کو فون کیا تو وہ آ گئے اور اپنے ساتھ مندر کے موجود آثار دکھائے۔ دراصل مندر کی زمین پر جن لوگوں نے گھر بنائے ہوئے ہیں وہ کافی متشدد ہیں اس لیے وہاں رہائش پذیر لوگوں کے علاوہ دیگر افراد کو وہاں جانے نہیں دیتے۔ اسی وجہ سے اندر جانے کے باوجود تصاویر کھینچنا کافی مشکل ہے۔

مندر کی قلعہ کی دیوار کی طرح ایک موٹی اور تقریباً بیس فٹ اونچی دیوار ہے۔ اسی دیوار سے نشاندہی ہوتی ہے کہ یہاں سے مندر کی خاص عمارت شروع ہورہی ہے۔ مگر اہل علاقہ نے پہلے تو اس جگہ کا نام بھیرو کا استھان سے بدل کر مدینہ کالونی رکھ لیا اور اب ان کے قبضہ کرنے میں حائل اس دیوار کو گرانے کا انہوں نے حل یہ سوچا ہے کہ دیوار کو ایک جانب توڑ کر وہاں مدینہ مسجد بنا دی گئی ہے۔ اب مسجد کی توسیع کرتے کرتے وہ ساری دیوار توڑ دیں گے۔ حالانکہ وہاں قریب ہی جامع مسجد موجود ہے۔ مگر ایک عبادت گاہ پر قبضہ کرنے کے لیے استعمال کیا جارہا مسجد کو۔

بھیرو کا استھان لاہور کی ایک اہم تاریخی عمارت ہے۔ کہا جاتا ہے کہ مندر کا کلس سونے کا تھا مگر آج عمارت کا کوئی حال نہیں۔ اور عجب ہے کہ ہندو وقف بورڈ اپنی زمین کو ہی اپنا تسلیم کرنے سے انکاری ہے۔ منیر صاحب کو مل کر احساس ہوا کہ ابھی اہلیان وطن میں کچھ اچھے لوگ زندہ ہیں۔ ایسے سر پھرے جو سچ و حق کے لئے جان کی بازی لگا دیتے ہیں۔ مگر حکومت کا کردار انتہائی منفی ہے۔ جب قانون ساز ہی چند وٹووں کی خاطر قانون شکنی پر اُتر آئیں تو پھر قانون کی عمل داری فقط خواب بن جاتی ہے۔

یہ معاملہ صرف بھیرو کے استھان کا نہیں ہے لاہور کی تقریباً ہر تاریخی عمارت پر یونہی قبضہ کر لیا گیا اور ہمیشہ متعلقہ محکمے سوتے رہے۔ اور منادر پر قبضے کو کیا رونا مسلم اکثریت والے اس شہر کی آپ قدیم مساجد دیکھنے جائیں تو ان پر بھی قبضہ کر لیا گیا ہے یا کیا جارہا ہے۔ عمارتیں خستہ حال ہیں۔ موجودہ حکومت اگر سنجیدگی سے سیاحت کا فروغ چاہتی تو اسے چاہیے کہ پہلے تاریخی عمارات کی جگہ پر قبضے ختم کروائے اور تاریخی عمارات کو بلا تقریق مذہب بحال کیا جائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments